انخلاءکی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت
ہماری ریاست اور اس کے اداروں کے لئے لازمی ہے کہ فوری طورپر اس حقیقت کا ادراک کرلیں کہ پاکستا ن میں غیر قانونی طورپر مقیم غیر ملکیوں کی نشاندہی اور انخلاءکی پالیسی نہایت عجلت میں مرتب ہوئی ہے۔ واجب خواہشات کی بنیاد پر بنائی اس ناقص پالیسی کا اطلاق بھی نہایت بھونڈے انداز میں ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ سے کشیدہ ہوتے ہوئے بالآخر شدید مخاصمت میں بدل سکتے ہیں۔
افغانستان کی مخاصمت ہم برداشت کرلیں تب بھی ہمارے خیبرپختونخواہ کے مختلف اضلاع سے اٹک کے اس پار علاقوں میں کام کرتے ان مزدوروں کا کیا ہوگا جو روزانہ کی دیہاڑی کمانے کے بجائے گزشتہ کئی دن پولیس کے خوف سے خیرخواہوں کے ہاں چھپے رہے۔ وہ نسلوں سے پاکستانی ہیں۔ ان کے پاس ریاست پاکستان کے اجراءشدہ شناختی کارڈ بھی ہیں۔ پولیس مگر ان کے پاس موجود دستاویزات کو مشکوک ٹھہراتے ہوئے بھاری بھر کم رشوت کا تقاضہ کرتی رہی۔
وہ یہ مہیا کرنے کے قابل نہ ہوں تو انہیں اٹھاکر ان کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے جو مختلف شہروں میں افغان تارکین وطن کی "رجسٹریشن" یا انخلاءکے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ پاکستان ہی کے مختلف اضلاع سے آئے پشتون مزدوروں کے ساتھ ہوا یہ سلوک ان کے دلوں میں ریاست پاکستان کے خلاف نفرت ہی بھڑکائے گا۔ ان میں سے کئی مشتعل ہوکر ان تنظیموں کے کارندے بھی بن سکتے ہیں جو پاکستان اور ا فغانستان میں"نظام خلافت" کا قیام یقینی بنانے کے لئے دہشت پھیلاتی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
بطور صحافی میں شرمسار انکساری سے یہ اعتراف کرنے کو بھی مجبورمحسوس کررہا ہوں کہ ہمارے ریگولر یا سوشل میڈیا میں"غیر قانونی تارکین" وطن کی نشاندہی اور انخلاءکے لئے اپنائی پالیسی کا اطلاق کماحقہ انداز میں رپورٹ نہیں ہورہا۔ اسلام آباد سے محض ڈیڑھ یادوگھنٹے کی مسافت پر ایک معروف ضلع چکوال ہے۔ سیمنٹ کے کارخانوں کے علاوہ یہ علاقہ کانکنی کے لئے بھی مشہور ہے۔ کوئلہ کی تلاش میں ہوئی کانکنی سخت جانی کا تقاضہ کرتی ہے۔ خیبرپختونخواہ کے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مزدور مگر اس ضمن میں دورِ حاضر کے فرہاد تصورہوتے ہیں۔
گزشتہ چندد نوں سے مگر صبح اٹھتے ہی کوئلے کی کانوں کا رخ کرنے کے بجائے چکوال میں قیام پذیر ہوئے باجوڑ کے مزدور پولیس کے خوف سے گھروں سے باہر ہی نہیں آرہے تھے۔ پولیس کی ٹولیاں انہیں راستے میں روک کر ان کے پاس موجود شناختی دستاویزات کی چھان پھٹک میں مصروف ہوجاتیں۔ ایسا ہی سلوک سوات سے آئے مزدوروں کے ساتھ بھی ہوا جو زیادہ تر چکوال کے نواح میں واقع نمک کی کانوں میں کام کرتے ہیں۔
میری اطلاع کے مطابق ایسے مزدوروں میں سے 90سے زیادہ افراد کو چند روز قبل مشکوک ٹھہراکر غیر قانونی افغان شہریوں کے لئے قائم ایک کیمپ تک محصور کردیا گیا۔ وہاں ایک نیک دل افسرنے خلوص سے ڈبل چیک کیا تو دریافت ہوا کہ مذکورہ کیمپ میں پہنچائے محض دو جی ہاں محض دو افراد ہی افغان ہوسکتے ہیں اور میں"ہوسکتے ہیں" پر غور کی درخواست کروں گا۔
مذکورہ بالا واقعہ تو میرے علم میں آگیا۔ چکوال مگر پاکستان کا واحد ضلع نہیں ہے۔ کراچی تک ہمارے کئی اضلاع کان کنی کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ سیمنٹ اور اینٹیں تیار کرنے والے بھٹے بھی سخت جان مزدوروں کے محتاج ہیں۔ جو سخت جانی ان شعبوں کے لئے درکار ہے وہ عموماََ پشتونوں کے لئے مختص تصور ہوتی ہے۔ اٹک کے اس پار آیا تقریباََ ہر پشتون مزدور مگر اب افغانستان سے غیر قانونی انداز میں پاکستان آکر آباد ہوا"غیر ملکی" تصور کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے خوف کی جو ہوا چلی ہے اس نے سوات وباجوڑ سے آئے بے تحاشہ مزدوروں کو گزشتہ چند دنوں میں اٹک کے اس پار چلے جانے کو مجبور کردیا ہے۔
خوف کی وجہ سے ہوئی نقل مکانی جسے ہم انگریزی میں Migration Reverse بھی کہہ سکتے ہیں فقط سیمنٹ اور کوئلے کی پیداوار ہی نہیں بلکہ گندم کی بوائی کے اس موسم میں کاشت کاروں کو بھی بے تحاشہ مشکلات سے دو چار کررہی ہے۔ چھوٹے رقبے کا مالک مثال کے طورپر اپنی زمین تیار کرنے کے لئے کچھ گھنٹوں کے لئے ٹریکٹر لگواتا ہے۔ اٹک سے گجرات تک کرائے پر دستیاب ٹریکٹروں کے مالک ومزدور زیادہ تر خیبرپختونخواہ کے علاوہ افغانستان سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ پولیس کے خوف سے تاہم ان سب نے ٹریکٹر وغیرہ اپنے چند مقامی دوستوں کے ہاں کھڑے کردئیے۔ انہیں چلانے والے مزدورمگر یا تو مقامی پناہ گاہوں سے باہر آنے سے کتراتے رہے یا خوف سے آبائی گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ مزدوروں کی قلت گندم کی بوائی میں تاخیر کا باعث ہورہی ہے جو پہلے ہی کھاد کی عدم دستیابی کی وجہ سے بروقت نہیں ہوپارہی تھی۔
معاملہ فقط دیہاڑی دار مزدور کی کم یابی تک ہی محدود ہوتا تو میں شاید آج کا کالم اس موضوع پر مرکوز نہ رکھتا۔ اصل خوف مجھے ان جذبات کا سوچتے ہوئے ہورہا ہے جو چکوال یا فیصل آباد میں سخت جانی کی بدولت رزق حلال کمانے کی خواہش میں مقیم خیبرپختونخواہ کے مختلف اضلاع سے آئے دیہاڑی داروں کے دلوں میں امنڈرہے ہوں گے۔ ان کی اکثریت کو "پاکستانی" کے بجائے "افغان" تصور کرتے ہوئے سڑکوں پر گشت کرتی پولیس محض نسلی تعصب کا اظہار کرتی ہی محسوس ہوگی۔ اس کا حتمی ردعمل بالآخر ہمارے قابو سے باہر ہوجائے گا۔
اٹک کے اس پار ریاست پاکستان کو فی الفور ایسے انتظامات کرنا ہوں گے جن کی بدولت مقامی افراد کی مدد سے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ خیبرپختونخواہ کے اضلاع سے آئے دیہاڑی داروں کی شناخت کو "مشکوک"ٹھہراکر ذلت واذیت کانشانہ بنانے والے پولیس اہلکارفوری اور سخت انضباطی کارروائی کی زد میں آئیں۔