"آزاد عدلیہ" دیکھنے کی تمنّا؟

کسی اور دھندے سے کہیں زیادہ صحافت کے لئے "برکت" واقعتا حرکت میں ہے اور پیر کے روز میرے کئی ساتھی یہ امید باندھے ہوئے تھے کہ ان کے لئے "برکت" لوٹنے ہی والی ہے۔ اپریل 2007ء کے ایک دن اس وقت کے فوجی صدر مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے ہاں طلب کرلیا تھا۔ موصوف کو خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی موجودگی میں چند فائلیں دکھاکر استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا گیا۔
افتخار چودھری نے انکار کردیا اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ افتخار چودھری کی چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے لئے مگر جو تحریک چلی اس نے کئی صحافیوں کو حق گوئی کی علامتیں بنادیا۔ مجھے بھی اس تحریک کی حمایت کے گناہ میں ٹی وی سکرینوں کے لئے کئی مہینوں تک زبردستی "آف" کردیا گیا تھا۔ ایک ٹاک شو کا اینکر محض گفتارکا غازی ہونے کی وجہ سے "ہیرو" بن گیا۔
"ہیرو" کو "زیرو" بننے کے لئے تحریک انصاف کے احیاء کا انتظارکرنا پڑا۔ سرکار مائی باپ کی بہت ہی ڈیپ سٹیٹ کی سرپرستی میں اکتوبر2011ء کے دن لاہور کے مینارِ پاکستان تلے ایک جلسہ ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی جلسے کو "ایونٹEvent" کی صورت پیش کیا گیا۔ عمران خان صاحب کی اس جلسے کے سٹیج پر "انٹری" فن ڈرامہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہوئی۔ جس انداز میں وہ جلسہ ہوا اس نے تاریخ کے اس ناچیز طالب علم کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ پاکستان میں "عوامی مقبولیت" سے مالا مال ایک سیاستدان "تیار" کیا جارہا ہے۔
"اقتدار میں باریاں لینے والے چوروں اور لٹیروں" کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ایک دیانتدار آدمی۔ کرکٹ سے کرشمہ ساز ہوا رحمدل انسان جس نے گلی گلی جاکر جھولی پھیلائی اور اپنی ماں کی یاد میں لاہور میں کینسر کے موذی مرض کے علاج کے لئے ایک جدید ترین ہسپتال قائم کیا۔ سرکار مائی باپ کی ڈیپ سٹیٹ میں بیٹھے "تخلیق کاروں" نے فیصلہ کیا کہ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کرنے والا اب سیاست میں کرپشن کے نام سے معروف کینسر کے خاتمے کیلئے بھرپور تیاری کیساتھ میدان میں اترے۔
"دیدہ وروں" کے بارے میں ہمیشہ شک وشبے میں مبتلا رہا ہوں۔ نہایت دیانتداری سے عمران خان کی بطور سیاستدان نئے برانڈ کے ساتھ لانچنگ پر سوال اٹھانا شروع ہوگیا۔ میرے اٹھائے سوالات کے جواب تو نہ ملے۔ ایک دن مگر سوشل میڈیا پر ایک مشہور تعمیراتی ادارے کے سرکاری لیٹر پیڈ پر چھپی ایک فہرست وائرل ہوگئی۔ اس فہرست میں ان صحافیوں کے نام شامل تھے جنہیں مذکورہ ادارے نے خطیر رقوم بینکوں کے ذریعے فراہم کیں۔ اس کے علاوہ اپنی جانب سے آباد کی بستیوں میں قیمتی پلاٹ بھی الاٹ کئے۔
کسی نہ کسی وجہ سے مشہور ہوئے افراد کی کردار کشی سے لطف اٹھانے کے عادی افراد میں سے کسی ایک نے بھی یہ سوچنے کی زحمت ہی نہ اٹھائی کہ سیٹھ لوگ صحافیوں کو خریدنے کے لئے ان کے بینک اکائونٹس میں لاکھوں روپے جمع نہیں کرواتے۔ حقائق پر توجہ دینے کی لیکن ہمیں عادت نہیں۔ چند "ہیرو" بنے صحافیوں کو "زیرو" بنانا مقصود تھا۔ یہ ہدف سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل کرلیا گیا۔
