اُمتِ مسلمہ کی بے حسی اور غزہ کے مظلوم
ملتِ اسلامیہ کے ستاون ممالک کے حکمرانوں کے بیانات، تجزیہ نگاروں، دانشوروں، سیاست دانوں یہاں تک کہ اس اُمت کے علماء تک کی گفتگو سُنیں یا تحریر پر غور کریں جو ان دنوں فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و تشدد اور بربریت کے جواب میں لکھی جا رہی ہے تو آپ کو ان سب میں ایک نکتہ مشترک ملے گا۔ "ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں"۔
حکمران بیان جاری کرتے اور عوام چوراہوں، سڑکوں، پریس کلبوں اور عالمی دفاتر کے سامنے پلے کارڈ اٹھائے، نعرے لگاتے اور موم بتیاں جلاتے نظر آئیں گے۔ یہ سب اس بات پر کس قدر مطمئن ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ ہم نے اپنا حصہ ڈال دیا۔ اب ہم دن بھر شاپنگ کریں، عیش و عشرت میں گم رہیں اور پھر رات کو مزے کی نیند سو جائیں۔
یہ عالمی ضمیر ہے کیا چیز۔ کیا گیارہ ستمبر کے بعد ہر بڑے چھوٹے، بوڑھے جوان نے اس کا "بے ضمیر" چہرہ نہیں دیکھا؟ کیا اسی عالمی ضمیر نے اقوام متحدہ میں اکٹھے ہو کر اڑتالیس سے زیادہ ممالک کو یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ تم ایک ایسے ملک، افغانستان پر ٹوٹ پڑو، جو وسائل کے اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے کمزور ہے۔ اس کے پاس تو رسد و رسائل کے ذرائع ہیں اور نہ ہی اعلیٰ ٹیکنالوجی، مگر اس ملک کے نہتے پن کے باوجود، پہاڑوں، جنگلوں اور بیابانوں میں آباد افغان قوم کے چرواہوں اور کسانوں کو انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن قرار دے دیا گیا، اور یوں دنیا کے یہ "اڑتالیس غنڈے" اس ملک پر چڑھ دوڑے۔
اس "بے ضمیر عالمی ضمیر" کے نمائندہ کے طور پر جب پاکستانی وفد مصالحت کاری کے لئے ملا محمد عمر کے پاس گیا تو انہوں نے اور بہت سی باتوں کے علاوہ ایک بات ایسی کی تھی، جو اس کے بعد ہو بہو سچ ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا تھا "دیکھو ایک دن تم سب اس عالمی ظلم کا شکار بنو گے۔ ہماری باری تم سے پہلے آ گئی ہے، مگر کل تمہاری بھی آ جائے گی۔ تم امریکی حکومت کے ترجمان بن کر ہمیں مٹی میں مل جانے سے ڈرانے آئے ہو۔
ہمیں خاک ہونے کا ڈر نہیں ہے کیونکہ ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں، مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور ہمارا اس بات پر مکمل ایمان ہے کہ ایک دن ہم نے مٹی میں چلے جانا ہے۔ لیکن یاد رکھو ان ستاون اسلامی ممالک کے شہریوں کا کیا ہوگا، جنہوں نے اپنے لئے آسمان سے چھوتی عمارتیں تعمیر کر رکھی ہیں۔ اپنی زندگی کے لئے آسائش اور تعیش کا سامان جمع کر رکھا ہے۔ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، متحد ہو جاؤ۔ باریاں مت لگاؤ"۔ لیکن پوری اُمت کے حکمرانوں نے اس مردِ مجاہد کی بجائے "بے ضمیر عالمی ضمیر" کا ساتھ دیا۔
تقریباً ہر پڑوسی اسلامی ملک نے افغانستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی۔ پاکستان سے امریکی طیارے ستاون ہزار دفعہ اڑے اور انہوں نے ایسے ہی افغان مسلمانوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے جس طرح آج غزہ میں اسرائیل کر رہا ہے۔ ایران نے نہ صرف بدترین خاموشی دکھائی، بلکہ اس کے پاسداران کے سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر امریکی حملے کے دوران ہمارے جوان شمالی اتحاد کے ساتھ شانہ بشانہ نہ لڑ رہے ہوتے تو یہ فتح ممکن ہی نہ تھی۔
تاجکستان نے کابل کی طرف پیش قدمی کے لئے قلاب کا راستہ دیا۔ یوں"بے ضمیر عالمی ضمیر" مسلمہ اُمہ کے بے حس حکمرانوں سے مطمئن ہوگیا۔ یوں دنیا کے امن کے لئے سب سے بڑے خطرے "افغانستان" پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا۔ مگر کیا اس کے بعد کسی اور کی باری نہیں آئی۔ شاید ہم بھول گئے۔ اس کے بعد عراق تھا۔ اس کے لئے تو کسی نے نیو یارک میں موجود عالمی ضمیر کی علامت اقوام متحدہ سے اجازت لینے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی فوجی قوت اور میڈیا کے پراپیگنڈے کے زور پر عراق میں داخل ہو گئے۔ کون سا مسلمان پڑوسی تھا، جس نے اس ظلم پر احتجاج کیا ہو، احتجاج ہوا بھی تو صرف مغرب کے شہروں میں۔
مسلمان ملکوں نے اس "بے ضمیر عالمی ضمیر" کے سامنے نہ صرف سر جھکایا بلکہ سجدہ ہائے تعظیمی کیا۔ شام، اُردن، کویت، قطر، سعودی عرب اور ایران سب کے سب کئی سال عراق کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے قتل عام کا خاموش تماشہ دیکھتے رہے۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو بات سمجھ میں آتی تھی، کہ ان کا ضمیر اس "بے ضمیر عالمی ضمیر" نے خرید لیا ہے۔ لیکن پھر ان دونوں ملکوں میں جب ان عالمی غنڈوں نے اپنی مرضی کے آئین تحریر کئے، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے اور اپنی کاسہ لیس حکومتیں قائم کیں تو ان تمام ممالک نے ان دونوں حکومتوں کو نہ صرف جائز تسلیم کیا بلکہ ان کے ہر ظلم پر بدترین خاموشی اختیار کی۔
امریکی سرپرستی میں قائم افغانستان اور عراق کی یہ حکومتیں شہروں کے شہر اجاڑتی رہیں، لوگوں کو دہشت گرد، القاعدہ کا ساتھی اور باغی کہہ کر قتل کرتی رہیں اور ان دونوں ملکوں کے حکمرانوں کا تمام پڑوسی مسلمان ملک اپنے ایوانوں میں استقبال کرتے رہے۔ وہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین تھے، وہ ریاض، تہران، اسلام آباد اور دمشق جیسے شہروں میں باہمی دلچسپی کے اُمور پر تبادلہ خیال کرتے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے رہے۔ ہر ملک کے بِکاؤ میڈیا نے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی قرار دیا۔
جان پلجر (Jon Plijer) کی وہ مشہور ڈاکومنٹری "War you have not seen" (جنگ جو آپ نے دیکھی نہیں) ایسے تمام چہروں کو بے نقاب کرتی ہے جو اس عالمی ضمیر اور عالمی پراپیگنڈے کے سامنے سربسجود ہو گئے تھے۔ مسلمانوں نے اپنی بے حسی سے اس "بے ضمیر عالمی ضمیر" کو اپنے بارے میں ایک پتے کی بات بتا دی کہ ہم بے حس ہیں، بے ضمیر ہیں اور تم جس اسلامی ملک کے شہریوں کو بھی دہشت گرد اور انسانیت کے لئے خطرہ تصور کرکے ان کے گھر بار، خاندان اور آبادی سب کو تباہ کرو گے، ہم بالکل خاموش رہیں گے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو آج اسرائیل کی حکومت اور اس کے حواری بول رہے ہیں۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے سرکاری سطح پر بیان دے رہے ہیں۔
یہ ہمارا پچھتر سالہ روّیہ ہے، ہم ریلیاں نکالتے ہیں، پلے کارڈ اُٹھاتے ہیں، یوم القدس مناتے ہیں اور دنیا بھر کے ہر فرقے کے علماء اس ظلم پر "بے ضمیر عالمی ضمیر" سے فیصلہ کی بھیک مانگنے سڑکوں پر نکلتے رہے ہیں۔ کیا انہوں نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی "اے پیغمبر! کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لائے جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا، لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ اپنا معاملہ فیصلے کے لئے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ طاغوت کا کھل کر انکار کریں" (النسا: 60)۔
