ایک عظیم تحقیقی کتاب (2)
اقوامِ عالم میں پاکستان کی اسلامی قومیت کی بنیاد پر تخلیق ہر ایسے شخص کے لئے سوہانِ روح اور شدید تکلیف کا باعث ہے جو تاریخ کے اس عظیم معجزے سے نفرت اور بغض رکھتا ہے۔ یہ سیکولر، لبرل لوگ اپنی بزدلی اور کم ہمتی کی وجہ سے براہِ راست کھل کر اسلام، پیغمبرِ اسلام یا اسلامی طرزِ زندگی کے خلاف تو گفتگو نہیں کر پاتے تو ان کا زور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں صرف ہوتا ہے اور خصوصاً پاکستان کے اسلامی وجود کو مشکوک کرنے کے لئے یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے ساتھیوں کو سیکولر، لبرل اور مغرب زدہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔
یہ لوگ کسی طور پر بھی اپنے کردار اور نفرت کے حوالے سے مجلسِ احرار کے اس رکن مظہر علی اظہر سے مختلف نہیں ہیں، جس نے قائد اعظمؒ کو کافرِ اعظم کہا تھا۔ اس شخص نے تو یہ بات صرف جلسے میں ایک نعرے کے طور پر کی تھی، لیکن یہ سیکولر طبقہ، قائد اعظمؒ کو عملاً سیکولر، لبرل ثابت کر کے دراصل انہیں عملی طور پر ایک بے عمل مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کا اسلامی تشخص مجروح ہو جائے۔ ان بغض کے ماروں کے دلوں پر پاکستان کی ہر وہ علامت ایک قہر بن کر ٹوٹتی ہے جس کا تھوڑا سا بھی تعلق اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ بنتا ہو۔
یہ لوگ شروع دن سے ہی قائد اعظمؒ کی ہر اس تقریر اور اُس اقدام پر پردہ ڈالنے اور چُھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ قائد اعظمؒ اس ملک میں نفاذِ شریعت چاہتے تھے۔ انہی لوگوں کو قائد اعظمؒ نے کراچی بار میں 25 جنوری 1948ء کی اپنی تقریر میں "شر انگیز" پکارا تھا۔ قائد اعظمؒ نے اس تقریر میں اپنی گیارہ اگست 1947ء والی تقریر کے بارے میں پھیلائے جانے والے اس پروپیگنڈے کا جواب دیا تھا کہ وہ سیکولر ریاست چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں خاص طور پر شرعی قوانین "Shria Law" کا لفظ استعمال کیا اور کہا کہ شریعت آج بھی ویسے ہی نافذالعمل ہے جیسے تیرہ سو سال پہلے تھی۔ یہ حضرات قائد اعظمؒ کی یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب والی تقریر کا بھی تذکرہ نہیں کرتے، جس میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس ملک کے معاشی نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی ہدایت کی تھی، بلکہ ساتھ ہی مغربی معاشی نظام کو دُنیا کے لئے ایک ناسور قرار دیا تھا۔
یہ لوگ قائد اعظمؒ کے اقتدار کے دوران بننے والے واحد محکمے "Department of Islamic Reconstruction" کا کبھی ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے سربراہ علامہ محمد اسد کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے اس محکمے کے اغراض و مقاصد میں لکھا تھا کہ "اس محکمے کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ اس ملک کے معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور قانونی نظاموں کا اسلامی ڈھانچہ مرتب کرے"۔ ان حضرات نے آج تک قائد اعظمؒ کے دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظریے اور طرزِ حکومت پر علامہ محمد اسد کی انگریزی میں سات تقریروں اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی چھ تقریروں کا بھی ذکر نہیں کیا۔
یہ وہ بددیانت لوگ ہیں جن کے دلوں میں اسلام کے نظریۂ حکومت اور طرزِ معاشرت سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اس لئے وہ پاکستان کی ہر اُس علامت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا تعلق اسلام یا مسلمان اُمت کے ساتھ ہو۔ ان کا ایک بہت بڑا اعتراض پاکستان کے "قومی ترانے" پر یہ ہے کہ یہ قومی زبان اُردو میں نہیں بلکہ فارسی میں لکھا گیا ہے۔ یہ اعتراض بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی "جاہل" اور لاعلم شخص انگریزی کی کوئی کتاب پڑھے اور اس میں 29 فیصد لاطینی، 29 فیصد فرانسیسی، 26 فیصد جرمن، 6 فیصد یونانی، اور 6 فیصد متروک زبانوں کے الفاظ دیکھ کر کہے یہ تو انگریزی کی کتاب ہی نہیں۔
