Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Saal Nao Ka Pehla Mujrim

Saal Nao Ka Pehla Mujrim

سال نو کا پہلا مجرم

سال نو کی خوش بختی اور خوش نصیبی ہے کہ 2019ء کا آغاز میرے ٹیلی ویژن پروگرام "حرف راز" پر پابندی سے ہوا۔ ایک آگ جو مدت سے سلگ رہی تھی شعلہ بن کر بھڑک اٹھی۔ یہ چنگاری گزشتہ ڈیڑھ سال سے سلگ رہی تھی۔ عین اس دن سے جب سات ستمبر 2017ء کو میں نے پاکستان کی دوسری آئینی ترمیم والے دن، اس ترمیم کی یاد میں پروگرام کیا۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی بنیاد، رنگ، نسل، زبان اور علاقے پر نہیں، مذہب یعنی اسلام پر رکھی گئی ہے۔ جس طرح ہر ملک اپنی وجۂ تخلیق کے بارے میں بہت محتاط ہوتا ہے اور اس کی جامع تعریف اپنے آئین میں درج کرتا ہے ویسے ہی چونکہ پاکستان کی وجہ تخلیق اسلام اور مسلمان تھی۔ اس لئے ان دونوں کی ایک جامع تعریف بہت ضروری تھی۔

ریاستیں اپنے علاقوں کی تعریف کرتے ہوئے ایک ایک انچ کی پیمائش اور حد بندی کرتی ہیں، نسل کی بنیاد پر قائم ریاستیں تحقیقات کے دفتر کے دفتر لکھ ڈالتی ہیں کہ جرمن نسل کون سی ہے اور آئرش کس طرح کے ہوتے ہیں۔ کوریا اور چین والے بظاہر ناک نقشے اور رنگ روپ میں ایک جیسے ہیں لیکن نسل کے اعتبار سے دونوں واضح تفریق کرتے ہیں اور اس پر باقاعدہ اصرار کرتے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے کہ ان تمام ملکوں میں آباد اقوام رنگ، نسل اور زبان کی وجہ سے اپنی شناخت رکھتی ہیں۔

ایک جیسی صورت اور نسل کیوں نہ ہو مگر جاپانی، چینی، ویت نامی، فلپائنی اور کوریائی منقسم ہیں اور اپنی اپنی زبان کی اصلیت، خاصیت اور شفافیت کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہی حال یورپ میں ہالینڈ، بلجیم، جرمن، فرانس اور دیگر ممالک میں ایک جیسے دکھنے والے اور ایک کا کیشئن نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی فرانسیسی اور جرمن زبان کے قواعد و ضوابط اور اصول ایسے مرتب کرتے ہیں کہ دونوں نسلیں اورقومیں مختلف دکھائی دیں۔ اسی لئے پاکستان کے آئین کے لئے یہ ضروری تھا کہ اسلام اور مسلمان کی تعریف کر دی جائے۔ اس تعریف کا عمل یوں تو قرار داد مقاصد سے شروع ہو گیا تھا، لیکن پھر پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ کی مسلسل ناہمواری نے اسے تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔

1973ء کے آئین کے آغاز میں بھی یہ سقم باقی تھا جسے سات ستمبر 1974ء کو مکمل کر دیا گیا اور دوسری ترمیم کے ذریعے اسلام اور مسلمان کی جامع تعریف کرتے ہوئے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ اس لئے یہ دن پاکستان تاریخ کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اس دن وجہ تخلیق پاکستان یعنی اسلام اور مسلمان کی حدود و قیود کا آئینی طور پر تعین ہوا تھا۔ لیکن بدقسمتی کا عالم یہ رہا کہ 1974ء سے لے کر 2017ء تک 43سال تک نہ یہ دن سرکاری سطح پر منایا گیا اور نہ ہی اسے میڈیا پر کوئی اہمیت دی گئی۔ کبھی کبھار کوئی اخبار اپنی ذاتی خواہش اور عقیدت میں اس پر اکا دکا مضمون شائع کر دیتا ہے۔

علماء کرام میں سے بھی چند افراد جلسے اور تقریبات منعقد کراتے اور سال بھر خاموش بیٹھ جاتے۔ ضیاء الحق کے دور تک کسی نہ کسی طور پر اس معاملے پر گفتگو ہوتی رہتی اور اس آئینی ترمیم کی وجہ سے ایک طرح کے سیکولر لوگ اور سیدالانبیاء ؐکی حرمت کے جانثار دوسری طرح کے لوگ بھی اس معاملے پر زبان نہیں کھولتے تھے۔ نہ ہی مملکت خداداد پاکستان میں کوئی قادیانی یہ جرأت کرتا تھا کہ آئینی ترمیم کے بعد زبان کھولے کہ جدید دور میں آئین کی خلاف ورزی تو بغاوت کے برابر ہے۔

پرویز مشرف نے جس طرح سیکولرازم، لبرل ازم اور الحادکا ماحول اس ملک کو تحفے میں دیا۔ وہیں قادیانیوں کو انسانی حقوق کے نام پر آئین پاکستان کے خلاف بولنے کا راستہ بھی دیا۔ تمام این جی اوز، سول سوسائٹی، مغربی گماشتے اور سیکولر لبرل طاقتیں قادیانیوں کو 1974ء سے پہلے والی پوزیشن میں لانے کے لئے سرگرم عمل ہو گئیں۔ آپ اس دور کی انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کی رپورٹس اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو قادیانی دنیا بھر میں فلسطینیوں اور کشمیریوں سے بھی زیادہ مظلوم دکھائی دیں گے۔

تمام مغربی ممالک اور ان کے پروردہ سول سوسائٹی کے ارکان اس عرصہ میں بوسنیا، عراق، افغانستان، شام، کشمیر اور فلسطین پر خاموش رہنے کے ساتھ ساتھ، بغض اسلام میں قادیانیوں کی دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کو ایک بہت بڑے انسانی مسئلے کے طور پر پیش کرتے تھے، حالانکہ جرمن اور انگلینڈ کی عدالتیں اب یہ فیصلے دے چکی ہیں کہ قادیانیوں نے ایک بہت بڑے انسانی سمگلنگ کے گروہ کا روپ دھار لیا ہے۔

یہ اگر پاکستان کے آئین کے مطابق زندگی گزاریں تو ان پر وہاں کوئی پابندی نہیں، لیکن یہ تو آئین سے بغاوت کر کے یہاں پناہ تلاش کرتے ہیں اور ہر قادیانی یہاں بہتر معاشی مستقبل کے لئے آتا ہے۔ ایسے میں اکا دکا آوازیں پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں بھی نظر آنا شروع ہو گئیں، جن میں قادیانیوں کو دنیا کا مظلوم ترین طبقہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔

پاکستان میں فروغ پانے والی سیکولر ایجوکیشن نے اس موقف کو سکولوں اور کالجوں میں بزور پہنچایا اور ایک ایسی نسل تیار کر دی گئی جو پاکستان کی ریاست اور آئین کو ظالم سمجھتی تھی۔ یہ تھا وہ عالم جب پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلوں پر قادیانیوں کے خلاف بولنا تقریباً تقریباً دہشت گردی کے حق میں بولنے کے مترادف ہو چکا تھا۔ اس صورت حال میں تقریباً چالیس سال کی مسلسل خاموشی کے بعد جب میں نے سات ستمبر 2017ء کو دوسری آئینی ترمیم پر ایک پروگرام کیا تو ایوانوں میں پہلی چنگاری سلگی۔

یہ پہلا نوٹس تھا، جس کی تعمیل میں لاہور کے پیمرا کے دفتر میں حاضری دی تو لاہور ہائی کورٹ کے کئی سو وکلاء میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی موجود تھے۔ اس پیشی کا عالم بھی عجیب تھا۔ مجھے فرقہ واریت پھیلانے کے جرم میں بلایا گیا تھا اور تمام وکلاء یہ سوال کر رہے تھے کہ کیا آئینی ترمیم کی یاد مناناجرم ہے۔ اسی پیشی پر نوٹس تو واپس لے لیا گیا لیکن اس واپسی کی چنگاریاں کُوبہ کُو پھیلنے لگیں۔ حسین حقانی کی بیوی فرح ناز اصفہانی نے امریکہ میں میرے خلاف مہم شروع کی۔

ربوہ ٹائمز سے لے کر تمام قادیانی میڈیا نے سیکولر میڈیا سے مل کر سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر میرا نام ناقابل نفرت بنایا۔ یوں جب میں تیس مارچ کو نیو یارک میں یوم پاکستان کی تقریب میں جا رہا تھا تو مجھے طیارے سے اتار دیا گیا۔ گزشتہ دنوں ناروے میں سیدنا علی ہجویری کانفرنس میں جا رہا تھا تو ناروے کے سیکولر لبرل اور قادیانی متحد ہو گئے اور اس کانفرنس کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا گیا۔ یہ تھی وہ چنگاری جو سلگ رہی تھی۔ مجھے اپنا جرم معلوم ہے اور فریق ثانی کو بھی خوب علم ہے کہ میرا اصل جرم کیا ہے۔

ہم دونوں نے جلد اس دنیا سے اس جہان رخصت ہو جانا ہے جہاں میرا ایمان ہے کہ میرا جرم اور میری سیاہی اللہ کے فضل و کرم اور سیدالانبیائؐ کی شفاعت کے صدقے میرے گناہوں کو ڈھانپ لے گی، میری کمزوریوں کو چھپا لے گی اور میرے جیسے بے مایہ کم علم، کم مرتبہ شخص کی نجات کا ذریعے بنے گی۔ سال نو کا یہ جرم مجھے پیارا ہے، بہت ہی پیارا۔ اس سال کے پہلے مجرم "حرف راز" کو اس جرم پر فخر ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan