ہمارا سیاسی بندوبست اصول وضوابط کا محتاج نہیں
وطن عزیز کی سیاست میں بارہا چند ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہیں منطقی انداز میں سوچتے ہوئے تصور میں لانا ممکن ہی نہیں تھا۔ انہونی دِکھتی چیزوں کا ہونی میں بدل جانا اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ ہمارا سیاسی بندوبست اصول وضوابط کا محتاج نہیں۔ حتمی قوت واختیار کے مالک اپنی ترجیحات کے مطابق کچھ بھی طے کرسکتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے سامنے سر تسلیم خم کے علاوہ اور کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی۔
انہونی کے ہونی میں بدلنے والے کئی واقعات ہیں۔ ان سب کو بیان کرنے کے لئے کالم نہیں کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔۔ نسبتاََ حال ہی کی ایک کہانی مگر یاد کرنا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں 2017ء میں نواز شریف صاحب جھوٹے اور خائن ٹھہراکر عمر بھر کے لئے کسی سیاسی عہدے کے لئے نااہل ہوئے تو انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونا پڑا۔ ان کی فراغت کے بعداحتساب عدالت نے انہیں سنگین بدعنوانی کے الزامات کے تحت سزا سنائی۔ سزاسنائے جانے کے دن وہ پاکستان میں موجود نہیں تھے۔ لندن میں اپنی اہلیہ کی تیمار داری میں مصروف تھے۔
جولائی 2018ء کے انتخابات کے دوران مگر ان کی جماعت کو محسوس ہوا کہ وہ اگر پاکستان نہ آئے تو ووٹ کو عزت نہیں مل پائے گی۔ اپنی دختر سمیت وہ لاہور ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہوگئے۔ ان کے استقبال کے لئے مسلم لیگ (نون) مگر انقلابی ماحول بنانہیں پائی۔ ایئرپورٹ سے انہیں گرفتار کرکے جیل پہنچادیا گیا۔ عام انتخاب کی پولنگ کے دوران ان کی گرفتاری نے تاہم مسلم لیگ (نون) کے کئی رہ نمائوں کو اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے کے لئے گرانقدر سیاسی کمک فراہم کی۔ یہ کمک مگر اس جماعت کو اقتدار میں واپس نہ لاپائی۔ عمران خان صاحب وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوگئے۔
اصول اور منطق کی بات کریں تو احتساب عدالت سے سزا یافتہ ہوجانے کے بعد نواز شریف صاحب کو اعلیٰ عدالتوں سے کسی نوع کی ریلیف ملنے تک جیل ہی میں رہنا چاہیے تھا۔ افواہ مگر یہ پھیل گئی کہ قید کے دوران انہیں جان لیوا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ اس مرض کا علاج فقط لندن ہی میں ممکن ہے۔ سزا یافتہ قیدیوں کو ایسے علاج والی سہولت نصیب نہیں ہوتی۔ نواز شریف لیکن اس ضمن میں تاریخی استثناء ثابت ہوئے۔ عدالت نے طبی بنیا دوں پر ان کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ وفاقی کابینہ نے طویل بحث کے بعد انہیں لندن جانے کی اجازت بھی فراہم کردی۔
میاں صاحب کی لندن روانگی لہٰذا انہونی کا ہونا ہی تھا۔ ظاہر ہے اس کے لئے بااختیار قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کوئی گیم پلان تیار ہوا ہوگا۔ ایسے منصوبے "کچھ دو اور کچھ لو" والے بندوبست بھی ہوتے ہیں۔ میاں صاحب کی لندن روانگی کے بعد ایک اہم ترین سیاسی ادارے کے سربراہ کی میعادِ ملازمت میں اضافے کیلئے 12منٹ کی تاریخی عجلت میں پارلیمان سے منظوری ایسے ہی بندوبست کا واضح اظہار تھا۔ لندن پہنچ جانے کے بعد میاں صاحب اور ان کی دختر کامل آٹھ مہینوں تک مکمل خاموش رہے۔ نیب نے اگست 2020ء میں مریم نواز صاحبہ کو ایک مقدمے میں گرفتار کرنا چاہا تو پنجابی محاورے والے کھڑاک ہوگئے۔
منطق کا اطلاق کریں تو لندن پہنچ جانے کے بعد میاں صاحب کو وطن لوٹنے سے قبل سوبار سوچنا چاہیے۔ ان کی جماعت مگر عندیہ دے رہی ہے کہ وہ اگلے برس کے ابتدائی ہفتوں میں کسی بھی دن پاکستان آسکتے ہیں۔ اس ضمن میں نہایت سنجیدگی سے یہ طے کرنے کی بحث بھی جاری ہے کہ وہ کونسے شہراتریں۔
میاں صاحب کی واپسی کے جو عندیے دیے جارہے ہیں انہیں مجھ جیسے صحافی سیاسی بھڑک یا تڑی شمار کرتے ہوئے نظرانداز کرسکتے ہیں۔ معاملے کو مگر اس وقت سنجیدگی سے لینا لازمی ہوجاتا ہے جب وزیر اعظم صاحب اپنے ساتھیوں کے روبرویہ تسلیم کریں کہ نواز شریف صاحب کی تاحیات نااہلی ختم کروانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
عمران خان صاحب کے مذکورہ بیان کے بعد کئی ساتھی رعونت سے یہ سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی اور ان کی نااہلی ختم کروانے کی گیم کون لگارہا ہے۔ یہ سوال اٹھانے سے قبل اگرچہ لازمی تھا کہ میرے ساتھیوں نے اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو ہمیں یہ بتانے کے لئے بھی بھرپور انداز میں استعمال کیا ہوتا کہ میاں صاحب کوسزا یافتہ ہونے کے باوجود جیل سے نکال کر لندن بھیجنے والا سکرپٹ کیسے تیار ہوا تھا۔ اس سکرپٹ کے مصنف کون تھے اور یہ کن کے ہاتھوں بروئے کار لایا گیا۔ ہم نے اس ضمن میں کسی تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ہمارے ساتھ "سب سمجھتے ہیں سب چپ ہیں " والا معاملہ ہے اور اس حقیقت کا ادراک بھی کہ "جو چاہتے ہو آپ کرو" اور دیگر افراد کو "عبث بدنام کیا"۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ نواز شریف صاحب کو لندن بھیجنے کی طرح ان کی واپسی کا سکرپٹ بھی تیار ہوچکا ہے یا نہیں۔ اگر واقعتا تیار ہوچکا ہے تو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ چند مبصرین البتہ ہمارے معاشی حقائق کو ممکنہ یا مبینہ سکرپٹ کی تیاری کا باعث ٹھہرارہے ہیں۔ مجھ سادہ لوح کو اگرچہ سمجھ نہیں آرہی کہ وطن لوٹ کر نواز شریف صاحب اس ضمن میں کونسا معجزہ برپا کرسکتے ہیں۔ شنید ہے کہ منگل کے روز وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد شوکت ترین صاحب ساڑھے تین ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے والے منی بجٹ کو پارلیمان کے روبرو رکھ دیں گے۔ اس بجٹ کو منظور کروانے کے لئے بالآخر فون بھی یقینا کھڑکیں گے۔ کیونکہ منی بجٹ رد ہوجانے کی صورت ریاست پاکستان عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے ساتھ کئے وعدوں پر عملدرآمد کے قابل نظر نہیں آئے گی۔
منی بجٹ منظور ہوجانے کے بعد ہمارے ہاں مہنگائی کی شدید ترین لہر بھی لائے گا۔ محض نواز شریف صاحب کی وطن واپسی اسے روک نہیں پائے گی۔ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والوں کی مشکلات اگر ایسے ہی رہنا ہیں تو نواز شریف صاحب کی وطن واپسی کے بارے میں غور وفکر میں مبتلا کیوں ہوں۔