1.  Home/
  2. Nasim Anjum/
  3. Awam Puchte Hain

Awam Puchte Hain

عوام پوچھتے ہیں

جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب! عوام کو مہنگائی، معاشی بدحالی، قتل و غارت اور عدم تحفظ کے احساس نے سراپا سوال بنا دیا ہے، لوگ ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں، وہ گزشتہ دو دہائیوں سے ضروریات زندگی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے زندگی کا چین گنوا بیٹھے تھے۔

انھوں نے پی ٹی آئی پر مکمل اعتماد کرکے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ آنکھیں بند کرکے ووٹ دیا تھا، خواتین، بچے، بوڑھے، نوجوان سب ہی خوش تھے، مسرور تھے نو عمر طالب علموں، بے روزگار لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا کہ اب کوٹہ سسٹم ختم ہوگا اور ان کا مستقبل کامیابی کی طرف رواں دواں ہو جائے گا، مساوی حقوق کی تقسیم ہوگی لیکن سنہرے خوابوں کی تعبیر ڈراؤنی نکلی، لیکن اس کے باوجود کسی کو بھی آپ کی نیت پر ذرہ برابر شبہ نہیں ہے۔

آپ کی مجبوریاں، قرضوں کا بوجھ اور مسائل و مشکلات میں گھرا ہوا ملک اپنی جگہ۔ ستم رسیدہ اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے سر چھپانے کے لیے چھت اور پیٹ کا ایندھن تو لازم ہے۔ اس کے بغیر زندگی تو میر کے اس شعر کی سی ہے:

شام سے ہی بجھا سا رہتا ہے

دل ہوا ہے کوئی چراغ مفلس کا

یہاں تو شام اور صبح کی بات ہی نہیں ہے بلکہ زیست کا چراغ روز بجھتا ہے، ہر دن بلاناغہ خودکشیوں کی خبر سننے کو ملتی ہے کبھی باپ اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کو زہر دے کر ہمیشہ کے لیے سلا دیتا ہے تو کبھی ماں مالی مسائل اور قرضوں کے بوجھ تلے دب کر زندگی اور موت کی تفریق کو بھلا بیٹھتی ہے اور اپنے بچوں سمیت خود بھی موت کی وادی میں اتر جاتی ہے۔ تو دوسری طرف درندوں کو کھلی آزادی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جس جگہ چاہیں اپنے شکار کو بھنبھوڑ کر رکھ دیں۔ یہ کیسا ستم ہے، کیسی بے حیائی ہے اور کیسا انصاف ہے جو مجرم کو ظلم ثابت ہونے پر سربازار سولی پر چڑھانے کے احکامات جاری نہیں کرتا ہے۔

عوام پوچھتے ہیں کہ جب موٹروے پر ایک بے بس و مجبور عورت کے دو افراد نے اس کی حیا کے پرخچے اڑائے اس کے مستقبل کو داغ دار کردیا۔ ایک گھرانہ، ایک خاندان برباد ہو گیا اس کے بچوں نے جانوروں کو حملہ آور ہوتے دیکھا، ماں کو منتیں اور فریاد کرتے ہوئے پایا۔ ایک سنسان جگہ، گہری تاریکی اور جنگل بے قصور عورت کی چیخیں۔ ارباب اختیار، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں اگر اللہ نہ کرے ان کے خاندان کے ساتھ کوئی گھناؤنا کھیل کھیل جاتا تو دل پھٹ کر لہو لہو نہ ہو جاتا؟

پھر ایسے سفاک درندہ صفت انسانوں کو اب تک سزا کیوں نہیں ہوئی؟ اور اب نور مقدم کا بہیمانہ قتل سب کے سامنے ظاہر جعفر نے اسے کھلونا سمجھ کر توڑ دیا، کس اذیت سے وہ تنہا، نہتی، بے بس و مجبور لڑکی گزری ہوگی، اس اذیت کو اس کے والدین یا درد دل رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ تمام ثبوت موجود ہیں، میڈیکل رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں گواہوں کے بیانات بلکہ وہ خود زیر حراست ہیں۔ آخر مجرموں کو اس قدر سنبھال کر کیوں رکھا جاتا ہے۔

چہرہ ڈھانپ کر جسم کو چادر میں لپیٹ کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل قریب میں ان کی بچت ہو جائے لیکن خواتین کی تصاویر کو ٹی وی چینلز اور میڈیا پر بڑے فخر سے شیئر کیا جاتا ہے۔ سالہا سال سے یہی نظام چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی اس کو نہیں بدلا۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے ملک میں مدینے کا نظام لانا چاہتے تھے، فاروق اعظم حضرت عمرؓ کے زمانہ عدل کے نفاذ کے خواہش مند تھے اور ببانگ دہل اعلان کیا کرتے تھے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت کی مثال نہیں ملتی، جس وقت حضرت عمرؓ نے مسند خلافت پر قدم رکھا اس وقت کوئی بڑا نظام حکومت نہ تھا۔

آپؓ نے اپنے دس سالہ عہد حکومت میں ایسا نظام قائم کردیا کہ کوئی بھوکا نہ سو سکا اور نہ ہی عدل و انصاف کو اتنا مشکل بنایا کہ غریب کی پہنچ نہ ہوسکے۔ تمام مفتوحہ ممالک کو آٹھ صوبوں پر تقسیم کیا، ہر صوبے میں حاکم اعلیٰ، کلکٹر، افسر، پولیس، خزانچی اور قاضی مقرر کیے۔ حضرت عمرؓ کا یہ اصول تھا کہ ہر عامل کی تقرری کے وقت ایک دستاویز دیتے جس میں اس کے اختیارات کی تشریح ہوتی وہ جہاں مقرر ہو کر جاتا وہاں یہ پروانہ مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا جس میں اس کی حدود درج ہوتیں۔ اس سے آگے بڑھنے پر سزائیں مقرر کی گئی تھیں، تمام عمال کو حج کے موقع پر مکہ میں حاضری کا حکم تھا ان کی موجودگی میں اعلان عام کیا جاتا کہ جس شخص کو کسی بھی قسم کی شکایت ہو وہ بیان کرے۔

اگر کوئی عامل زیادتی کا مرتکب پایا جاتا تو حضرت عمرؓ مجمع عام میں سزا دیتے۔ اس طرح دوسروں کو عبرت ہوتی اور جرائم کا خاتمہ بھی عہد فاروقی میں عدل و انصاف کے اس شفاف طریقے نے سب کی عزت و آبرو، مال و متاع کو محفوظ کردیا، ہر شخص خوشحال اور چین کی دولت سے مالا مال تھا۔ شیر اور بکری آزادی کے ساتھ ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں ایک عورت نے چوری کی شکایت کی، آپؐ نے فرمایا اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی یہ جرم کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا۔ یہ تھی مدینہ کی ریاست، یہاں مجرم اور ملزم کے ساتھ یکساں سلوک ہے۔

کچھ دن مقدمہ چلتا ہے، تاریخیں پڑتی ہیں اسی دوران ضمانت ہو جاتی ہے اور دونوں طرح کے ملزمان و مجرمان چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اسی دوران وہ دوبارہ اور بار بار لوگوں کی عزت و مال پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انھیں کبھی رشوت تو کبھی اعلیٰ حکام کے حکم کے مطابق باعزت رہا کردیا جاتا ہے تو پھر عزت و اعتبار تو مجرم کو حاصل ہوا۔

بات یہ ہے جب حاکم وقت اور شہنشاہ عدل و انصاف ہی اپنے عہدے اور حلف کی پاسداری نہ کرے تو پھر جنگل کا قانون ہی چلے گا۔ دوسرے ملکوں میں امن و امان کیوں ہے؟ اس کی وجہ وہاں اسلامی نظام رائج ہے۔ سوائے مادر پدر آزادی کے انصاف کا بول بالا اور عوام کی شکایتوں کو دور کرنے کے لیے نظم و نسق، دیانت داری کو فروغ حاصل ہے جب کہ وہ کلمہ گو نہیں ہیں۔

ہمارے ملک کے حکمران اور مقتدر حضرات دوسرے ملکوں کا دورہ کرتے ہیں تو کیا وہ وہاں سے سبق حاصل نہیں کرسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جب اسلام اور قرآنی تعلیم سے وہ کچھ حاصل نہیں کرسکے تو پھر کسی غیر سے سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

یہ لوگ تو سوائے عمران خان اور ان کی حکومت کے ارکان کے علاوہ سیر و تفریح، عیش و عشرت کے لیے جاتے ہیں، وہاں ملک کی لوٹی ہوئی دولت سے جائیدادیں بناتے ہیں، بینکوں میں پیسہ جمع کرتے ہیں اور پل بھر کی زندگی کو انجوائے کرتے ہیں یہ سوچے بنا کہ زندگی کا پہیہ بڑا تیز رفتار ہے، اور یہ دنیا مکافات عمل ہے، کرنی کی سزا و جزا مل کر رہتی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔ پیسہ، دولت، عزت سے زیادہ نہیں ہوتا ہے لیکن یہ بات سمجھنے والوں کے لیے ہے، ہر وہ شخص وقتی فائدے اور دولت کی چمک کے آگے اپنا انجام بھول جاتا ہے، جسے اللہ کا خوف نہ ہو، جسے حوض کوثر پر رسول پاکؐ کے مبارک و مطاہر ہاتھوں سے پانی پینے کی طلب نہ ہو۔

عوام یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آخر کراچی جیسے بڑے شہر میں جس کی آبادی کروڑوں سے زیادہ تجاوز کرگئی ہے اس منی پاکستان میں سہولتیں کس طرح اور کب آئیں گی؟ ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی، لوڈ شیڈنگ کے مسائل جوں کے توں ہیں، بھلا ہو وفاق کا جس نے کچھ کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ لیکن عوام پھر بھی بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس رہی ہے۔ خدارا، مہنگائی کو کم کیجیے، سابق صدر مشرف کے زمانے کی طرح چیزوں کو اسی طرح سستا کریں، پھر عوام کچھ نہیں پوچھیں گے، کوئی سوال نہیں کرے گا۔

Check Also

Agle Janam Mohe Bitiya Na Keejo

By Amer Abbas