تجزیہ نگار، دانشور، سیاست دان یہاں تک وہ علمائے کرام جنہوں نے اس آیت کو بار بار پڑھا ہوگا اور اللہ کے اس حکم کو لوگوں کو سنایا بھی ہوگا، وہ سب بھی اپنا معاملہ اور اپنا فیصلہ طاغوت سے کروانا چاہتے ہیں اور کس قدر بھولے ہیں کہ یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ کیا یہ سب نہیں جانتے کہ یہ دورِ فتن ہے۔ کیا ان سب نے احادیث کی کتب میں فتن کے ابواب اور ان میں درج احادیث نہیں دیکھیں۔ لیکن کس قدر بدقسمتی ہے کہ افغانستان کے بعد اس اُمت کے حکمران اور ان کے مسلکی علماء عراق اور شام میں ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے تلواریں نکالتے رہے، جیش تیار کرتے رہے۔ کوئی ایک حکومت کو بچانے کے لئے فتویٰ دیتا تھا تو کوئی دوسرا اس کو گرانے کے لئے لوگ بھیجتا۔
کسی کو اینٹوں اور سنگ مرمر کے مزارات کے تحفظ کے لئے جان دینا جہاد لگتا تھا تو کسی دوسرے کو ان مزارات کو گرا کر اپنا پرچم بلند کرنے میں توحید نظر آتی تھی۔ ان ستاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں تو دُور کی بات ان کے علماء میں بھی یکسوئی نہ پہلے تھی اور نہ ہی آج ہے کہ وہ یہ اعلان کریں کہ نہتے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر لڑنا فرض عین اور جہاد ہے۔ اس اُمت کے ممالک کی پچاس لاکھ سے زیادہ افواج ہیں، جو کیل کانٹے سے لیس ہیں اور اپنے بغل میں ایٹم بم بھی رکھتی ہیں۔ یہ ساری طاقتیں اور قوت انہیں صرف اور صرف اللہ نے عطا کی ہے اور میرا اللہ روزِ قیامت ان سے ان ہتھیاروں اور افواج کی قوت کا حساب ضرور لے گا۔
تم سے سوال ہوگا کہ تم نے اس اُمت کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات کے لئے اپنی اس طاقت کو کیوں استعمال نہیں کیا۔ جو جتنے بڑے منصب پر ہوگا روزِ حشر اس کی اتنی ہی بڑی جواب دہی ہوگی۔ سب جانب خاموشی ہے، سکوت ہے، حکمرانوں کے بیانات ہیں، پلے کارڈز ہیں، بینرز ہیں، تبصرے ہیں۔ شاید یہی وہ زمانہ تھا جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ "لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان میں پڑھے لکھے لوگ بھی یہی کہیں گے کہ یہ جہاد کا دَور نہیں ہے۔ لہٰذا جس کسی کو ایسا دَور ملے تو وہ جان لے کہ یہی جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی مسلمان جہاد کے بارے ایسا کہہ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! جن پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی"۔ (السنن الواردۃ الفتن)
کیا ستاون اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے کہ جو تمام اسلامی ممالک کو اکٹھا ہونے کی دعوت دے کہ آؤ ہم اپنے فیصلے طاغوت یعنی اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے نہیں بلکہ خود کریں، خود اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کریں۔ ہم سب نے عالمی قوتوں سے مل کر گیارہ ستمبر کے بعد لفظ "جہاد" کو دہشت گردی کا بدل بنا کر بدنام کیا، لیکن میرے اللہ نے پوری دنیا کی قوت اور ٹیکنالوجی کو افغانستان کے پہاڑوں میں ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ آج اس ایک لفظ "جہاد" کو منہ سے نکالنے پر ہمیں جس قدر شرمندگی ہوتی ہے، جان لیں کہ اس سے کئی گنا زیادہ شرمندگی ہمیں روزِ قیامت ہوگی، جب ہم سے ان مظلوموں کے بارے سوال کیا جائے گا۔
(نوٹ): مظفر گڑھ میں چھ سو سے زائد یتیم اور نادار بچوں کی مکمل فری تعلیم کا ادارہ غوثیہ کالج گذشتہ چودہ سال سے انتہائی شاندار خدمات انجام دے رہا ہے۔ ان کے پرنسپل ڈاکٹر محمد طارق کا فون نمبر 03003312052 ہے۔ اہل خیر اس نمبر پر ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