سرکار مائی باپ نے حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے "فیک نیوز" کے پھیلائو کو روکنے کے لئے پیکا ایکٹ لاگو کیا ہے۔ 2025ء کے برس وہ گھونسہ یاد آیا ہے جو سرکار مائی باپ کو اس وقت استعمال کرنا چاہیے تھا جب اس کی ڈیپ سٹیٹ میں بیٹھے "دیدہ ور" کے تخلیق کار اپنے راج دلارے کے ناقدوں کی کردار کشی میں مصروف تھے۔ "ڈیپ سٹیٹ" کے علاوہ صحافیوں کی اکثریت بھی "ہیرو" بنے ساتھیوں کے "زیرو" ہونے سے دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی۔
اس بات کا اندازہ ہی نہ لگاپائی کہ "سیلاب بلا" کا رُخ اب ان کی جانب ہونا ہے۔ 2014ء سے وہ سیلاب نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ اس کے بعد نت نئے چینل مارکیٹ میں آئے اور ان پر رونق لگانے کیلئے "نئے چہرے" جو پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ لڑنے کے لئے بھی تربیت یافتہ تھے۔ سرکار مائی باپ کے وسائل سے مذکورہ جنگ کے لئے تیار ہوئے "غازیوں" کی اکثریت اب بیرون ملک بیٹھی ریاست پاکستان کے لتے لیتے ہوئے خوش وخرم زندگی گزاررہی ہے۔ پاکستان میں صحافت کی قبر مٹی میں ملنے والی ہے۔
ایسے عالم میں یہ امید باندھنا کہ پیر کے روز جوڈیشل کونسل کے اجلاس سے قبل چند وکلاء سپریم کورٹ کے دروازے تک پہنچ کر 2007ء جیسی "عدلیہ آزادی" کی تحریک کا ابتدائی باب لکھ رہے تھے میری دانست میں خام خیالی تھی۔ 2007ء میں جو تحریک چلی اس کا انجام جنرل مشرف کی جانب سے ایمرجنسی-پلس کے نام سے لگائے ایک اور مارشل لاء کی صورت ہوا۔ "آزاد منش ججوں" کی اکثریت اس کے بعد اسلام آباد کے ججز کالونی میں موجود گھروں میں نظر بند کردی گئی۔ ان کی قیام گاہوں کی جانب جاتی سڑکوں پر خاردار تاریں نصب ہوگئیں۔ خلق خدا کی اکثریت ججوں کی نظربندی بھول کر نئے انتخاب کا تماشہ دیکھتی رہی۔ ٹی وی سکرینوں سے بین ہوکر مجھ جیسے "ہیرو" بنے صحافی بھی بھلادئے گئے۔
ججوں کی نظر بندی اور چند صحافیوں کا ٹی وی سکرینوں سے غائب ہوجانا خلق خدا کی اکثریت کو اس وقت یاد آیا جب ایک سیاستدان یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم منتخب ہوکر نظر بند ججوں کی قیام گاہوں کے باہر لگی خاردار تاریں ہٹانے کا حکم دیا۔ صحافیوں کی ٹی وی سکرینوں سے عدم موجودگی کا ذکر آصف علی زرداری نے ٹی وی کو دئے ایک انٹرویو میں کیا۔ افتخار چودھری نے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوکر مگر منتخب سیاستدانوں کے ساتھ کیا کیا؟ آپ کو یاد نہیں رہا تو عرض کردیتا ہوں کہ ہر دوسرے روز ان میں سے کئی جعلی ڈگری کے الزام میں ازخود نوٹس کے ذریعے طلب کئے جاتے تھے۔
عدلیہ افتخار چودھری کے ذریعے "آزاد" نہیں بلکہ ریاست کا طاقتور ترین ستون بننے کی دھن میں مصروف ہوگئی۔ نوبت بہ ایں جارسید کہ منتخب وزیر اعظم کو حکم ملا کہ وہ پاکستان ہی کے ایک منتخب صدر کے خلاف ایک غیر ملک کو خط لکھے اور پتہ چلائے کہ موصوف نے وہاں موجود بینکوں میں کرپشن سے کمائی کتنی رقم جمع کروارکھی ہے۔ گیلانی صاحب نے وہ خط لکھنے سے انکار کیا تو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہراکر گھر بھیج دئے گئے۔ افتخار چودھری نے جو نظیر قائم کی ثاقب نثار نے اسے نواز شریف کے خلاف انتہا تک پہنچایا۔ "جھوٹا اور خائن" ٹھہراکر گھر بھیج دیا۔
حالیہ تاریخ کے ایسے واقعات کے بعد کوئی سادہ لوح ہی یہ فرض کرسکتا ہے کہ کوئی سیاستدان یا جماعت خلوص دل سے "آزاد عدلیہ" دیکھنے کی متمنی ہے۔ وکلاء تحریک کے امکانات افتخار چودھری اور ثاقب نثار جیسے کردار اپنے ہاتھوں تباہ کرچکے ہیں۔