خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان
پاکستان میں گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے خودکشی کرنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے، ایسی ہی صورتحال ہندوستان کی بھی ہے جہاں آئے روز آتما ہتیا کی جاتی ہے مرد و خواتین کی خودکشی کرنے کی وجہ غربت افلاس اور سسرال والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ ہے، گزشتہ دنوں بھارت میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی نے جس کا تعلق احمد آباد سے تھا، خودکشی کرلی۔
اس نے ندی کے قریب کھڑے اپنی ویڈیو بنائی اور یہ ویڈیو اپنے شوہر عارف خان اور اپنے والد کے موبائل پر ڈال دی۔ پورے ہندوستان میں ان لوگوں کے دلوں میں غم کی لہر دوڑ گئی، جو انسانیت پسند تھے، درد دل رکھتے تھے، بیٹیوں کے نازک رشتے سے واقف تھے کہ نہ جانے کب ہوس پرست ان کی عزت اور مال پر ڈاکا ڈال دیں۔ عائشہ عارف خان مصمم ارادہ کرکے گھر سے نکلی تھی کہ آج اس خودغرض اور ظالم دنیا سے وہ ضرور جان چھڑا لے گی، تاکہ اس کے والدین کو رقم کا مطالبہ کرکے مزید تنگ نہ کیا جائے۔
اس نے مایوسی کے عالم میں موت کو اپنی نازک مٹھی میں بند کیا اور اپنے سفاک لالچی، بے حس شوہر کی فرمائش پر اس جگہ پر پہنچ گئی جہاں اسے جان دینی تھی۔ اس نے اپنے شوہر اور پھر اپنے والدین کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا: ڈیڈ! یہ فیصلہ میں نے اپنی مرضی سے کیا ہے، مجھ پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے، کتنا لڑوں گی؟ بس اتنی ہی زندگی تھی، ہواؤں کی طرح بہنا چاہتی ہوں، یہ ندی مجھے اپنے اندر سما لے گی۔"
اس کی عمر صرف تئیس سال تھی اور شادی کو بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، عائشہ کا شوہر اور سسرال والے طمع پرست تھے انھوں نے نہ صرف یہ کہ اس کا چین سکون چھینا تھا بلکہ والدین کی زندگی بھی اجیرن کردی تھی وہ موت کی قیمت لاکھوں کی شکل میں قسطوں میں ادا کر رہے تھے، دس بیس لاکھ کی مزید قسطیں رہ گئی تھیں، عائشہ کے مطلع کرنے کے بعد اس کے شوہر عارف خان نے اسے خودکشی سے باز رکھنے کے لیے نہیں کہا بلکہ اسے حکم دیا کہ خودکشی کرنے سے پہلے اپنی ویڈیو ضرور اپ لوڈ کرنا اور خود رشتے داروں کی شادی میں شرکت کرنے کی تیاری کرتا رہا اس کے گھر والے بھی شادی میں جانے کے لیے تیاری میں مشغول تھے۔
عائشہ عارف خان پر بہت دباؤ تھا کہ وہ یا تو والدین سے رقم لا کر دے یا پھر اس کی زندگی سے نکل جائے اور خودکشی کرلے۔ عائشہ ذہنی طور پر تیار ہوگئی کہ ایک ہی حل ہے۔ زندگی تنگ کردی گئی اور موت خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان میں بھی نوبیاہتا دلہنوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور اس عمل میں شوہر اور اس کے گھر والے شامل ہوتے ہیں بعض اوقات خواتین تنگ آ کر خودکشی کی راہ کا انتخاب کرتی ہیں۔
خودکشی کرنے والوں کے دماغ کو بعض اوقات اس کے اپنے اس قدر مفلوج کردیتے ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتا، عقل و خرد اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ اسی لیے دنیا چھوڑنے سے پہلے اپنے پیاروں کا احساس اپنی موت آپ مر جاتا ہے نہ اسے اس بات کا خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے "کہ اپنی جانیں نہ قتل کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے اور جو ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔" (سورۃ نساء)
ایک حدیث پاک کے مطابق خودکشی کرنے والا بار بار اسی اذیت سے گزرے گا، جس تکلیف کو اٹھا کر اس نے جان دی ہے اور یہ عمل قیامت تک جاری رہے گا۔ (صحیح بخاری)
خودکشی کرنے والے کی بخشش بھی نہیں ہے، خودکشی کا مقصد یہی ہے کہ وہ اللہ کی ذات سے مایوس ہوگیا ہے جب کہ مایوسی اسلام میں کفر ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کے ماں باپ، بہن بھائی، شوہر یا بیوی اگر آپس میں مخلص ہیں تو؟ اولاد جیتے جی اس کے غم میں مر جاتے ہیں ان کی خوشیاں اور خواہشات خودکشی کرنے والے کی تدفین کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں، وہ ساری زندگی روتے ہیں۔ ساتھ میں وہ زمانے کے لیے ایک ایسا سوال بن جاتے ہیں جو سراسر ندامت کے آنسوؤں سے لکھا گیا ہے۔
ہر شخص انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ہمدردی کرنے کے بجائے طعنے، تشنوں سے مزید زخموں پر نمک چھڑکتا ہے، زندگی ایک فسانہ بن جاتی ہے کہ آیا اس نے خودکشی کیوں کی؟ یہ بات ان خودکشیوں کے بارے میں ہے جو ایک معمہ بنی ہوئی ہیں، حقیقت ان کے گھر والوں کے سوا کسی کو نہیں معلوم؟ لیکن جن مرنے والوں کی کہانیاں عریاں ہوگئی ہیں، لوگوں کو خودکشی کی وجہ معلوم ہوگئی ہے تب کچھ اور کچھ راز و نیاز، من گھڑت قصے کہ ایسا ہوا ہوگا، یا پھر یہ بات ہوگی یا کوئی اور ہی کہانی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے معاشرے میں اکثر اوقات والدین اپنی انا اور اپنے قبیلوں کے رسم و رواج کے مطابق اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو خود ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور اسے خودکشی کا نام دیتے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان میں تقریباً ایک سے ہی حالات ہیں، بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں دل خراش واقعات کم ہی جنم لیتے ہیں۔ اس کی وجہ اسلامی تعلیم سے دوری اور تربیت کا فقدان، صبر و شکر کے سبق سے ناآشنا۔ اللہ کے احکام کی نافرمانی۔ لالچی لوگوں کا کردار جو اپنے بازوؤں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی نوبیاہتا بیوی سے ڈھیروں توقعات باندھ لیتے ہیں یہاں تک کہ اپنی بہنوں کی شادیوں اور ذاتی مکان کی خریداری کی ذمے داری اس معصوم لڑکی اور اس کے والدین کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں، وہ بے چارے اپنی اولاد کی خاطر قرض لے کر اس کی زندگی بچانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن زندگی پھر بھی نہیں بچتی۔
والدین کا اولین فرض اولاد کی تعلیم و تربیت ہے تاکہ برے وقت میں بیٹیاں اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں، اپنی بیٹیوں کی حفاظت کے لیے طلاق یا خلع دلانا زیادہ اہم ہوتا ہے ورنہ ایک مطالبہ پورا کرنے کے بعد ساری عمر مطالبات کی زد میں رہ کر زندگی بسر کرنی پڑتی ہے اور انجام عبرت ناک ہوتا ہے۔ بیٹیاں، بیٹوں سے کہیں زیادہ مخلص اور تابعدار ہوتی ہیں اپنے والدین کی خدمت ساری زندگی کرتی ہیں، لہٰذا ان کی زندگیوں کے فیصلے کرتے وقت تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ کہ انھیں بوجھ سمجھ کر کسی کے بھی پلے باندھ دیا جائے۔ یہ خودغرضی ہے انصاف نہیں۔ حدیث پاک کے مطابق لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہرگز نہ کیا جائے، اس کی اجازت ہر حال میں ضروری ہے۔
بڑھتی ہوئی یاسیت امیدوں کے چراغوں کو گل کر دیتی ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین، بہن، بھائی، دوست، احباب برے حالات میں اس کا سہارا بنیں اور جہاں سے وہ ایک بار روتی، سسکتی ہوئی آئی ہے اس گھر میں دوبارہ بھیجنے کی غلطی کرنا اس پر موت کو مسلط کرنا ہے۔