غذائی بحران سے غافل ہمارے "ذہن ساز"

منگل کی صبح جو کالم چھپا ہے رواں سردی کے موسم میں بارشیں نہ ہونے سے متعلق تھا۔ تھوڑی تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ اب کے برس پنجاب میں تاریخی اوسط کے مقابلے میں 42فی صد کم بارش ہوئی ہے۔ سندھ کے کئی علاقوں میں اس کا تناسب 50فی صد سے بھی تجاوز کرگیا۔ زراعت سے جڑے حقائق سے غافل ہونے کی وجہ سے مجھے گماں تھا کہ نہروں اور ٹیوب ویلوں کے ہوتے ہوئے اوسط سے کم بارش شاید آپ کی فصل کو بڑھوتی سے نہیں روکتی۔
بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کا خوف میرے لئے بارانی علاقوں تک ہی محدود تھا۔ صبح اٹھتے ہی موبائل دیکھا تو ان علاقوں سے کئی پیغامات آئے ہوئے تھے جو ہمارے ہاں کینو وغیرہ کی پیدائش کی وجہ سے مشہورہیں۔ ان کا گلہ تھا کہ میں نے بارش نہ ہونے کی وجہ سے انڈوں کی کمیابی "دریافت" کرلی مگر کینو کی فصل تباہ ہونے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔
کینو پیدا کرنے والوں کے شکوہ بھرے پیغامات ملے تو یاد آیا کہ میری بیوی کو یہ پھل بہت پسند ہے۔ کئی روز سے وہ گلہ کررہی تھی کہ اب کی بار بازار میں جو کینو میسر ہے وہ ماضی کے مقابلے میں چھوٹا ہی نہیں بلکہ کچھ کھٹا اور کم جوسی بھی ہے۔ اس نے گھر میں کچھ جگہوں پر باغبانی کے شوق میں "فروٹر" بھی لگارکھے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں وہ بہت "ٹیڈی" نظر آرہے ہیں۔ کم از کم اسلام آباد میں اس کا ذائقہ اگرچہ برقرار ہے۔
ٹیوب ویلوں سے یاد آیا کہ چند ہفتے قبل ایک صاحب علم نے مجھے خبردار کیا تھا کہ حکومتی سطح پر ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی سے چلانے کے رحجان کی حوصلہ افزائی زیرزمین پانی کے ذخیروں کو چند ہی برسوں میں غارت کردے گی۔ ان کی دانست میں خوشاب وسرگودھا وغیرہ میں یہ عمل پہلے ہی سے شروع ہوچکا ہے۔ کینو کاشت کرنے والے ایک صاحب جنہوں نے میرا کالم پڑھنے کے بعد ایک پیغام لکھاتھا میرے دوست کے خدشات کی تصدیق کرتے پائے گئے۔ ان کے پیغام میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ ٹیوب ویلوں کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے سیم کے وسائل جنم لے رہے ہیں۔ زمین "کھاری" ہورہی ہے۔
سبزیوں کے دھندے سے آگاہ افراد بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں روزمرہّ استعمال کی سبزیاں سب سے پہلے سندھ سے پنجاب کے بازاروں میں آتی ہیں۔ وہاں کی سپلائی ختم ہوجائے توپنجاب میں اُگائی سبزیوں کی ترسیل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سندھ مگر اب کی بار بازار کی طلب کے مطابق سبزیاں فراہم نہیں کرپایا۔ پنجاب میں گوبھی اور شلجم کے جو پودے لگائے گئے تھے ان کی اکثریت بارش نہ ہونے کی وجہ سے توقع کے مطابق "پھل" نہ دے پائی۔ کئی کاشتکار بلکہ یہ شکایت کرتے پائے جارہے ہیں کہ ان کے پتے جانور بھی کھانے سے گریز کررہے ہیں۔ قصہ مختصر چھوٹی زمین کا مالک کاشتکار معاشی اعتبار سے "رل" گیا ہے۔
