ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
علامہ اقبال نے زندگی کی حقیقت کو بڑی پرکاری کے ساتھ بیان کیا ہے۔
موت تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
ہر روز ہزاروں لوگ سوئے منزل روانہ ہو جاتے ہیں انھی جانے والوں میں خاص الخاص شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں جنھیں ہم لیجنڈ یا سیلیبرٹی کہتے ہیں، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی بھی گزرے پیر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی 26 کتابوں کے مصنف اور طنز و مزاح کے بادشاہ تھے گویا ان کا یہ انداز فکر ان کی شناخت بنا، وہ مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ سفرنامہ نگار، صحافی، استاد اور مترجم تھے، وہ ایک اعلیٰ پایہ کے قلم کار ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے انسان بھی تھے، اعلیٰ ظرفی اور خوش خلقی ان کے خون میں شامل تھی۔
معین قریشی سندھ ایمپلائیز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ (سیپی) سے سینئر ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے، ان کا ادبی سفر 1953 میں شروع ہوا تھا اور تاحال جاری تھا۔ ان کی 27 ویں کتاب بھی شایع ہو چکی تھی لیکن اجل نے اجازت نہیں دی، ورنہ ہمیشہ کی طرح اس کتاب کی تقریب تعارف بھی پروقار انداز میں ہوتی۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی بیک وقت انگریزی اور اردو میں لکھا کرتے تھے، انھوں نے "Dawn" میں تقریباً 20 سال تک Friday Feature کے لیے دینی موضوعات پر مضامین قلم بند کیے، انھوں نے پی ٹی وی کے لیے "کہتا ہوں سچ" کے عنوان سے ڈراموں پر مبنی ایک سیریل بھی لکھی جسے بہت شہرت ملی، وہ اپنے علمی و ادبی کارناموں کی بدولت شہرت اور عزت کی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے۔
جس وقت مجھے ان کے سیکریٹری نے ان کے سانحہ ارتحال کی خبر دی، اس وقت میں اپنی مرحومہ والدہ کو یاد کرکے اشک بہا رہی تھی ان کی محبتیں اور اولاد کے لیے ایثار و قربانی کی مثالیں مجھے یاد آرہی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال نے دکھ مزید بڑھا اور دیر تک میں ڈاکٹر معین قریشی کے اخلاق و عادات کو یاد کرتی رہی۔ ان کی دنیا بھر کی معلومات پر مشتمل کتابیں میرے سامنے آگئیں، بے شک انھوں نے کالم نگاری اور سفرناموں کے ساتھ بے شمار کتابوں پر تبصرے اور تجزیے تحریر کیے تھے۔
ڈاکٹر صاحب سے میرا باقاعدہ تعارف 2007 میں اس وقت ہوا جب میرے ناول نرک کا پہلا ایڈیشن شایع ہوا تھا، انھوں نے کتاب کو توجہ سے پڑھا اور اس پر بے حد وقیع مضمون لکھا اور اسے سپرد ڈاک بھی خود ہی کردیا، ان کی تعریف و توصیف اور ناول کے محاسن کا تذکرہ گویا میرے لیے سند کا درجہ رکھتا تھا۔ ان کے ہاتھوں سے بصیرت و بصارت کے ٹانکے ہوئے موتیوں سے مرصع مضمون میری لائبریری میں اہم دستاویز کی طرح محفوظ ہے۔
کئی سال قبل ان کی کتاب "بہ نظر غائر" شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب کی خاصیت یہ تھی کہ راقم کے مضمون کے ساتھ ساتھ دوسرے مشاہیر ادب کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنے وسیع مطالعے اور شوخی و لطافت سے مزین مضامین لکھے تھے، محترمہ سعدیہ حریم کے مجموعہ کلام "درد مشترک" پر تحریر کردہ مضمون سے چند اشعار جو بامعنی بھی ہیں اور پر تاثیر بھی:
ایک مشتِ غبار ہوتی ہے
زیست ناپائیدار ہوتی ہے
زیست انساں کے لیے عیش کا پیغام بھی ہے
اور یہ گردشِ حالات کا اک نام بھی ہے
اختر رضا سلیمی کے مجموعہ کلام " ارتفاع " کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا فکر انگیز مضمون بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جناب اختر رضا سلیمی کی پر وقار شخصیت اور ان کے فن کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کم گو، مخلص، حلیم الطبع، پرعزم اور شائستہ نوجوان ہیں، تھوڑی دیر ان سے باتیں کیں تو محسن احسان کا یہ شعر یاد آگیا:
گفتگو کرکے وہ لوگوں کا دل موہ لیتا تھا
بات کرنے کا تھا کچھ ایسا سلیقہ اس کو
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا حافظہ غضب کا تھا، بے شمار اشعار ازبر تھے، اصلاحِ ہنر اور گرامر سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے بڑی عرق ریزی سے "یوں نہیں، یوں اور کچھ دیگر" کے نام سے کتاب ترتیب دی۔ بقول پروفیسر غازی علم الدین "مصنف کی تحقیقی مہارت اور بصیرت کتاب میں جگہ جگہ ظاہر ہوتی ہے، حواشی اور حوالے بڑی محنت اور تحقیقی اسلوب کے مطابق لکھے گئے ہیں۔"
ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب "کتنے آدمی تھے" اس کتاب پر بھی مقررین میں مجھ احقر کا نام شامل تھا، ڈاکٹر معین قریشی کتابوں کی تقریب رونمائی کے مواقع پر سابق گورنر سندھ جنرل (ر) معین الدین حیدر صاحب، یاسین ملک اور میاں زاہد کو مدعو کرتے تھے، ہو سکتا ہے لفظ "ہمیشہ" مبالغہ آرائی ہو، لیکن میں نے جس بھی کتاب میں بحیثیت مقررہ شرکت کی، ان اعلیٰ حضرات کو مسند پر براجمان پایا، اس بار ہمارے ساتھ بہت پیاری شخصیت مہتاب اکبر راشدی بھی تشریف فرما تھیں، جن کے بارے میں کتاب کے حصہ سوم میں خاکہ بعنوان مہتاب اکبر راشدی جن کی ٹریڈ مارک ہنسی لوگوں کو گھائل کردیتی ہے، درج ہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کا مضمون بعنوان باس زندہ، ذلت باقی کے چند پیراگراف اپنی تحریر میں شامل کیے تھے ڈاکٹر صاحب نے اپنے باس کی روداد اور قابلیت کا نقشہ اس قدر لطیف پیرائے اور طنز و مزاح کی چاشنی میں ڈبو کر نہیں بلکہ فرائی کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ بقول ڈاکٹر صاحب ہم نے زندگی کا بڑا حصہ تعلقات عامہ میں گزارا، باس کی تقریریں پیغامات لکھنا فرائض منصبی اور ان کی ذاتی تشہیر کا خاطر خواہ بندوبست کرنا فرائض غیر منصبی میں شامل تھا۔ ایک موقع پر باس کے کہنے پر تقریر لکھ کر دی اور احتیاطاً تقریر کی تین کاپیاں بھی بنوا کردیں تاکہ بوقت ضرور کسی قدردان کو دینے کے کام آئیں۔ جب وہ سیمینار سے واپس لوٹے تو آتے ہی ہماری پیشی ہوگئی۔
ہم نے دیکھا موصوف بھنائے ہوئے تھے، ہم نے ڈرتے ان سے پوچھا سر! آپ کا خطاب لوگوں کو پسند آیا؟ ہم پر آنکھیں نکالتے ہوئے گرجے "آپ کو کس گدھے نے ڈائریکٹر تعلقات عامہ بنا دیا تھا" ہم جواب دیتے تو ان کا راز فاش ہوتا، لہٰذا اپنا پہلا سوال دہرایا، اب وہ چنگھاڑے "آدھے نالائق میرے خطاب کے دوران اونگھ رہے تھے، جو بدبخت جاگ رہے تھے وہ ایک ایک کرکے باہر نکلتے رہے، خطاب کے دوران مجھے تین پرچیاں ملیں، پہلی میں ڈائس چھوڑنے کی التجا، دوسری میں نصیحت اور تیسری میں ہدایت کی گئی تھی اور پھر چوتھی پرچی سامعین کی طرف سے آئی، جس کا کوئی جواز نہیں تھا ہم نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے سوال کیا، سر! وہ مصرعہ کیا تھا، کہنے لگے کسی احمق نے لکھا تھا "سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے" پھر کیا ہوا سر؟ ہماری آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی تھی، پھر یہ ہوا، ان ناہنجاروں نے میرے بیٹھنے کے بعد سیمینار ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
پانی پینے کے بعد وہ کچھ ٹھنڈے ہوئے تو قدرے نرم لہجے میں گویا ہوئے، آپ نے ایک گھنٹے کی تقریرکیوں لکھی تھی، جب کہ منتظمین نے مجھے بیس منٹ دیے تھے، یہ سن کر تو ہم بوکھلا گئے، جان کی امان پاتے ہوئے ان سے عرض کیا، سر! معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وہ دو اضافی کاپیاں بھی پڑھ دیں جو ہم نے احتیاطاً دی تھیں۔
تو قارئین! یہ تھے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جو ہنسانے کے فن سے اچھی طرح واقف تھے۔ دوست محمد فیضی نے لکھا ہے "ان کا شمار ادب نوازوں میں نہیں عبادت گزاروں میں ہونا چاہیے۔"مجھے یہ اعزاز حاصل تھا کہ میں نے ان کی ایک نہیں پانچ کتابوں پر مضامین پڑھے ان کے دولت کدے پر "دعوت پائے" پر حاضری دی۔ اللہ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ کو بہت سے صبر سے نوازے۔ (آمین)
ورق تمام ہوا مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے