شعاع نورانی اور حالات حاضرہ
سہ ماہی انوار رضا کا " شعاعِ نورانی نمبر" شایع ہوا ہے، یہ پرچہ پابندی ملک محبوب الرسول قادری کی ادارت میں شایع ہوتا ہے۔ ان کی محنت، لگن اور عشق رسولؐ بہترین تحریروں کی شکل میں ناقدین اور قارئین کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے، ایمان کی حرارت اللہ اور اس کے نبیؐ سے چاہت کے نتیجے میں ہر لفظ معطر اور باد بہاری کا موسم لے آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مجتبیٰؐ کو پوری دنیا میں رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا، اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے "اور ہم نے آپ کے ذکرکو بلند کردیا" اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کا نام اپنے ساتھ جوڑ دیا ہے، اللہ اور محمدؐ کی اطاعت اور قبولیت کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق مسلمان وہ ہے جسے ہر چیز (جان و مال، اولاد) سے زیادہ رسولؐ سے محبت ہو۔ اب اگر کوئی گستاخیٔ رسول کرے گا تو مسلمانوں کے دلوں کو بڑی تکلیف ہوگی اور یہی اذیت اسے اسلام کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
اس بات کا اعتراف ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی پوری دنیا کے سامنے کرچکے ہیں کہ محمدﷺ کی محبت ہمارے دلوں میں بستی ہے انھوں نے بھی مذموم حرکات کرنے والوں کا تذکرہ کیا کہ وہ ایسا کرکے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔
جب کہ وہ ہولوکاسٹ کو موضوع بحث یا تمسخر کا بہانہ نہیں بناتے ہیں، تو مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ کیوں؟ ابھی دو دن قبل ملعون لارس ولکس اپنے بدترین انجام کو پہنچا۔ اس ملعون نے توہین آمیز خاکے بنائے تھے اس کی اس حرکت نے اس سے اس کا سکون اور خوشی چھین لی۔ یہ واقعہ 2007 کا ہے جب سوئیڈن میں رہنے والے بدبخت شخص نے یہ مذموم حرکت کی، پوری دنیا میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، 2015 میں اس کارٹونسٹ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس میں وہ بچ گیا اور مزید اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا۔
القاعدہ نے اسے ہلاک کرنے پر ایک لاکھ ڈالر کا اعلان بھی کیا تھا، اب جو عذاب نازل ہوا، اسے اس نے گھیر لیا۔ اس کے سیکیورٹی اہلکار بھی مدد نہیں کرسکے وہ خود اس کی طرح جل کر خاکستر ہوگئے وہ دہکتی ہوئی آگ میں مدد کے لیے پکارتا رہا، لیکن اسے کوئی نہ بچا سکا۔ اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرا گئی، گاڑی اور ٹرک کے تصادم سے گاڑی میں آگ لگ گئی اور آناً فاناً اس ملعون کے ساتھ شعلوں میں تبدیل ہوگئی۔ اللہ کا عذاب اور سزا اتنا ہی دردناک ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی واقعات جنم لے چکے ہیں لیکن ہر واقعہ کا انجام عبرت ناک ہی ہوا۔
سہ ماہی "انوارِ رضا" میں شاہ احمد نورانی کے قرآن و احادیث کی روشنی سے منور کئی ایسے ہی واقعات درج ہیں۔ 616 صفحات قرآن کی روشنی سے دمک رہے ہیں۔ ملک محبوب الرسول قادری اپنے مضمون بعنوان "اپنی بات" میں لکھتے ہیں "قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی (2003-1926) نظریاتی محاذ پر ہمارے عہد کے عظیم سپہ سالار تھے، انھوں نے لادین، بے دین، ملحد و گمراہ طبقات کے خلاف چومکھی لڑائی لڑی، وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے سبب جمعیت علما پاکستان ملی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلس عمل اور ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ رہے۔ ان کے خطبات آج بھی اپنی نظیر نہیں رکھتے، بقول ملک صاحب کہ "ہم نے پہلی مرتبہ خطباتِ نورانی کو یکجا کیا ہے" اپنی تحریر کے ذریعے اپنے معاونین اور مخلصین کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں جو لاالہ الا اللہ کے نام پر معرض وجود میں آیا، اس ملک میں اسلامی قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نافذ ہی نہیں ہوئے۔ مولانا شاہ احمد نورانی بے باک، جرأت مند اور سچے مسلمان تھے، ان کی تحریریں اور تقاریر اس بات کا ثبوت ہیں، گستاخِ رسولؐ اور مملکت خداداد پاکستان میں مداخلت کرنے والوں کا تذکرہ انھوں نے دنیا بھر کے خصوصاً اسلامی ممالک کے حوالے سے اس طرح کیا ہے، عالمی طاقتیں پاکستان کی نظریاتی مملکت کو کمزور کرنے کے لیے مداخلت کر رہی ہیں۔
پہلے ان کا کہنا یہ تھا کہ بجلی کے پیسے بڑھادو، گیس کے اور گوشت کے پیسے بڑھادو، ورلڈ بینک نے کہا چینی اور دواؤں کے پیسے بڑھا دو۔ اب آہستہ آہستہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چور نے انگلی پکڑتے پکڑتے پونچا پکڑ لیا۔
بخاری شریف، مسلم شریف، مسند امام احمد حنبلؒ، کنزالاعمال میں یہ حدیث درج ہے۔ ایک موقع پر حضور پرنورؐ نے فرمایا کہ کعب ابن اشرف یہودی نے شان مصطفیؐ میں گستاخی کی ہے، کون اس سے بدلہ لیتا ہے؟ صحابی رسولؐ محمد بن مسلمہ فوراً کھڑے ہوگئے اور کہا حضورؐ! میں بدلہ لوں گا، آپ اجازت دیجیے۔
فرمایا اجازت ہے۔ محمد بن مسلمہؓ مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے، انھوں نے کہا 24 گھنٹے گزرنے نہ پائیں گے کہ میں زمین کو رسول اللہؐ کی گستاخی کرنے والے سے پاک کردوں گا۔ 24 گھنٹے گزرنے بھی نہ پائے تھے کہ محمد بن مسلمہؓ نے یہودی کعب بن اشرف کو اس کے قلعے میں جا کر ختم کردیا اور فرمایا، میرا دل ٹھنڈا ہو گیا، میں نے نبی پاکؐ کے دشمن کو ختم کردیا۔ حضور اکرمؐ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کو حکومت گرفتار کرے اور سزائے موت دے۔
اسی حوالے سے ایک واقعہ درج ہے۔ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک یہودی اور ایک نام کا مسلمان حاضر ہوئے، اور کہا، میرا اس یہودی سے جھگڑا ہے، آپؐ فیصلہ کردیجیے۔ حضور پاکؐ نے واقعہ سننے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور جو نام کا مسلمان بن کر آیا تھا اس نے قبول نہیں کیا اور وہ حضرت عمرؓ کے پاس یہودی کو لے کر چلا گیا، آپؓ نے تمام ماجرا سنا اور اندر تشریف لے گئے واپسی پر آپؓ کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی اور پھر اس منافق کی گردن پکڑی اور فرمایا جو رسولؐ کے فیصلے سے راضی نہ ہو، عمرؓ کی تلوار اس طرح فیصلہ کرتی ہے۔
رشتہ داروں نے حضورؐ کے پاس جاکر استغاثہ پیش کیا کہ عمرؓ نے ایک مسلمان کو قتل کردیا۔ بہت بڑی بات تھی، آیت مبارکہ اتری، قرآن پاک کا فیصلہ اتر آیا۔ اللہ فرماتا ہے کوئی مسلمان ایمان والا ہو ہی نہیں سکتا جب تک دل و جان سے رسولؐ کے ہر فیصلے کو قبول نہ کرلے۔ حضورؐ نے فرمایا، وہ مسلمان رہا ہی نہیں تھا اس لیے اس کا قتل کرنا ٹھیک تھا، اس (منافق) نے رسول اکرمؐ کے فیصلے کو نہیں مانا کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنے خطاب میں مدرسہ صفہ کا ذکر کیا جو مدینۃ المنورہ میں پہلی جامعہ تھی اس کی بنیاد حضرت محمد ﷺ نے مسجد نبوی میں رکھی، اس مدرسے میں علم حاصل کرنے والوں کی تعداد 50 اور 80 کے درمیان تھی، یہ جامعہ روضہ شریف کے قریب ایک چبوترے پر قائم تھی، اس میں آپؐ کے توسط سے قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ وہاں جو لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے، ان میں سیدنا صدیق اکبرؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ، انھی میں حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ بے شمار صحابہ کرام شامل تھے۔
مدرسہ صفہ بہت بڑا اور عظیم مدرسہ تھا وہاں تبلیغ کی حکمت اور قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی تھی، وہاں سیاست کے ساتھ مجاہدے اور ریاضت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے خطبات کو جمع کرکے کتابی شکل دینا ملک محبوب الرسول کا ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ اسلام میں مولانا نورانی کے ساتھ ان کا نام بھی امر ہو گیا ہے میں انھیں خلوص دل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دارالعلوم کا قیام ضروری ہے بالکل مدرسہ "صفہ" کی طرح۔ تاکہ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے وہ اسلامی تعلیم اور اقدار سے فیضیاب ہو اور پھر معاشرے میں وہی تقسیم کرے جو اس نے قرآن و احادیث کی روشنی میں سیکھا ہے، تربیت کے بغیر تعلیم بے کار ہے۔ پھر اس معاشرے میں عدل و انصاف بھی ہوگا اور وطن کی ماں بہنوں کی عزتیں بھی محفوظ رہیں گی۔ ورنہ تو علامہ کے اس شعر کے مطابق زندگی کی گاڑی یوں ہی رواں دواں رہے گی:
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق