پاکستان میں تحریکوں کا مزاج اور مقاصد
انگریزی صحافت، عالمی میڈیا اور بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں نے دنیا بھر اور خصوصاً پاکستان میں تبصرہ نگاروں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے جسکا پاکستان کے زمینی حقائق سے تعلق واجبی سا رہ گیا ہے۔ وہ سروے رپوٹوں کے اعداد و شمار، معاشی جائزوں، خطے میں موجود طاقتوں کے مفادات اور عالمی معیشت کے گورکھ دھندوں سے حاصل کردہ معلومات کو سامنے رکھتا ہے اور اس بارہ مسالے کی چاٹ میں اپنی خواہشات کا چورن ملا کر قلم کی طاقت سے ایک "شاندار "تجزیہ برآمد کرتا ہے۔
ایک طویل عرصہ پاکستان کے یہ دانشور اس ملک میں غربت و افلاس اور مزدور و کسان کی بے بسی کے ترانے اس لیے گایا کرتے تھے کہ اگر یہ پاکستان کا مزدور کیمونسٹ تحریک کا درانتی اور پھاوڑے والا سرخ پرچم اٹھا لے گا تو ملک میں پرولتاریہ یعنی مزدور اور کسان کا انقلاب آ جائے گا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ملک میں انقلاب برپا کرنے کا وقت آیا تو فوج کے تین ستارہ جنرل میجر جنرل اکبر خان کو سامراج دشمنی اور امریکی غلامی سے آزادی کے نام پر فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر نے تیار کیااور اس سے بغاوت کی سازش تیار کروائی۔ ایسے میں مزدور کا پسینہ کام آیا اور نہ کسان کی محنت۔
میجر جنرل اکبر خان کی کیمونسٹ نظریات رکھنے والی بیوی نسیم کے ذریعے براستہ فوج پاکستان میں بالشویک کیمونسٹ انقلاب کا خواب دیکھا گیا تھا، جو 9 مارچ 1951ء سازش کے پکڑے جانے پر چکنا چور ہوگیا۔ لیکن اس ناکام بغاوت کے باوجود یہ کیمونسٹ دانشور اور انقلابی طبقہ 26 دسمبر 1991ء تک یہی خواب دیکھتا اور لوگوں کو دکھاتا رہا کہ پاکستان میں معاشی استحصال اور اقتصادی نا ہمواری ایک دن اس ملک کو کیمونسٹ انقلاب کے سرخ سویرے سے آشنا کردے گی۔ لیکن دسمبر کی اداس شام جب سوویت یونین سے ہتھوڑے اور درانتی والا سرخ پرچم اترا، ناکام و نامراد انقلابیوں نے پچاس ستاروں والے امریکی سامراج کے پرچم کو سجدہ ریز سلامی دے دی۔
اب معیشت کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی ناکامی بھی انقلاب کا نسخہ بن گئی۔ اب یہ چاٹ بارہ مسالے سے کہیں زیادہ ترش ہوگئی۔ مغرب جو کبھی سرمایہ دارانہ نظام کا مکروہ چہرہ کہلاتا تھا، اب انکے نزدیک آئیڈیل طرز زندگی بن گیا۔ غریب و پسماندہ ممالک میں عالمی سرمایہ کاری کو ترقی کا مجرب نسخہ قرار دیا گیا اور ناپسندیدہ حکمرانوں کے خلاف عوامی بغاوت کو انسانی حقوق اور جمہوری بالادستی کی جدوجہد کی معراج بنایا جانے لگا۔ لیکن یہاں بھی انقلاب یا بغاوت دونوں کی بنیاد معاشی ناہمواری ہی کو قرار دیا گیا۔
آج، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی سی آئی اے کی رپورٹیں میرے ملک کے دانشور کو تازہ خوراک فراہم کرتی ہیں اوران میں ڈوبنے کے بعد وہ جو شعور حاصل کرتا ہے، اس سے پہلے وہ اس ملک کی معیشت کی مکمل تباہی کا المناک منظر پیش کرتا ہے اور پھر اسکے بعد اس ڈوبتے سورج کے پس منظر میں بھوکے ننگے، غریب و لاچار افراد کی لاٹھیاں ایک سائے کی طرح برآمد کرتا ہے، ہجوم کا شور اتنا بڑھتا ہے کہ ایک دن یہ ہجوم حکمرانوں کو ایوانوں سے نکال باہر کردیتا ہے جس کے نتیجے میں ایسی حکومت قائم ہوتی ہے جو جمہوری، سیکولر، لبرل اور معاشی طور پر عالمی طاقتوں کی منظورنظر ہو۔
26 دسمبر 1991ء سے آج 2019ء تک 27 سال سے انہی خوابوں کا چورن بیچا جارہا ہے۔ لیکن سیکولر، لبرل اور عالمی طاقتوں کی منظورنظر حکومت قائم کرنے کا وقت آیا تو پھر فوج کے سربراہ پرویز مشرف کا ہی کندھا استعمال کرنا پڑا اور اس انقلاب کے بعد بھی اس ملک کے افلاس زدہ شخص کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا۔ کیا پاکستان میں واقعی غربت و افلاس اس سطح تک پہنچی چکی ہے کہ لوگ ایک دن گودام لوٹ لیں گے، حکمرانوں کے سر کچل دیں گے اور ایوانوں پر قبضہ کرلیں گے۔ غربت و افلاس، معاشی ناہمواری یا استحصال نے پاکستان کے بہتر سالوں میں کبھی ایک نعرے کی صورت اختیار نہیں کی۔
