خیال رکھیے
علامہ اقبال نے مسلمان کی تعریف اس طرح کی ہے۔ اور مسلمان بھی نام کا نہیں بلکہ مومنانہ صفات سے مالا مال ہو۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن!گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروتیہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومنقاری نظر آتا ہے، حقیقت میں قرآن
لیکن آج کے حالات اور آج کا مسلمان علامہ کی تعلیمات کی مکمل نفی کرتا ہے، اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ دین اسلام کے کیا تقاضے ہیں، مومن کسے کہتے ہیں صدق و کذب کی تفریق اور اس کی معنویت سے وہ لاتعلق ہے۔ وہ جاننا نہیں چاہتا، علم حاصل کرنے کا خواہش مند نہیں، غیرت اسلامی اور حب الوطنی کے سبق کو اس نے فراموش کردیا ہے۔
شہر ملتان جسے صوفیا کرام کا شہر کہا جاتا ہے اس شہر میں ایک مقدس محفل میں ایک لڑکی جو سفید لباس میں ملبوس تھی اسے اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا، لوگ اس حسینہ کی تصویریں بنا رہے تھے۔ گویا ایک میلے کا سماں تھا، جوکہ دینی محفل کے تقدس کی پامالی کے مترادف ہے، اس طرزعمل کو اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجودمری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمودکر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
آپؐ کی پیدائش اور بچپن غرض پوری زندگی پر غور کریں تو کوئی آپؐ کا ثانی نہیں تھا اور نہ ہو گا، آپؐ کی ولادت باسعادت کے موقع پر آپؐ کی والدہ، ماجدہ کے گھر سے لے کر شام تک نور پھیلا ہوا تھا، ایران تک نور اپنا جلوہ دکھا رہا تھا، آپؐ جب بچپن میں کھیلا کرتے تھے تو چاند نیچے کی طرف آنے لگتا اور جب لوگ اس حسین منظر کو دیکھتے تو معلوم ہوتا جیسے چاند نبی پاکؐ کی بلائیں لے رہا ہے، آپؐ کے حسن و جمال پر قربان ہو رہا ہے، آپؐ جب باہر نکلتے تو ایک بادل کا ٹکڑا آپؐ پر سایہ فگن رہتا، آپؐ کو دھوپ سے بچاتا، یہ تھی میرے نبیؐ کی شان مبارک، آپؐ کی ذات اقدس پوری دنیا کے لیے بے مثال نمونہ تھی۔
پیارے نبیؐ کی سیرت پاک سے مسلمان ہی متاثر نہیں تھے بلکہ عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور مشرکوں و سیکولر ذہن رکھنے والوں نے آپؐ کی حیات طیبہ پر 1500 سے زائد کتابیں لکھیں اور یہ مختلف زبانوں میں، فرانسیسی، ڈچ، انگلش، سنسکرت اور رشین غرض دنیا کی بے شمار زبانوں میں آپؐ کے اوصاف بیان کیے گئے، آپؐ کی مبارک زندگی کا مورخین نے بذریعہ احاطہ کیا۔
آپؐ کی زندگی میں آپؐ کی سیرت پاک پر قصائد اور نعتیں لکھی گئیں، قصیدہ بردہ شریف امام بوصیریؒنے لکھا، فالج کی حالت میں آپؐ نے اپنی چادر مبارک آپؒ کے جسم مبارک پر ڈال دی۔ انھیں شفاء کاملہ نصیب ہوئی، اور تا قیامت آپؐ کی تعریف و توصیف ہوتی رہے گی اللہ نے قرآن میں خود فرما دیا ہے اور "ہم نے آپؐ کے ذکر کو بلند کردیا۔" مسلمان تو مسلمان، ہندو شعرا نے بھی آپؐ کی ذات مبارکہ سے متاثر ہو کر نعت اور مرثیے لکھے۔ ایک ہندو شاعر شباب للت نے کس قدر عقیدت اور محبت کے ساتھ آپؐ کی مدح سرائی کی ہے، توجہ فرمائیے۔
حاصل نہ ہوا گو مجھے دیدار محمددیتا ہے مجھے روشنی کردار محمد
ہر آیت قرآن طہارت کا خزینہاحکام ہیں یزداں کے بہ گفتار محمدؐ
اے خاکِ مدینہ تجھے آنکھوں سے لگا لوں دامن ہے تیرا مطلع انوار محمدؐ
آپؐ اپنی امت کے لیے دعا فرماتے ہیں "رب ھب لی امتی" اے اللہ میری امت کو بخش دے، لیکن امت اپنے ہی مذہب کا مذاق اڑا رہی ہے، امربالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل کرنے کے بجائے بدعتوں کو اپنا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر آیت نازل فرمائی۔ ترجمہ: آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے مذہب اسلام کو پسند فرمایا ہے۔"
رسول پاکؐ نے خطبۂ حجۃالوداع کے دن ارشاد فرمایا۔"تمہارا مال، تمہاری عزت و آبرو دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، لوگو! اسلام کے رشتے نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ہے، تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے، عورتوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرو۔" لیکن ایمان کی کمزوری نے انسانیت کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے، اس کی وجہ قرآن پاک جوکہ ضابطہ حیات ہے زندگی گزارنے کے تمام اصول بتائے گئے ہیں۔ اس سے لاتعلقی نے انسانیت سے اس کی انسانیت چھین لی ہے۔