صادقین فقیرکے تحائف
"آپ کے اخبارات ان دنوں مجھ پر بہت کیچڑ اچھال رہے ہیں۔"
صادقین نے بڑی حیرت سے اپنا منہ اوپر اٹھایا اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "میڈم! ہم فقیر لوگ تو اخبار پڑھتے ہی نہیں۔"اس غیر متوقع جواب پر بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی ایک دم سے پشیمان سی ہوگئیں، اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے اخبارکو جھٹک کر ایک طرف رکھ دیا۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہ سوال غلط آدمی سے کر دیا ہے اور پھر اسی ملاقات میں دوبارہ مسز گاندھی نے صادقین سے بھارت اور پاکستان کے حوالے سے یا سیاست پرکوئی بات نہ کی۔ صادقین کو ہندوستان آنے پر خوش آمدید کہا اور ملاقات کو خوش آیند قرار دیا۔ مسزگاندھی نے صادقین سے پوچھا کہ وہ اورکتنے دن قیام کریں گے اور ہندوستان کی سرزمین پر کہاں کہاں جانا پسند کریں گے؟
صادقین نے کہا: "میں کہیں اور جاؤں یا نہ جاؤں، اپنے آبائی شہر امروہہ ضرور جاؤں گا۔"
یہ 1981ء کا ذکر ہے دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے میں انڈین پرائم منسٹر سیکریٹریٹ سے فون آیا کہ مسز اندرا گاندھی کل 12بجے "صادقین" سے ملنا چاہتی ہیں۔ جب ملاقات کا وقت آیا تو مسز گاندھی صادقین سے مصافحہ کرنے کے لیے اپنی کرسی سے کھڑی ہوئی تھیں۔ مطالعہ سے پتا چلا کہ مسز گاندھی صادقین سے ملنے کی خواہش رکھتی تھیں یہی وجہ ہے کہ دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں انڈین پرائم منسٹر کے سیکریٹریٹ سے فون آیا تھا۔ 30جون 1930ء میں امروہہ میں پڑھے لکھے خطاط گھرانے میں آنکھ کھولنے والے (صادقین) بچے کے بارے میں کسی کوکیا پتا تھا کہ جس بچے نے دنیا میں آنکھ کھولی ہے وہ دنیا کی آنکھوں کا ستارہ بن جائے گا اور جب لڑکپن اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے گا تو اس کا سماجی شعور سامنے آئے گا جس میں سوچ کی گہرائی اور بصیرت جو اسے ہر عام انسان سے جدا ومنفرد رکھے گی۔ تخلیق کے حامل صادقین ایک عظیم شخصیت لیکن اُن کا مزاج فقیرانہ اور وہ ایک پیدائشی مفکر، فنکار تھے۔
تخلیقی کام کیا ہوتا ہے، اس کا معیار کن عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے، یہ جاننے اور دیکھنے کے لیے صادقین کی ابتدائی زندگی پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ انھیں بچپن ہی سے تختی پر رباعیات لکھنے کا شوق تھا اور پھر چودہ اور پندرہ برس کی عمر میں باقاعدہ رباعیاں لکھنی شروع کیں۔ صادقین کا اپنا کہنا تھا کہ " انھوں نے کبھی کوئی بھی کام عادتاً نہیں کیا " یہی وجہ ہے کہ رباعیاں لکھنے کا عمل رک گیا، تو انھوں نے رنگوں سے کھیلنا شروع کر دیا اور رنگوں سے دوستی نے انھیں دنیا کے ہر رنگ سے ملوا دیا اور ان کے مزاج کو انقلابی سوچ میں بدل ڈالا، جس کا عکس ان کی نقش نگاری اور مصوری میں پایا جاتا ہے۔ صادقین ایک ایسی شخصیت تھے جن کے کیے ہوئے ہر طرح کے کام مثلاً مصوری، خطاطی اور شاعری میں وسعت اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ معنی خیز تحریر اور نقاشی میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ سماج کے رویوں کو منہ چڑھاتی، توکبھی اُن پر دلیری سے آئینہ دکھاتی ہیں۔
