مودی کا دورۂ امریکہ اور کملا ہیرس کی بے باکی
ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کی چھائوں میں ایک غریب چائے بیچنے والے کے مقام سے بھارت کا وزیر اعظم بنے نریندرمودی کے لئے مگر اس کی کوئی حد موجود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ہفتے کے دن خطاب کرتے ہوئے کئی برسوں تک مذہبی جنون کا پرچارک رہے نریندر مودی نے دنیا کو سمجھانا چاہا کہ دور حاضر میں رجعت پسند خیالات فروغ پارہے ہیں۔ گنجلک مسائل کا معروضی انداز میں جائزہ نہیں لیا جارہا۔ سائنس کے بھرپور استعمال کے ذریعے ایسی ایجادات پر توجہ نہیں دی جارہی جو انسانوں کو وبائوں اور موسمی تغیرکی وجہ سے نمودار ہوتی تباہیوں سے نبردآزما ہونے کے قابل بناسکیں۔
اس کا ملک مگر اس تناظر میں خوش نصیب ہے۔ وہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ وہاں پر ہر نوع کے نظریات کے سوپھولوں کو اپنی مہکاردکھانے کے مواقع میسر ہیں۔ سکولوں کے بچے بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کائنات کا مشاہدہ کرنے والے سیارے بنانے کے لئے بروئے کار لارہے ہیں۔ تمام عالم کی خوش حالی اب بھارت میں ہوئی ترقی کی محتاج ہے۔
خود کو روشن خیالی اور جمہوریت کی مجسم علامت کے طورپر مجمع بازوں کی طرح پیش کرتے ہوئے مودی کو یاد ہی نہیں رہا کہ گزشتہ 20برسوں سے وہ ایسی سیاست کا جنونی نمائندہ رہا ہے جو بھارت کو فقط وہاں کی ہندواکثریت کا ملک ٹھہراتی ہے۔ مسلمانوں اور ہندومذہب ہی کی نچلی ذاتوں کو اس نام نہاد جمہوریت میں برابر کا شہری تسلیم نہیں کیا جارہا۔ ایسے قوانین متعارف ہوئے ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں غیر ہندوشہریوں کو دستاویزات کے پلندوں سے ثابت کرنا ضروری ہے کہ وہ واقعتا بھارت کے قدیم اور پیدائشی شہری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے 80لاکھ انسانوں کی داستان تو اپنی جگہ خونچکاں ہے۔
پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے نریندر مودی کے جنرل اسمبلی سے خطاب کا تجزیہ کروں تو اسے متعصبانہ سوچ قرار دیا جاسکتا ہے۔ میرے کئی ہم وطن یہ سوال بھی اٹھاسکتے ہیں کہ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے قبل اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکا جارہا۔ کملاہیرس مگر پاکستانی نہیں۔ اس کی ماں جنوبی بھارت سے تعلق رکھتی تھی۔ باپ کا تعلق افریقہ سے تھا۔ وہ ان دنوں امریکہ کی نائب صدر ہے۔ اپنے حالیہ دورئہ امریکہ کے دوران مودی کی اس سے ایک ملاقات بھی ہوئی۔ مذکورہ ملاقات کے بعد دونوں نے صحافیوں کے روبروچند کلمات بھی ادا کئے۔
کملاہیرس نے اس موقع پر نہایت ذہانت اور مہارت سے کیمروں کے روبرو اعتراف کیا کہ دنیا کو جمہوریت کی برکتوں سے آگاہ کرنے سے قبل امریکہ اور بھارت کے حکمرانوں کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ پنجابی محاورے والی ڈانگ اپنی چارپائی کے نیچے گھمائیں اور سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ ان کے اپنے معاشروں میں جمہوری اقدار کس حد تک مستحکم ہیں۔ کملاہیرس کے ادا کردہ خیالات کئی اعتبار سے غیر سفارت کارانہ تھے۔ پروٹوکول کے تقاضے امریکی نائب صدر کو ایسے خیالات کیمروں کے روبرو بیان کرنے سے منع کرتے ہیں۔ خاص طورپر اس وقت جب بھارت سے آیا وزیر اعظم اس کا مہمان ہو۔ وہ مگر منہ آئی بات کہنے سے رکی نہیں۔
میں یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ بھارتی وزیر اعظم کی موجودگی میں امریکی نائب صدر نے جن خیالات کا برسرعام اظہار کیا وہ نام نہاد "ذاتی حیثیت" میں ادا ہوئے۔ کملاہیرس ہر حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کی بھارت کے بارے میں اجتماعی سوچ کو برسرعام لائی ہے۔ اس کے ادا کردہ الفاظ کو کئی مشیروں نے بہت سوچ بچار کے بعد تیار کیا ہوگا۔ مودی وزیر اعظم ہوتے ہوئے اس کا ہم منصب نہیں تھا۔ ایسے کلمات صدر بائیڈن کی جانب سے ادا ہونا چاہیے تھے۔ جو پیغام مگر بائیڈ ن نے دنیا کے روبرو لانا تھا کملاہیرس کے ذریعے برسرعام لایا گیا۔
پروٹوکول کے حوالے سے اپنی جونئیر کے منہ سے تلخ حقائق کا برملا اظہارسنتے ہوئے مودی نے وہ موٹی چمڑی دکھائی جو انگریزی زبان میں سیاست دانوں کے لئے مختص تصور ہوتی ہے۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ کملا ہیرس کے ادا کردہ کلمات کا براہ راست ٹی وی نشریات کے لئے ترجمہ کرنے والی خاتون نے شدھ ہندی استعمال کی اور کملاہیرس کے خیالات کی اہمیت وشدت ترجمے کی بھول بھلیوں کی نذر کرنے کی کوشش کی۔ ایک بھارتی صحافی نے اس کلپ کو اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر منتقل کیا۔ اسے پوسٹ کرتے ہوئے فقط ایک انگریزی فلم کا حوالہ دیا۔ اس فلم کا نام ہے۔"Lost in Translation"ساد ہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ترجمے میں غارت ہوئی گفتگو۔ سب باتوں کے باوجود اَن کہی رہ گئی بات۔
سچ بات یہ بھی ہے کہ کملاہیرس کی گفتگو سے قبل جوبائیڈن جیسے انتہائی تجربہ کار سیاست دان نے بھی نریندر مودی کی موجودگی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت میں آزادیٔ صحافت کی حقیقت بھی نہایت مہارت سے بیان کردی تھی۔ بھارتی صحافیوں کے سوالات لیتے ہوئے اس نے تسلیم کیا کہ امریکی صحافیوں کے مقابلے میں بھارتی صحافی زیادہ مہذب وفرماں بردار ہیں۔ ٹرمپ نے بھی ایک بار بھارتی صحافیوں کے سوالات لیتے ہوئے ان کی فرماں برداری کا امریکی صحافیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے حسد کا اظہار کیا تھا۔
نریندر مودی کی جنرل اسمبلی میں ہوئی تقریر اور کملاہیرس کے ادا کردہ کلمات کو انٹرنیٹ کے ذریعے براہ راست سننے کے بعد میں نے بہت غور سے بھارتی میڈیا میں نریندرمودی کے دورئہ امریکہ کی کوریج کا جائزہ لیا۔ ہر چینل پر "مودی چھاگیا" کی دھوم مچائی جارہی تھی۔ یوں گماں ہورہا تھا کہ کولمبس کے بعد نریندرمودی نے بھی ایک اور امریکہ دریافت کرنے کے بعد اسے اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ کملاہیرس نے بھارتی جمہوریت کی اصل اوقات دکھانے کے لئے جو کلمات برسرعام ادا کئے تھے ان کا کہیں ذکر ہی نہیں ہورہا تھا۔
بھارت کا ایک مشہور صحافی شیکھر گپتامیری عجلت میں ہوئی تحقیق کے مطابق واحد بھارتی صحافی ثابت ہواجس نے کملاہیرس کے کلمات کا اپنے یوٹیوب چینل کے پروگرام Cut the Clutterمیں نہایت سنجیدگی اور فکر مندی سے تجزیہ کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی حکمران اشرافیہ کا ایک مؤثر حصہ بھارت کو چین کے مقابلے کی قوت بنانا چاہ رہا ہے۔"مودی-بائیڈن" کو "بھائی-بھائی" تسلیم کرنے کے لئے امریکہ کی ان دنوں حکمران جماعت مگر فی الوقت دل وجان سے تیار نہیں ہے۔ ہندوتوا کے جنون نے اسے بھی خوفزدہ بنارکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے روبرو خود کو دنیا کا حتمی ترقی پسند اور روشن خیال ثابت کرتے مودی کی مکارانہ تقریر اس ضمن میں کسی کام نہیں آئے گی۔