پاکستان کی تمام بڑی تحریکیں ہمیشہ معیشت اور معاشی استحصال کی بجائے ان اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے برپا ہوئیں جنکا معیشت اور معاش سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ پاکستان کی سب سے پہلی سیاسی تحریک قیام پاکستان کے بعد دستورِ پاکستان کو اسلامی بنانے کے لئے چلائی گئی جس کے نتیجے 12 مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی، جس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ اس ملک کا مقتدر اعلیٰ، اللہ سبحانہ وتعالی ہے اور قرآن سنت اس کا سپریم قانون ہے۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے تو اس دور کے کیمونسٹ انقلابی دانشوروں نے مہنگائی، بے روزگاری، معاشی استحصال جیسے نعرے بلند کیے۔ طبقاتی کشمکش کو ہوا دینے والے مضامین لکھے اور تقریریں کیں۔ لیاقت علی خان کو قائد ملت کہا جاتا تھا، اسی کے ہم وزن خواجہ ناظم الدین کو "قائد قلت" کے لقب سے نوازا گیا، مگر ملوں کی تالا بندی ہو سکی نہ کسان مزارعوں نے کھیت کھلیانوں کو آگ لگائی۔ لیکن ان انقلابی دانشوروں کے انقلابی اصولوں کے بالکل برعکس، یکم فروری 1953ء کو قادیانیوں کے خلاف ایک جاندار تحریک نے جنم لیا جو 14 مئی 1953ء تک تین ماہ تک چلتی رہی، لاہور میں مارشل لاء لگا، ہزاروں شہید ہوئے اور آخر کار 17 اپریل 1953ء کو غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا۔
قادیانیوں کے خلاف تحریک اس کے بعد بھی سلگتی رہی اور آج بھی موجود ہے مگر معاشی ناہمواری کبھی ایک نعرہ نہ بن سکی۔ ایوب خان کا مارشل لاء، اسکی بنیادی جمہوریت، صنعتی ترقی، 1962ء کا آئین سب کا سب ایک پرسکون بہتے ہوئے دریا کی طرح تھا۔
1964ء کے الیکشنوں میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو پورے ملک میں ایک بھرپور فضا قائم ہوگئی۔ یوں تو حبیب جالب اس سے پہلے مہنگائی کا رونا اپنی شاعری میں ایسے روتا تھا "ہر چیز پہ چھایا سناٹا۔ اب بیس روپے من ہے آٹا۔ اس بات سے یہ پڑتا ہے گھاٹا۔ صدر ایوب زندہ باد، صدر ایوب زندہ باد"۔ لیکن اسکا یہ کلام پذیرائی حاصل نہ کر سکا اور "ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا" عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔
اس سب کے باوجود ہمارے کیمونسٹ انقلابی معیشت کی بنیاد پر انقلاب کا سوچتے رہے، حسن ناصر شاہی قلعے میں جان سے چلا گیا لیکن عوام کو سڑکوں پر ذولفقارعلی بھٹو ایک دوسرے نعرے پر لے کر آیا کہ سویت یونین کے شہر تاشقند میں ایوب خان نے بھارت کے صدر لال بہادر شاستری کے ساتھ مذاکرات کے دوران 1965ء کی جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار بھی دی ہے اور ہم ایک ہزار سال تک بھارت سے جنگ کریں گے۔ وزارت سے نکلنے کے بعد راولپنڈی سے جب بھٹو کی ٹرین لاہور پہنچی تو وہ دلوں کی دھڑکن بن چکا تھا۔
اس وقت سے لے کرمارچ 1969ء یعنی ایوب خان کی اقتدار سے رخصتی تک بھٹو نے کبھی روٹی کپڑے اور مکان کی بات نہیں کی۔ اسکی زبان پر صرف ایک ہی نعرہ مستانہ تھا کہ یدان میں جیتی جنگ ایوب نے تاشقند میں میز پر ہار دی۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تو 1970ء کے انتخابات کا نعرہ تھا جو ووٹ مانگنے کا ہتھیار تھا، تحریک چلانے کا نہیں۔ ملک کی آخری بڑی تحریک بھٹو کے خلاف 1977 کے مارچ میں چلائی گئی جسکا آغاز قومی اسمبلی کے الیکشن میں دھاندلی کے الزام سے ہوا اور یہ آغاز ہی اسقدر کامیاب تھا کہ تین دن بعد جب صوبائی الیکشن کی پولنگ تھی تو پولنگ اسٹیشن مکمل ویران تھے۔ لیکن تحریک کا نعرہ مستانہ تو نظام مصطفی کا نفاذ بن گیا اور اسی نعرے کی گونج سے ضیاء الحق کا مسلمان چہرہ برآمد ہوا تھا۔
ضیاء الحق کے بعد یہ ملک اب عالمی طاقتوں کی کشمکش کا اکھاڑہ بن کر رہ گیا۔ تحریک، عوام، نظریہ سب خواب ہوئے اور ورلڈ بنک، قرضہ، امریکہ، افغانستان، روس، جہاد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارے موضوعاتِ سخن بن گئے۔ ایسے میں آج کا دانشور جو عالمی ایجنسیوں کی رپورٹوں اور بین الاقوامی میڈیا کے تجزیوں کو سامنے رکھ کر تجزیہ کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس ملک کی معیشت اب اس حال پرپہنچ چکی ہے کہ کچھ عرصے بعد یہاں مہنگائی اور بے روزگاری کے کپ سے بہت بڑی تحریک کا طوفان اٹھ کھڑا ہوگا۔
اسے علم ہی نہیں کہ ایسا پاکستانی معاشرے میں شائد ممکن نہیں ہے۔ مگر کیوں۔ اس پر کل کے کالم میں گفتگو ہوگی۔