ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
حصولِ اقتدار سے پہلے محترم عمران خاں اپنے انٹرویوز، پریس کانفرنسز اور عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے "قرضہ نہیں لوں گا، 90 دنوں میں ملک کی تقدیر بدل دوں گا، پٹرول گیس اور بجلی سستی کر دوں گا، ڈالر مہنگا نہیں ہونے دوں گا، ٹیکس ایمنسٹی سکیم نہیں دوں گا، میٹرو بس نہیں بناؤں گا، جیتنے والے آزاد اُمیدواروں کو نہیں لوں گا، اگر واضح اکثریت نہ ملی تو اپوزیشن میں بیٹھوں گا، سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں لوں گا، وزیرِاعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بناؤں گا، گورنر ہاؤسز پر بلڈوزر چلواؤں گا، عام کمرشل فلائیٹ میں سفر کروں گا۔
ہیلی کاپٹر کی بجائے ہالینڈ کے وزیرِاعظم کی طرح سائیکل پر جاؤں گا، مختصر کابینہ رکھوں گا، جس پر الزام ہوگا اُسے عہدہ نہیں دوں گا، جو حلقہ کہیں گے اُسے کھول دوں گا"۔ اِس کے علاوہ بھی قوم سے کئی وعدے کیے گئے جن میں سب سے بڑھ کر ریاستِ مدینہ کی تشکیل۔ محترم عمران خاں کے اِن دِل خوش کُن نعروں اور وعدوں کو سُن کر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا دھارا بدلتا ہوا محسوس ہوا۔ زندانِ تمنا کے اسیر سمجھے کہ جو شخص شوکت خانم جیسا رفیع الشان کینسر ہسپتال کھڑا کر سکتا ہے، اُس سے کچھ بھی بعید نہیں۔
اِسی لیے آشاؤں کے دیپ روشن ہوئے اور لوگ، خصوصاََ نوجوان دیوانہ وار اُس کی آواز پر لبّیک کہنے لگے۔ صاحبانِ فکرونظر کو مگر پہلا جھٹکا اُس وقت لگا، جب ڈال ڈال پھدکنے والے جوق در جوق اُس "شجرِاُمید" کی شاخوں سے لٹکنے لگے۔ تب خاں سے سوال ہوا کہ کیا اِن آزمودہ لوٹوں سے وہ انقلاب لائیں گے، جن کی سیاست پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ختم ہو جاتی ہے؟ جواب ملا "اگر حاکم ٹھیک ہو تو عمالِ حکومت خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں "۔
حصولِ اقتدار کے بعد خاں صاحب نے قوم سے کیے گئے اِن وعدوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا اور یوں دَورِ کرب کو شگفتِ بہار میں ڈھلتا دیکھنے کی تمنا رکھنے والوں، اور صحنِ چمن میں مرغانِ خوش الحان کی نغمے سننے کی خواہش کے اسیروں میں سے غالب اکثریت کی آس کی ڈور ٹوٹ گئی۔ اب صورتِ حال یہ کہ ہر بین الاقوامی سروے میں، وزیرِاعظم کی مقبولیت کا گراف گرتا ہی چلا جا رہا ہے اور اُن کے گھر لوٹنے کی سرگوشیاں فضاؤں میں۔
مکرر عرض ہے کہ جب خاں صاحب نے قوم سے کیے گئے وعدوں میں سے، کوئی ایک بھی ایفاء نہیں کیا تو پھر وہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا عظیم ترین معرکہ کیسے سَر کر سکتے ہیں؟ محترم! ریاستِ مدینہ کی تو خشتِ اوّل ہی اپنے وعدوں کی تکمیل ہے کیونکہ رَبِّ کریم نے مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بتائی،
"بیشک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا" (سورۃ الاسراء:34)۔
سورۃ المومنون:8 میں مومنین کی خاصیت یہ بتائی گئی، " وہ اپنے عہد کی پاسداری کرنے والے ہوتے ہیں "۔
یہی حکم سورۃ النحل، سورہ البقرہ، سورہ الاعراف، سورہ الرعد اور دیگر کئی سورتوں میں بھی دیا گیا ہے، لیکن ہمارے وزیرِاعظم صاحب کے سارے وعدے اُن کے یوٹرنوں کی نذر ہو گئے۔ ریاستِ مدینہ کی دوسری شرط عدل وقسط ہے(یہاں قسط سے مراد مستقل بنیادوں پر حقوق کی ادائیگی ہے)۔ اسلام رواداری اور امن وسلامتی کا دین ہے، جس کے تمام باشندے بلاامتیازِ رنگ ونسل اور مذہب وملت بنیادی حقوق کے حقدار ہیں۔ عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اللہ کا فرمان ہے
"اور جب لوگوں میں تصفیہ کیا کرو تو عدل سے کیا کرو" (النساء 53)۔
ایک اور جگہ یوں فرمایا
"عدل کیا کرو کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے" (سورۃ المائدہ 8)۔
اِسی سورۃ مبارکہ میں یوں ارشاد ہوا
"بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے"۔
سورہ الحدید 25 میں مزید صراحت یوں کر دی گئی"ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے احکام دے کر بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور انصاف کرنے کو نازل فرمایا، تاکہ لوگ اعتدال پر قائم رہیں "۔