قانون کی ننانوے فیصد اصطلاحات لاطینی، یونانی اور فرانسیسی ہیں۔ لیکن سب اسے انگریزی قانون (English Law) کہتے ہیں۔ لیکن جہالت کا غلبہ اور کم علمی کا عفریت اس قدر خوفناک ہے کہ جب یہ کسی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو پھر بڑے بڑوں کی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت تک مفقود کر دیتا ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ آئی ایس پی آر کے تحت بننے والے تازہ ڈرامے "صنف آہن" میں ایک انسٹرکٹر، کیڈٹوں کے علم میں یہ کہہ کر اضافہ کرتا ہے کہ پاکستان کا "قومی ترانہ" فارسی زبان میں ہے۔
اس طرح کے اعتراضات کا جواب ہمیشہ مرحوم ڈاکٹر صفدر محمودؒ اپنی تحقیق سے دیا کرتے تھے۔ اسی ترانے کے حوالے سے ایک معروف اینکر نے اپنے ٹاک شو میں ایک ایسا قومی ترانہ پیش کیا جسے متعصب ہندو قوم پرست تلوک چند محروم کے بیٹے جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسے قائد اعظمؒ نے لکھوایا تھا۔ اس ترانے کی شاعری اس قدر گھٹیا معیار کی تھی کہ اسے ریڈیو پاکستان کی ردّی کی ٹوکری میں ہونا چاہئے تھا لیکن جاہلوں کو کون روک سکتا ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمودؒ نے ریڈیو پاکستان کے تمام آرکائیوز چھانے، وزارتوں میں اس زمانے کی تمام خط و کتابت اور فائلیں دیکھیں اور ثابت کیا کہ ایسے کسی ترانے کا کبھی کوئی وجود نہیں رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد آج جس کتاب کو دیکھ کر روح کو سکون میسر ہوا اور یوں لگا کہ اللہ اس ملک کے اسلامی تشخص کے دفاع کے لئے کوئی نہ کوئی شخصیت ضرور پیدا کرتا رہتا ہے، وہ عابد علی بیگ صاحب کی کتاب "قومی ترانہ: فارسی یا اُردو" ہے۔ یہ کتاب پاکستان کے سیکولر، لبرل جہلا کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔
مصنّف نے تین سو صفحات پر مشتمل اس تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ قومی ترانے میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کتنے سو سالوں سے اُردو شاعری اور نثر میں استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ جس طرح ہر زبان دیگر زبانوں کے ملاپ سے ترقی و ترویج پاتی ہے ویسے ہی اُردو بھی ہے۔ اُردو کے ان الفاظ کی ماخذی زبان (Language of Origin) کی تحقیق سے بیگ صاحب نے ثابت کیا ہے کہ ترانے کے چالیس الفاظ میں سے چوبیس الفاظ عربی زبان سے اُردو میں آئے، پندرہ فارسی زبان سے اور ایک سنسکرت سے۔ گویا ترانے کے ساٹھ فیصد الفاظ عربی میں ہیں۔ لیکن بزدل سیکولر چونکہ عربی پر یہ الزام لگانے سے ڈرتا ہے اس نے مشہور کر دیا کہ یہ ترانہ فارسی میں ہے۔
عابد علی بیگ صاحب نے اس کتاب میں تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے اور ترانے کے ایک ایک لفظ کا اُردو نظم و نثر میں قدیم ترین وجود ڈھونڈا ہے۔ مثلاً ان کے مطابق ترانے کا پہلا لفظ "پاک" اُردو میں پہلی دفعہ 1564ء میں حسن شوقی کے دیوان میں ملتا ہے، 1582ء میں شاہ برہان الدین جانم کی حمد میں، اس کے بعد 1607ء میں وجدی کی شاعری "تحفہ عاشقاں " میں، 1645ء میں صنعتی کے "قصۂ بے نظیر" میں، 1654ء کے حاجی محمد نوشہ قادری کے گنج شریف میں اور یوں وہ اس ایک لفظ "پاک" کا استعمال میر، غالب، داغ، اقبال کی شاعری یہاں تک نثر میں حالی، محمد حسین آزاد، اور سعادت حسن منٹو کی تحریروں میں بھی ڈھونڈ لائے ہیں۔ ایسے ہی "سرزمین" کا لفظ 1810ء کی کتاب "اخوان الصفائ" میں انہوں نے ڈھونڈ نکالا اور پھر اسے موجودہ دور تک لائے۔ "شاد" کا لفظ سولہویں صدی سے اُردو میں مستعمل چلا آ رہا ہے بلکہ 1564ء کے حسن شوقی کے اس شعر میں تو ترانے کے دو الفاظ بیک وقت ملتے ہیں۔
اوّل یاد کر پاک پروردگار
پچھیں شاد کر شاہ عالی تبار
عابد علی بیگ صاحب نے ترانے کے ان چالیس الفاظ کو نہ صرف اُردو ادب کی نظم و نثر کی چار سو سالہ تاریخ میں ڈھونڈ نکالا، بلکہ ہندی فلموں کے ناموں میں بھی ان الفاظ کی فہرست مرتب کی ہے جیسے پاک دامن (1931ئ) نشان (1949ئ)، منزل (1936 ئ) وغیرہ۔ ہندی فلمیں جو دراصل اُردو میں ہی ہوتی ہیں ان کے گیتوں میں اس ترانے کے الفاظ جا بجا ملتے ہیں جنہیں مختار بیگم، رفیع، لتا، آشا، کشور اور مکیش سے لے کر پاکستان میں نور جہاں اور مہدی حسن نے بھی گایا ہے۔ یہ کتاب ایک حیران کن تحقیق ہے اور ایک ایسی محنت ہے جس نے ایسے تمام لوگوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو پاکستان کی اساس کو مشکوک کرنے کے لئے مسلسل دن رات نئے نئے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں۔