معاملہ مگر کاشت کار تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ کم آمدنی والے شہری بھی طلب اور رسد کے قانون کو ذہن میں رکھتے ہوئے غذائی اجناس کماحقہ تعداد میں خریدنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس امر کا اعتراف حکومتی ادارے بھی کررہے ہیں۔ قحط سالی کی وارننگ مگر مشکل انگریزی زبان میں لکھی پریس ریلیزوں کے ذریعے ہورہی ہے۔ قحط سالی کے بارے میں "خبردار" کرنے کے بعد مجھے حکومت کی جانب سے ایسے کسی پروگرام کی تیاری بھی نظر نہیں آرہی جو کسانوں کو یہ بتائے کہ فلاں فلاح بیج کے استعمال سے کم بارش کے باوجود وہ ایسی اشیاء پیدا کرسکتے ہیں جو شاید ہماری روایت کے مطابق عوام میں بہت مقبول نہ ہوں مگر طبی اعتبار سے ان کا استعمال انسانی جسم کو زیادہ چست وصحت مند رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
روایتی میڈیا ہی نہیں بلکہ حق وصداقت اور "حقیقی مسائل کی نشاندہی" کرتے سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالوں تو وہاں چھائے "ذہن ساز" ابھرتے ہوئے غذائی بحران کے بارے میں قطعاََ غافل نظر آرہے ہیں۔ ہمارے "ذہن ساز" وطن عزیز میں جمہوریت کے فقدان سے بہت پریشان ہیں۔ میں بدنصیب بھی صحافت کے شعبے میں "جمہوریت کو توانا" بنانے کے ارادے سے داخل ہوا تھا۔ 1975ء سے اس ضمن میں اِدھر اُدھر دھکے کھانے کے بعد جب"خبر" لکھنے کے قابل ہوا تو جولائی 1973ء میں ضیاء الحق کا مارشل لاء لگ گیا۔
موصوف کا اقتدار مستحکم ہوگیا تو ہمارے ہاں پری سنسرشپ کی بیماری نمودار ہوئی۔ میں جو خبر لکھتا وہ چھپنے سے قبل افسروں کی منظوری کے لئے بھجوائی جاتی۔ اخبار کے مدیر کو یہ حق واختیار میسر نہ رہا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کونسی "خبر" کن الفاظ میں چھاپی جائے۔ پری سنسر شپ کے کئی برس گزرجانے کے بعد "پریس ایڈوائس" کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اخبار کے مدیر اور نیوز ایڈیٹر کو فون پر حکم ملتا کہ فلاں خبر کو "کِل" کردیا جائے۔ چھاپنا لازمی ہے تو اندرونی صحافت میں محض ایک پیرا کے ذریعے چھاپ دیں۔
مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے ایسے حکم 1990ء کی دہائی کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے دوران بھی آتے رہے۔ بعدازاں جنرل مشرف نے کارگل سے نادم ہوکر نجی ٹی وی چلانے کی اجازت دی جسے ہمارے کئی دانشور فوجی آمر کا اس قوم پر احسان عظیم بتاکر پیش کرتے ہیں۔ اس "احسان" کے نتیجے میں الیکٹرانک میڈیا اب جس حال میں پہنچا ہے اس کی داستان بیان کرنے کے لئے کالم نہیں کتاب درکار ہے۔
جان کی امان پاتے ہوئے میں الیکٹرانک میڈیا کے عروج کے دنوں میں بھی ٹی وی سکرینوں پربیٹھ کر خبردار کرتا رہا ہوں کہ "ہماری دوکان" چل نہیں پائے گی۔ ہم نے خود اسے بے دردی سے تباہ کیا ہے۔ روایتی میڈیا تباہ ہوگیاتو یوٹیوب وغیرہ دورِ حاضر کے اصل نمائندہ بن گئے۔ حکومت نے اسے بھی لگام ڈالنے کی تیاری شروع کردی۔ بالآخر حال میں پیکا ایکٹ تمام سیاسی جماعتوں کی کھلی حمایت یا منافقانہ مخالفت سے پاس ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود بازار میں "بکنے" کے لئے ضروری ہے کہ آپ فقط موجودہ حکومت کو پیکا ایکٹ کا ذمہ دار قراردیں اور امید باندھیں کہ اڈیالہ جیل کا پھاٹک کھلنے کے بعد عمران خان صاحب جب دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر لوٹیں گے تو پریس کاملاََ آزاد ہوجائے گا۔
میں بھولا تو ہوں مگر اتنا بھی نہیں۔ مصر میں عرب بہار کی ناکامی کے بعد گزشتہ دس برس سے السیسی ایوان صدر میں دورِ حاضر کے فرعون کی طرح براجمان ہے۔ اپنے ہاں کے "انقلابی" بھی اب ٹرمپ سے امید کھوکر "عطار کے ان ہی لڑکوں" سے خط وکتابت شروع ہوگئے ہیں جن سے ہمیں "حقیقی آزادی" دلوانے کے دعوے ہوئے تھے۔