Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Youm e Siyah, Masnoi Zahanat Aur Nusrat Javed

Youm e Siyah, Masnoi Zahanat Aur Nusrat Javed

یوم سیاہ، مصنوعی ذہانت اور "نسرت جعوید"

8 فروری کو "یوم سیاہ" بناتے ہوئے تحریک انصاف نے احتجاجی سیاست میں کچھ نیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرکزی جلسہ تو خیبرپختونخوا کے شہر صوابی میں ہوا۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی لیکن اس جماعت نے اپنا وجودثابت کرنے کی کوشش کی۔ صوابی جلسے میں لیکن چند تقاریر ہوئی ہیں۔ ریاست کے طاقتور ترین ادارے اس کے بارے میں مشتعل محسوس کررہے ہوں گے۔ اپنے غصے کا اظہار وہ کس صورت کریں گے؟ اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔ دو کشتیوں میں بیک وقت سواری مگر وزیر اعلیٰ گنڈاپور کے لئے اب مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔ "قیادت" سے وفاداری ثابت کرنے کے لئے وہ ایسی زبان استعمال کرنے کو مجبور ہورہے ہیں جو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائزشخص کے لئے مناسب نہیں۔

ملکی سیاست سے میں ان دنوں ویسے اکتاچکا ہوں۔ بند گلی میں داخل ہوکر ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے۔ عمران خان صاحب کھلے خطوط لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا اور حکمرانوں کو بدلنا چاہ رہے ہیں۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں معیشت سنبھالنے پر توجہ مرکوز رکھنے کے دعوے کرتے ہوئے "بیانیہ" نامی شے کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں تھرتھلی اگرچہ روزانہ کی بنیاد پر امریکی صدر ٹرمپ پھیلائے چلے جارہے ہیں۔ صحافیوں کو اپنے دھندے میں رونق لگانے کے لئے ان سے رجوع کرنا لازمی ہوچکا ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے برپا ہوئی "تھرتھلیوں" کے علاوہ مجھے گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر اے آئی یا مصنوعی ذہانت نے بھی گویا "تنگ" کردیا ہے۔ میرے ملنے والوں کی اکثریت اس سے بہت متاثر ہے۔ اس کاایک ورژن آپ کو 20امریکی ڈالر ماہانہ ادا کرنے کے ذریعے مل جاتا ہے۔ جن لوگوں نے یہ ورژن حاصل کیا ہے وہ سنجیدگی سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں اب ایک موبائل فون ہی نہیں بلکہ بوتل میں بند ہوا جن بھی ہے جسے حکم دے کر کچھ بھی جانا جاسکتا ہے۔ نئی ایجادات کے بارے میں ذہن ہمیشہ کھلارکھا ہے۔ پاکستان کے میں ان اولیں صحافیوں میں شامل تھا جنہوں نے کمپیوٹر کے ذریعے خبریں لکھنا اور دفتر بھجوانا شروع کی تھیں۔ انٹرنیٹ کی بدولت لوگوں سے روابط قائم کرنے کے لئے جوبھی پلیٹ فارم متعارف ہوئے انہیں استعمال کرنے میں بھی ہمیشہ پہل برتی۔

انٹرنیٹ کی بدولت نام نہاد "سوشل" پلیٹ فارموں نے مگر افواہ سازی اور دروغ گوئی کے ذریعے خلق خدا کے دلوں میں پہلے سے موجود تعصبات کو جس انداز میں بھڑکایا اس سے میں گھبراگیا۔ یورپ کے کئی ممالک بھی گہری تحقیق کے بعد ان پلیٹ فارموں پر قدغنیں لگانے کو مجبور ہوئے۔ انٹرنیٹ کا اصل مرکز مگر امریکہ کی سیلیکون ویلی ہے۔ وہاں کی ٹیک کمپنیوں کے مالک ڈونلڈ ٹرمپ کے دیوانے ہیں۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی اس نے انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کو جدید تر بنانے کے لئے 500ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے۔

دنیا کے طاقتور ترین ملک کی جانب سے مصنوعی ذہانت پر ہوئی سرمایہ کاری دنیا کو کس جانب لے جائے گی اس کے باے میں سوچتے ہوئے خوف آتا ہے۔ عالم فاضل لوگوں کا ایک مؤثر گروہ اسی باعث تواتر سے فریاد کرنا شروع ہوگیا ہے کہ مصنوعی یا مشینی ذہانت کو "قابو" میں رکھنے کے لئے ابھی سے چند اصول وضع کرلئے جائیں۔ امریکی صدر ٹرمپ مگر اپنے ملک کو ہاتھی کا پائوں سمجھتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کو قابو میں رکھنے کے اصول وضع کرنے کے بجائے اسے امید ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس کے ملک کی جانب سے پھیلائی "ذہانت" سے رجوع کرنے کو مجبور ہوجائے گا۔

جو "ذہانت" فی الوقت 20 ڈالر ماہوار ادا کرنے کے بعد میسر ہوتی ہے میرے جھکی ذہن کو مگر ہرگزمتاثر نہیں کرپائی ہے۔ گزرے جمعہ کے دن میں نے کچھ وقت عمار مسعود کے ساتھ گزارا۔ موصوف نے دورِ حاضر کے عین مطابق صحافت کرنے کے لئے ایک ادارہ بنایا ہے۔ اس سے جب بھی ملتا ہوں تو ابلاغ کے جدید ذرائع اور حرکیات کے بارے میں کچھ نیا سیکھنے کوملتا ہے۔ گزرے جمعہ کے دن اس سے ملاقات ہوئی تو موصوف نے نہایت خوشی سے یہ اطلاع دی کہ اس کے موبائل فون میں بھی 20امریکی ڈالرماہوار والی ایپ نصب ہوگئی ہے۔ رنگ میں بھنگ ڈالنا مقصود نہیں تھا۔ عمارنے ذہانت کا جو "جن" اپنے فون میں بند کررکھا ہے تفریحاََ اس کا امتحان لینے کا فیصلہ ہوا۔

عمار نے مصنوعی ذہانت کی ایپ کھولی اور فون کے سپیکر سے منہ لگاکر حکم دیا کہ پاکستان میں نصرت جاوید نام کا ایک صحافی ہے۔ اس کے بارے میں بتایا جائے۔ چند ہی لمحوں بعد مصنوعی ذہانت کا تحریری جواب آگیا۔ "ذہانت" نے مجھے "نسرت جعوید" پکارا۔ "س" اور "ص" میں فرق نہ کرپائی۔ عمار نے میرا نام لیتے ہوئے الف گرا دیا ہوگا اس لئے جاوید "جعوید" ہوگیا۔ مصنوعی ذہانت کی تحقیق کے مطابق "نسرت جعوید" نے اپنی صحافت کا آغاز 1975میں انگریزی کے اخبار "دی مسلم" سے کیا تھا۔ یہ ایک فاش غلطی تھی۔ یہ بات درست ہے کہ میں نے صحافت کا آغاز 1975کے برس کیا تھا۔ اس کا آغاز مگر لاہور کے ایک نسبتاََ غیر معروف اردو روزنامے سے کیا۔ بعدازاں اسلام آباد آگیا اور یہاں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے تحقیقی جریدے "ثقافت" کا نائب مدیر ہوگیا۔

انگریزی روزنامہ "دی مسلم" کو جنرل ضیاء کی حکومت نے ڈیکلریشن دینے میں بہت دیرلگائی۔ غالباََ 1978کے وسط سے شروع ہوا۔ میں اس برس کامل بے روزگار رہا۔ ہر تیسرے چوتھے مہینے منہاج برنامرحوم کی قیادت میں چلائی پریس کی آزادی کے جلسے اور جلوس میں شریک ہوکر پولیس سے کٹ کھاتا یا گرفتاری سے بچنے کے لئے دوستوں کے گھروں میں پناہ گزین ہوجاتا۔ 1980میں لندن چلا گیا۔ وہاں مگر دل نہیں لگا۔ 1981میں واپس لوٹ آیا تو "دی مسلم" کے لئے ثقافتی امور پر کالم لکھنے کے علاوہ کرائم رپورٹنگ بھی شروع کردی۔

20امریکی ڈالر ماہوار طلب کرنے والی "ذہانت" نے مجھے "تحقیقی صحافت" کا مشہور نام بھی بتایا۔ حقیقت جبکہ یہ ہے کہ اخباری صحافت میں جو تھوڑا بہت نام کمایا اسی کی وجہ سیاسی اور خارجہ امور پر رپورٹنگ اور کالم نگاری تھی۔ "ذہانت" "نسرت جعوید" نامی جس صحافی کا ڈیٹا ہمیں بتارہی تھی اس کا نصرت جاوید کے بارے میں صرف ایک ڈیٹا پوائنٹ یا نکتہ درست تھا اور وہ یہ کہ میں نے صحافت کا آغاز 1975میں کیاتھا۔

اپنے بارے میں مصنوعی ذہانت کی کوتاہی پروازکو ذہن میں رکھتے ہوئے مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ "مصنوعی ذہانت" معلومات " ایجاد" نہیں کرتی پہلے سے میسر معلومات کو حیران کن انداز میں فی الفور اور مختصراََ بیان کردیتی ہے۔ اردو میں شائع شدہ معلومات کمپیوٹر کے لئے اکٹھا کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ میں اس وقت تک اپنی مشکل سے کمائی رقم میں سے ہر مہینے 20ڈالر ادا کرنے کو تیار نہیں ہوں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Kya Haal Sunawan Dil Da

By Sabiha Dastgir