تحریکِ انصاف کے عدل کا پیمانہ یہ ہےکہ احتساب وعذاب صرف اپوزیشن کے لیے اور اپنوں سے صرفِ نظر۔ عمل بالجہدکا یہ عالم کہ ساری توانائیاں صرف اپوزیشن کے خاتمے پر مرکوز، بھوکوں مرتی قوم کاکچھ خیال نہیں۔ عزت وناموس کا یہ حال کہ کشکولِ گدائی تھامے دَربدر، حالانکہ رَبِ لَم یزل کا قطعی فرمان ہے کہ "کیا رحمٰن اپنے بندے کے لیے کافی نہیں "؟ تحریکِ انصاف کے اِن تین سالوں میں عوام کی عزت وآبرو اور جان ومال کی حفاظت کے کئی مظاہر عوام کے سامنےہیں، جن کا فیصلہ بھی عوام خود ہی اپنے ووٹ کی طاقت سے کریں گے۔
22 دسمبر 2021ء کو وزیرِاعظم صاحب نے گونمنٹ کالج یونیورسٹی میں انیس کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ صوفی ازم، سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے ابوالحسن الشاذلی ریسرچ سینٹر کا افتتاح تو کر دیا لیکن شاید اُنہوں نے "صوفی ازم" کی روح تک اُترنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ صوفی ہر اُس چیز، خیال، عمل یا رویے کو اہمیت دیتا ہے جو انسانی فلاح وبہبود کے لیے ہو۔ صوفی عاجزی کا نمونہ ہوتا ہے۔ وہ غروروتکبر اور ذاتی شہرت سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ عیش وعشرت کی زندگی سے مکمل اجتناب برتتا ہے اور اپنے حسنِ سلوک سے مخالفین کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ حکمت کی عظیم الشان کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں درج کر دیا گیا،
"رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں " (سورۃ الفرقان 63)۔
حضورِاکرمﷺ کا فرمان ہے"طاقتور وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے"۔
یہاں معاملہ مگر یکسر اُلٹ ہےکہ اپنی ذات کے گنبد میں گُم وزیرِاعظم صاحب خود کو "برانڈ" کہتے ہیں۔ اِسی کو انتہائے خود پسندی یا نرگسیت کہتے ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا "ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمانوں نے پہلے پانچ سال بہت مشکلات کا سامنا کیا"۔ وزیرِاعظم کے اِس بیان کو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی انتہائی بھونڈی کوشش ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُنہوں نے صحابہ کرام کی عظمتوں کو کھنکتے سِکوں میں تولنے کی کوشش کی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی دولت کی مہاجرین اور انصارِ مدینہ کے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں تھی۔
حضورِاکرمﷺ نے تو صحابہ اکرام رضوان علیہم سے بیعت لے رکھی تھی کہ وہ کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کریں گے۔ جہاں تک کامیابیوں وکامرانیوں کا تعلق ہے تو آج بھی دنیا حیران ہےکہ ہجرت کے پہلے سال ہی حضرت محمد ﷺ نے "میثاقِ مدینہ" کی صورت میں ایک عظیم اسلامی ریاست کا ڈھانچہ کیسے تشکیل دے دیا؟ جبکہ اُس وقت یثرب میں مسلمانوں کی تعداد یہودیوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ یثرب میں انصار کے دو قبائل بنو اوس اور بنو خزرج مسلمان تھے جبکہ بنو قینقاع، بنو قریظہ اور بنو نضیریہودی قبائل کے علاوہ اردگرد کے قبائل بھی اِس معاہدے میں شامل تھے۔
اِن تمام قبائل نے حضور ﷺ کو اپنا سربراہ تسلیم کیا۔ حضورِ اکرم ﷺ کی ہجرت اور وصال کے درمیان دَس سال کا عرصہ ہے۔ 11 ہجری میں جب آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے، اُس وقت یمن، بحرین، نجران اور نجد سمیت پورا جزیرۃ العرب ریاستِ مدینہ میں شامل ہو چکا تھا۔ ہجرت کے پہلے پانچ سالوں میں بھی مسلمانوں کو تمام غزوات میں فتح نصیب ہوئی۔ مورخین آج بھی مدینہ کی فلاحی ریاست کے آئین کو مکمل ضابطۂ حیات قرار دیتے ہیں۔
حرفِ آخر یہ کہ اگر وزیرِاعظم صاحب، واقعی ریاستِ مدینہ کی تشکیل چاہتے ہیں تو پھر اُنہیں سب سے پہلے اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات قرار دینا ہوگا کیونکہ یہ ضابطۂ حیات رَبِّ کائنات کا عطا کردہ ہے، جس میں کوئی کجی ناممکن۔ یہی وہ نظریہ ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہے اور ہماری معاشی، معاشرتی، سماجی اور مذہبی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہوئے حل بتاتا ہے۔