چیدہ چیدہ
گزشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی کی سڑکیں زیر آب آگئیں، ہر طرف پانی ہی پانی گاڑیوں کا گزرنا اور پیدل چلنا مشکل ہو گیا، کراچی والوں کی زندگی میں مشکلات کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ حکومت عوام سے مخلص نہیں ہے، یہی پانی جو ضایع ہوا اور مٹی، پتھروں میں ضم ہوتا ہوا پانی دیکھ کر اس بات کا افسوس کرنا ہر انسان کا حق بنتا ہے کہ ایک طرف پانی باقاعدگی اور دھڑلے کے ساتھ فروخت کیا جا رہا ہے اور وہ بھی مہنگے داموں میں، چند سال قبل جو پانی کا ٹینکر ڈھائی ہزار یا تین ہزار تک فروخت ہوتا تھا، وہی ٹینکر اب پانچ ہزار سے سات ہزار تک بکتا ہے اور طرہ امتیاز یہ کہ واٹر بورڈ کا بل بھی ہر ماہ آتا ہے یہ تو وہی بات ہوئی "آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام" ویسے بھی آج کل آم کا موسم ہے ہر ٹھیلے پر آم اپنی بہار دکھا رہے ہیں، کھانے اور کھلانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
دو ہفتے ہی گزرے ہوں گے جب پھلوں کا بادشاہ "آم" چین بھیجا گیا تھا، آم کی خوشبو نے چینیوں کو مسحور کردیا، ورنہ وہ بے چارے تو کیڑے مکوڑے وہ بھی گھناؤنے اور زہریلے شوق سے کھایا کرتے ہیں جس کے عوض "کورونا" وائرس وجود میں آیا، اب یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے "کووڈ19" کے حوالے سے تو بہت سی کہانیوں کی تشہیر ہوئی ہے۔ دو سال زندہ رہنے والا قصہ بھی بہت عام ہوا۔
آپ یہ ہرگز نہ سمجھیے کہ ہم اپنے موضوع بیان سے ہٹ گئے ہیں چونکہ چیدہ چیدہ موضوعات پرگفتگو کرنا اہم ہو گیا ہے کہ حالات ہی ایسے ہیں۔ پانی کا کاروبار کرنے والے چھپ کر یہ کام نہیں کرتے ہیں بلکہ ہر محلے اور علاقے میں ٹینکر دندناتے پھرتے ہیں، اب یہ اور بات ہے کہ پانی ہر شخص خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے جس بے چارے شخص کی تنخواہ ہی قلیل ہو اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار مندا چل رہا ہو، ان حالات میں افلاس کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ پانی کس طرح خرید سکتے ہیں؟
کاش سندھ حکومت ان لوگوں کے حالات پر غورکرتی اور ان کے علاقوں میں میٹھا پانی نہیں کھارے پانی کا ہی انتظام کردیتی، ماضی کی طرح جگہ جگہ برمے اور ہینڈ پمپ کا انتظام کرسکتی تھی، ویسے بھی اس شہر سے جس سے ہر شخص نے خوب خوب فائدہ اٹھایا، اور ساتھ میں منی پاکستان کو گاؤں اور دیہات میں بدل دیا گیا، گاؤں کے حالات اس سے بھی بدتر ہیں، کچھ دیہی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کے مکین گٹر کا پانی استعمال کرتے ہیں، مگے اور ڈویوں سے پانی بالٹیوں میں بھرتے ہیں اور پھر وہیں بیٹھ کر کپڑے دھوتے ہیں اور نہاتے ہیں اور گھر کے استعمال کے لیے پانی ساتھ لے جاتے ہیں۔
ایسی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں، "مگر شرم تم کو نہیں آتی" کراچی کے مکین بھی پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں وہ بھی دور دور سے پانی بھر کر لانے پر مجبور ہیں۔
طہارت ایمان کا حصہ ہے ایک مسلمان کے لیے تو یہ دور، دورِ ابتلا ہے کہ جہاں دین بھی گیا اور ایمان بھی۔ اور حیا بھی گئی، گویا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ دیدوں کا پانی مر چکا ہے اور قلندروں کے مزار پر حاضری تو دیتے ہیں مگر قلندر کی تعلیم سے ناآشنا ہیں اور نہ ہی انھیں علامہ اقبال متاثر کرتے ہیں جو خودی کا بھی درس دیتے ہیں اور اس "احساسِ انا" کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے تو من تیرا نہ تن
لیکن جناب! یہاں کس کو پرواہ ہے ایمان کی، حیا کی، عزت کی اور دولت کے سامنے تو تن من کی کیا پرواہ، جب " انا " ہی نہیں جو عزت نفس کا درس دیتی ہے اور پستیوں سے نکال کر بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے "انا" تو مومن کی معراج ہے۔ لیکن ادھر تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے اپنے حصے کی رقم کا تو مطالبہ کر رہے ہیں جو اربوں کی شکل میں ہے اور ہر آنے والے بجٹ کے موقع پر وصول کرتے ہیں لیکن یہ رقم ترقیاتی کاموں کے بجائے نسل در نسل تعیشات زندگی اور اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بینکوں میں محفوظ کردی جاتی ہے لیکن اب وہ بھی نہیں، چونکہ مختلف اور معمولی لوگوں کے اکاؤنٹ سے لاکھوں اورکروڑوں کی رقم کا جب انکشاف ہوا تو پھر پردہ گر جاتا ہے، مطلب یہ کہ اب یہ کھیل ختم اور احتیاط لازم۔ ایسی سوچ سے تو زندگی میں کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا، کہ وقت ہی نہیں ملا۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
علامہ تو یہ بھی بتا گئے ہیں بلکہ سمجھا گئے ہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن
اپنا بننے اور اپنے آپ کو آگ اور قبرکی ہولناکی سے بچانے کے لیے خود کو بدلنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے تب کہیں ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ لیکن اقتدار کے بھوکوں اور دولت کے پجاریوں کو نہ دانشور بننے کی ضرورت ہے اور نہ دیدہ ور اور نہ ہی ایسی درسگاہوں کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، جہاں ٹیپو سلطان، محمد بن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے صاحب ایمان اور جذبہ شہادت سے سرشار شخصیات سامنے آسکیں، لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ اپنے وطن سے محبت نہیں اس کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں تو پھر ایسے غدار، دشمنان پاکستان ہی سامنے آئیں گے جو پاکستان کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، جس تھالی میں کھاتے ہیں اس میں چھید کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ غداروں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا بلکہ تاریخ کے اوراق ان کی تخریب کاری اور اپنوں سے بے وفائی کرنے کی وجہ سے سیاہ ہوچکے ہیں، ان کی زندگی اور موت دونوں ہی عبرت ناک ہے۔
ذرا ان لوگوں پر نظر ڈالیں اور ان کی وطن پرستی جذبہ ایمانی اور حب الوطنی پر قربان جائیے جو جنیوا کیمپوں اور مقبوضہ کشمیر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نام لیوا ہیں، ہزاروں، لاکھوں لوگ ہندوستان کی حکومت اور فوج کی ظالمانہ روش کی وجہ سے معذورکردیے گئے اور بے شمار نوجوانوں کو دہشت گردی کی نذرکردیا گیا، ہزاروں معصوم، باحیا، باعفت اور پاکیزہ لڑکیوں کی عزت کا جنازہ سرعام نکالا گیا، اور دو سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے جب سے کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کردیا ان کی جائیداد کو ہتھیا لیا اور سیکڑوں ہندوؤں کو لا کر بسا دیا گیا۔
سابقہ مشرقی پاکستان کے محصورین بھی پاکستان کا دم بھر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا فرض ہے کہ جس طرح وہ کشمیریوں کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں اللہ انھیں کامیاب کرے اور ہمارے کشمیری بھائی آزاد ہوجائیں، کشمیر آزاد ہو جائے بالکل اسی طرح جنیوا کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والوں کو ان کے اپنے وطن پاکستان بلانے کے لیے اقدامات کریں، پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے وہ اس پاک سرزمین پر کیوں زندگی گزار رہے ہیں؟ ہندوستان چلے جائیں، پھر پتا چل جائے کہ آزادی کسے کہتے ہیں؟
گزرے سالوں میں بھی تجاوزات کے نام پر ان لوگوں کے گھروں کو مسمارکردیا گیا تھا، جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، پہلے رہنے کی جگہ فراہم کرنا ضروری ہے پھر بے دخل کیا جائے تو کم از کم معصوم بچے، عورتیں روڈ پر زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں اب الٰہ دین پارک اور پویلین اینڈ کلب کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا ہے۔ دکاندار لاعلم ہیں ان کا کہنا ہے کہ بغیر نوٹس کے آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ کم ازکم ایک ماہ پہلے نوٹس اور کم ازکم ہفتہ دو ہفتہ تک ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے آگاہ کرے۔ ٹی وی پرکام کی باتیں دکھائی جائیں جن سے لوگ استفادہ کریں حکومت اور چینلز مالکان کو دعائیں دیں۔