صادقین مفکرانہ سوچ کے مالک تھے معاشرے کی الجھنوں کو سمجھتے تھے، اور رویوں سے آشنا تھے۔ صادقین نے شاعری کی صنف سے بھی بھرپور انصاف کیا، بلکہ مشکل ترین صنف جسے رباعی کہتے ہیں، زندگی کے پہلوؤں کی ترجمان بن کر سامنے آئی۔ صادقین کے حوالے سے اگر مطالعہ کیا جائے تو اُن کے کام اور ان کی شخصیت کے پیمانے وسیع ہیں جن کی عکاسی کرنا ایک ہی تحریر میں ممکن نہیں لیکن ان کی ذات سے وابستہ کچھ ایسے پہلوؤں کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ صادقین کو تاریخ نشاۃ ثانیہ میں تین اُن اہم شخصیات کے بعد ایشیائی شخصیت عمر خیام کے ساتھ ہی تصور کیا جاتا رہا ہے۔
لیونارڈو ونسی، مائیکل اینجلو، پابلو پکاسو، اِن تخلیق کاروں نے اپنے فن کے جھنڈے یورپ میں گاڑھے، مذکورہ تین مغربی شخصیات کے علاوہ اگر ہم بات عمر خیام کی شاعری کے حوالے سے بات کریں تو انھوں نے میدان علم ہیت، یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ میں عالمی شہرت حاصل کی ہے لیکن اس سے بڑھ کر رباعیاں کہنے پر ان کا ایک خاص مقام ہے اسی طرح صادقین ایشیا کی سر زمین میں رباعی میں کمالِ فن رکھتے تھے۔ صادقین نے غالب، اقبال اور فیض کی شاعری سے کلاسیکی ادب کو نقاشی کے روپ میں ڈھالتے ہوئے معاشرے کو مختلف زاویوں اور پہلوؤں میں پیش کیا۔ یہ ایک ایسا آرٹ تھا جو صادقین نے متعارف کروا کر ایشیا میں اپنے نام کے جھنڈے گاڑھ دیے۔ تقسیم کے بعد بھی صادقین ہی اپنے فن و فکر کے حوالے سے ہمیں نمایاں حیثیت میں نظر آئے۔ اس کی خاص وجہ ان کا وسیع شاندارکام ہے جو پاکستان کی بڑی عمارات ان کی دیواروں اور چھتوں پر تخلیق کیا۔ اس عمل نے ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو انفرادیت بخشی۔
فن مصوری کی دنیا میں صادقین نے ایسے نقوش ثبت کیے ہیں، جو انمٹ ہیں، جیسا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیوار، منگلا ڈیم، میورل جس کی 24 فٹ اونچائی، چوڑائی 170 پر محیط ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ میورل دنیا کے وسیع ترین میورل میں شمارکیا جاتا ہے۔ صادقین نے جسے 70 دن اور 71 راتوں میں مکمل کیا۔ اس کے علاوہ صادقین کے بڑے کاموں میں علی گڑھ یونیورسٹی، بنارس یونیورسٹی، نیشنل فزیکل ریسرچ انسٹیوٹ حیدرآباد دکن، اسلامی انسٹیٹیوٹ دہلی اور ابوظہبی پاورہاؤس شامل ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں صادقین نے جناح اسپتال میں دو میورل اور سول ایوی ایشن اتھارٹی، کراچی کے ہیڈکوارٹر (کراچی ایئر پورٹ) میں بھی ایک میورل بنایا، جس کے نقش مٹ چکے ہیں۔
صادقین کی زندگی کا آخری بڑا کام فیریئر ہال میں ایک شاندار میورل کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تخلیقی ذہن کے ساتھ منظرکی وسعت کا پیمانہ اونچا ہو تو ایک منفرد چیز تخلیق ہوتی ہے۔ صادقین ایک فقیرانہ مزاج رکھتے تھے اس ملنگ شخصیت نے قرآن پاک کی دیگر آیات کے علاوہ، سورہ رحمن کی آیات کی خطاطی کے شاہکار تخلیق کیے اور مسلم دنیا میں پاکستان کی ایک الگ شناخت بنا گئے۔ تمغۂ امتیاز، ستارہ امتیاز، پرائڈ آف پرفارمنس اور دیگر ممالک سے اعزازات حاصل کرنیوالے صادقین نے دس فروری 1987ء میں کراچی کے ایک اسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں لیں اور خالقِ حقیقی سے جا ملے۔