Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Gaza, Aalmi Jang Ka Bugle, Europe Mein Abaad Musalman (1)

Gaza, Aalmi Jang Ka Bugle, Europe Mein Abaad Musalman (1)

غزہ، عالمی جنگ کا بگل، یورپ میں آباد مسلمان (1)

جزیرہ نما آئبیریا (Iberia) تین جانب سے سمندر میں گھرا ہونے کی وجہ سے باقی ماندہ یورپ سے نسبتاً علیحدہ ہے۔ اس کا جو حصہ یورپ کے ساتھ خشکی سے منسلک ہے، اسے بھی پہاڑی سلسلے پرنیز (Pyrenees)کی دیوار نے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس جزیرہ نما آئبیریا پر اس وقت، دو یورپی ملک سپین اور پُرتگال واقع ہیں۔ دونوں ایک زمانے میں اپنی افواج کے ساتھ دنیا فتح کرنے نکلے اور مدتوں ان کے زیر نگین بے شمار ممالک کالونیوں کی صورت رہے ہیں۔ لیکن آج یہ دونوں ملک سمٹ کر واپس اسی جزیرہ نما تک محدود ہو چکے ہیں۔

تقریباً بارہ سو سال قبل 19 جولائی 711ء کے تاریخی دن طارق بن زیاد کی صرف سات ہزار فوج نے سپین کے بادشاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو شکست دے کر اس سرزمین پر اسلام کا پرچم بلند کیا تھا۔ اس سرزمین پر مسلمانوں کی حکومت تقریبا آٹھ سو سال تک قائم رہی۔ مسلمانوں نے اسے اُندلس نام دیا۔ یہی اُندلس یورپ کو جہالت کی تاریکی سے علم کی روشنی تک لانے والی تحریکِ احیائے علوم کا دروازہ کہلاتا ہے۔ اپنے سائنسی علوم اور تہذیب و ثقافت کی وجہ سے یہ تقریباً آٹھ صدیاں دنیا بھر کا مرکزِ نگاہ رہا، اور پھر 2 جنوری 1492ء کو فرڈننیڈ اور ازابیلا کی مشترکہ افواج نے مسلمانوں کو شکست دے کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ایک ایسا زوال آیا کہ مدتوں اسلام اور مسلمانوں کا کوئی نام لیوا اس سرزمین پر موجود نہ رہا۔

آج یہ دونوں ملک یورپ کی تہذیب، ثقافت اور سیاسی وحدت یعنی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ پانچ سو سال قبل جس نفرت اور تعصب کا اظہار قرطبہ اور غرناطہ کے شہروں پر لشکر کشی کے وقت ہوا تھا، آج اس نفرت کا دائرہ اثر قطب شمالی کے ممالک آئس لینڈ اور ناروے سے لے کر مشرقی یورپ کی سرزمین تک پھیل چکا ہے۔ اس وقت یورپی یونین کے 28 ممالک میں تقریباً ڈھائی کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ پینتالیس کروڑ آبادی والے یورپ میں ان ڈھائی کروڑ مسلمانوں کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لیکن یہ ڈھائی کروڑ نفرت کی جس کیفیت کا شکار ہیں وہ صدیوں سے یورپ کے باشندوں کے دلوں میں مسیحی چرچ نے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

مسلمان چھ مختلف وجوہات کی بنیاد پر یورپ کے ممالک میں آباد ہیں۔ پہلے نمبر پر وہ مسلمان ہیں جو بوسنیا، البانیا اور کوسود کے ممالک میں صدیوں سے ان آبادیوں کا نسلاً حصہ چلے آ رہے ہیں یا پھر رومانیہ بلغاریہ کی ایک قدیم اقلیت تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولینڈ اور کریمیا کے ممالک ہیں جہاں قدیم تاتاری مسلمان مدتوں سے آباد ہیں۔ دوسرے، وہ طالب علم یا بزنس مین جو یورپ میں آکر رہتے ہیں، مثلاً فرانس میں اس وقت ستر ہزار طلبہ، شمالی افریقہ کے ممالک سے وہاں آئے ہوئے ہیں اور لندن شہر تو ان دنوں عرب اور مسلمان تاجروں کا گڑھسمجھا جاتا ہے۔ تیسرے وہ مسلمان ہیں جو دولت مشترکہ یا دیگر کالونیوں کی وجہ سے بلا روک ٹوک فرانس، برطانیہ اور ہالینڈ میں آکر آہستہ آہستہ آباد ہو گئے تھے اور پھر یہ وہیں کے ہوکر رہ گئے۔

چوتھے وہ مفلوک الحال مسلمان ہیں جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں مزدوروں کی حیثیت سے جوق در جوق مغربی یورپ کے ممالک میں آئے، پانچویں وہ نسلاً یورپی مسلمان ہیں جو پیدا ہی یورپ کے مسلمان گھرانوں میں ہوئے تھے، جبکہ چھٹے وہ مہاجرین مسلمان ہیں جو اپنے ملکوں سے جنگ اور سول وار کے نتیجے میں یہاں پناہ کی تلاش میں آئے اور اب ان ملکوں کی آبادی کا حصہ بن گئے۔ ان ڈھائی کروڑ مسلمانوں کے ساتھ اگر ان تین کروڑ مسلمانوں کو بھی ملا لیا جائے جو روس میں رہتے ہیں تو یہ ایک اچھی خاصی تعداد بن جاتی ہے۔ لیکن روس کے مسلمانوں کو ویسی نفرت اور تعصب کا سامنا نہیں ہے، جیسی نفرت مسیحی یا مغربی یورپ نے صلیبی جنگوں کی خونریز روایت سے ورثے میں حاصل کی ہے۔ اسی لیے روسی مسلمان کبھی بھی اسلام فوبیا کا بھی شکار نہیں ہوئے۔

یوں تو یورپ میں صلیبی جنگیں ختم ہوئے کئی صدیاں بیت چکی ہیں، لیکن مسلمانوں سے نفرت کا جو بیچ چرچ نے یورپی آبادی کے دلوں میں ایک منظم طریقے سے بویا تھا، وہ نسل در نسل پھلتا پھولتا چلا آرہا ہے۔ یورپ نے انقلاب فرانس کے بعد چرچ کی بالادستی کا کلاوہ اُتار پھینکا تھا، مذہب کو ریاست کے کاروبار سے علیحدہ کر دیا تھا، پادری صرف پیدائش پر بتسمہ دینے، شادی کی تقریب میں رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے اور مرنے پر دعائیہ کلمات کہنے تک محدود ہوگیا تھا۔ چرچ رخصت ہوگیا، پادری کا کردار محدود ہوگیا اور یورپ سیکولر اور لبرل ثقافت میں بدل گیا، لیکن یورپ کے رہنے والوں کے دلوں سے آج تک مسلمان دشمنی نہیں نکل سکی۔

گذشتہ ستر سال سے یورپی ممالک میں مسلمان دشمنی اور نفرت کی بنیاد پر باقاعدہ سیاسی پارٹیاں تشکیل دی جاتی رہی ہیں اور آج یہ سیاسی پارٹیاں گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کے بعد مقبولیت کے گراف پر دن بدن آگے بڑھ رہی ہیں۔ سب سے پہلے 1956ء میں آسٹریا میں آسٹریین فریڈم پارٹی قائم ہوئی جس کا ایجنڈا مسلمانوں کے خلاف تھا، پھر 1971ء میں سوئٹزرلینڈ میں سوئٹزرلینڈ پبلک پارٹی نے یہی روش اختیار کی، 1972ء میں فرانس میں فرنٹ نیشنل قائم ہوئی، 1973ء میں ناروے میں پراگریس پارٹی اور 1982ء میں لندن میں مشہور عام بی این پی یعنی برٹش نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔

سویڈن میں 1988ء میں سویڈن ڈیموکریٹس، اٹلی میں 1991ء میں ناردرن لیگ، 1995ء میں ڈنمارک میں ڈنسک فولکے پارٹی اور فن لینڈ میں ٹروفنس قائم ہوئیں، جبکہ 2003ء میں ہنگری میں جوبک، 2006ء میں ہالینڈ میں فریڈم پارٹی، 2005ء میں بلغاریہ کی آتاکا، 2004ء میں بلجیم کی فلیمن انرسٹس پارٹی اور یونان میں 1993ء میں گولڈن پارٹی جیسی سیاسی تنظیموں نے جنم لیا۔ ان تمام سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کے اغراض و مقاصد ایک جیسے ہیں، اور ان سب کی پہچان یہ ہے کہ ان میں مسلمان اور اسلام دشمنی کی قدر مشترک ہے۔

اس کے علاوہ ہر یورپی ملک میں لاتعداد ایسےچھوٹے بڑے گروہ اور تھنک ٹینک موجود ہیں جو مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچار کرتے ہیں اور ان کے خلاف پراپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ گذشتہ پچاس سال سے مسلمانوں نے پوری کوشش کی کہ وہ یورپ کے شہروں میں ان کے ساتھ گھل مل کر رہائش پذیر ہوں، مثلاً لندن میں آباد 3 لاکھ عرب ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں گوروں کی اکثریت ہے، اسی طرح لبنان سے آئے ہوئے مسلمان بھی پیرس میں عام فرانسیسیوں کے ساتھ ان کے اکثریتی علاقوں میں رہتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی وہ اکثریت جو مزدور یا پھر مہاجرین کی صورت پناہ گزین ہے، وہ معاشی حالات کی وجہ سے ایسا نہیں کر پائی اور ان کی آبادیوں والے علاقے مخصوص ہونے لگے۔

اس کے بعد جہاں ان غریب مسلمانوں کی اکثریت آباد ہو جاتی، مقامی لوگ وہاں سے کسی دوسرے علاقے میں کوچ کرنے لگتے ہیں۔ جیسے لندن میں الفورڈ اور بارکنگ کا علاقہ جو انگریزوں کی ہی بستی تھی، اب وہاں گورا نظر ہی نہیں آتا۔ یورپ میں بسنے والے یہ ڈھائی کروڑ مسلمان اب بیرونی درانداز یا گھس بیٹھئے نہیں تصور ہوتے بلکہ آئینی طور پر ان کے شہری ہیں، یہی وجہ ہے یورپ کے تمام ممالک اب انہیں اندرونی خطرہ (Internal Threat) تصور کرتے ہیں۔ ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد سے مقامی گوروں کے مسلمان ہونے کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اور اس نے اس خطرے کو مزید گھمبیر بنا دیا۔

سلمان رشدی کے ناول پر یورپ کے مسلمانوں کا شدید احتجاج پورے یورپ میں ایک خطرے کی پہلی گھنٹی کے طور پر لیا گیا۔ یورپ والے اپنے ہم وطن مسلمانوں سے ایسے روّیے کی توقع نہیں کررہے تھے۔ اس کے بعد سے لے کر فرانس کے چھوٹے شہروں میں دنگے و فساد، کارٹون کی اشاعت کے باربار واقعات اور ان پر اشتعال، ہالینڈ کے فلمساز کا قتل اور فرانس میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملوں نے یورپ میں یہ سوچ پیدا کر دی ہے، کہ مسلمان اب ان کے لیے ایک بہت بڑا اندرونی خطرہ ہیں جو ان کی تہذیب اور لائف سٹائل پر حملہ آور ہے۔

جاری۔۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Wazir e Aala Punjab Aur Police Uniform

By Prof. Riffat Mazhar