اللہ کی ناراضی کا سبب
کووڈ 19 کی کہانی کا جنم گھر ہمارا پڑوسی ملک چین تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس کہانی کے پَر نکل آئے اور اس نے ایسی اڑان بھری کہ پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ سائنس دان، ڈاکٹرز، جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین غرض ہر وہ شخص جو اپنی بڑائی کا دعویٰ کرتا تھا اس ننھے سے جرثومے کے سامنے بے بس ہو گیا اورکہانی کو خوب پروان چڑھنے کا موقعہ ملا۔
امریکا، برطانیہ، اٹلی کے علاوہ بھارت میں بھی اس نے پنجے گاڑ لیے ہیں اور ہر نئی اور خطرناک صورتوں میں سامنے آ کر لوگوں کی ہلاکت کا سبب بن رہا ہے، ہر طرف موت کا نوحہ گونج رہا ہے، شمشان گھاٹ میں لاشوں کے انبار لگ گئے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ کل جو اپنوں پر جان دیتے تھے آج ان سے دور بھاگ رہے ہیں، ان کے مردہ جسم دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لہٰذا یہ فریضہ بھی حکومت کی طرف سے انجام دیا جا رہا ہے۔ اس وبا کی لپیٹ میں بچے، بوڑھے جوان سب ہی آگئے ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ بھارت میں تو لاشوں کا بازار سج گیا ہے۔ ہر طرف مردہ جسم اور جو زندہ ہیں وہ بھی اس خونی کہانی کا کردار بننے جا رہے ہیں۔ جن مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے اور ان کا کھانے پینے کی چیز کو ہاتھ لگنے ہی سے گویا ہر شے پلید ہو جاتی تھی، جن نمازیوں پر وہ بلاوجہ تشدد کرتے تھے آج اسی تبلیغی جماعت کے بزرگ علما بدلے میں اپنا پلازمہ دے رہے ہیں۔
مسلمان کی یہ شان ہوتی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کفار سے حسن سلوک کے علاوہ دوستی کرنے کا حکم نہیں دیا ہے، چونکہ یہ برے وقت میں ساتھ نہیں دیتے ہیں، مسلمانوں کو تنہا کرکے تشدد پسند جماعت کے ساتھ مل جاتے ہیں اور نفرت کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں دہلی میں ایسے ہی حالات رہے، گجرات کا واقعہ بھی بھلائے نہیں بھولتا۔ بھارت کے بگڑتے حالات کو دیکھ کر ہمارے ملک کے ممتاز سماجی کارکن فیصل ایدھی نے اپنی خدمات پیش کردی ہیں، ان لوگوں کی پاکستان سے نفرت اور دشمنی کو بھلا کر پاکستان نے ہمیشہ اچھا سلوک اور انسانیت کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ پاکستان کے اس عمل کو امریکا اور برطانیہ بھی سراہتے ہیں۔ ابھی نندن کے واقعے کو طویل عرصہ نہیں گزرا ہے وہ پتھر مارتے ہیں اور ہم پھول برساتے ہیں۔
ماضی میں بھی مسلمان بادشاہوں کی رواداری غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں کے ساتھ ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ عدل و انصاف، مذہبی آزادی ہر طرح کی مراعات اور حقوق کی ادائیگی میں مسلم شہنشاہ ہمیشہ آگے رہے حتیٰ کہ ہندو عورتوں سے شادیاں بھی کیں، ان سے جو اولادیں ہوئیں انھیں شہزادے، شہزادیوں کا درجہ ملا۔ مسلمانوں کا ہندو رعایا کے ساتھ بہترین اور مثالی سلوک دیکھنے کے باوجود مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ اور قابل مذمت رہا ہے۔ ان پر ہر طرح کا ستم کیا گیا، ان کے گھروں کو آگ لگائی گئی ان کے مال و اسباب کے ساتھ پاک دامن بیبیوں کی عزت و ناموس پر حملہ کیا گیا، انھیں کھلی چھٹی تھی چونکہ وہ ظلم و بربریت حکومت کی ایما پر کر رہے تھے۔
کشمیریوں کی آزادی سلب کیے تقریباً دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے انھیں ان کے گھروں میں محصور کردیا گیا۔ کشمیری نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کرنے کے بعد خود بھی اس سے بڑھ کر قدرتی آفت کا شکار ہوگئے، یہ ان کی بد دعائیں تھیں جو مودی سرکار اور اس کی حکومت کو لگی ہیں۔ سدا وقت ایک سا رہتا نہیں اور ظلم کی سیاہ رات ایک دن اجالے میں ضرور بدلتی ہے۔ اللہ کشمیریوں کی قربانیوں کو کامیابی کا رنگ ضرور دے گا، اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔
پاکستان کے حالات کا جائزہ لینے سے قبل ہمیں تیس چالیس سال قبل کے زمانے میں قدم رکھنا ہوگا، وہ زمانہ علم و عمل کا زمانہ تھا، ہر طرف چین و سکون تھا، علمی خزانہ بنا کسی خرچ کے مفت میں بانٹا جا رہا تھا، نیلام گھر اور پروگرام "کسوٹی" کے ذریعے لوگ سیکھتے تھے علم و ادب کی چوپال ٹی وی پر مختلف پروگراموں کے ذریعے سجائی جاتی تھی۔ ڈرامے بھی اصلاح کا ذریعہ تھے ساتھ میں تعلیم بالغاں کے پروگرام نہ صرف یہ کہ دلچسپی کا باعث تھے بلکہ بزرگوں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ تھا۔
پھر وقت بدلا، حکومتیں بدلیں، بہت کچھ گنوایا، آدھا ملک ہی چلا گیا، قائد اعظم محمد علی جناح اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا، لیکن ان لوگوں نے جن کا ملک کی تعمیر میں کوئی حصہ نہ تھا اس پر قبضہ کرلیا، نفرتیں، تعصب، اقربا پروری اور ہوس زر نے تخریب کا کام کیا اور ملک کمزور ہوتا چلا گیا اور آج بھی اقتدار کی جنگ جاری ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے روشن خیالی کے نام پر میڈیا کو مکمل آزادی دے دی۔ مشرق اور مغرب کی عورت میں ایک لباس ہی تو تھا جو فرق کو واضح کرتا تھا، سو وہ بھی گیا۔ رہی سہی کسر اسمارٹ فون نے پوری کردی، سوشل میڈیا کی کشش نے ہر شخص کو ایک ذاتی فون خریدنے پر مجبورکردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج تقریباً ہر گھر میں جتنے افراد رہتے ہیں، اتنی ہی تعداد میں موبائل موجود ہیں اس معاملے میں گھر کے تمام افراد کو شخصی آزادی حاصل ہے۔ دن رات ویڈیوز دیکھنے، چیٹنگ کرنے میں بسر ہوتا ہے رات جاگنے کی وجہ سے صبح دیر سے اٹھا جاتا ہے۔ مساجد ویران ہوگئیں اور گھروں نے سینما ہال کی جگہ لے لی، ایک طرف موبائل ہے، دوسری طرف ٹی وی کے پروگرامز ہیں۔ والدین کی نافرمان اولاد نے گھر کو جہنم کا نقشہ بنا دیا ہے۔
بے شک انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب لاشوں کے پجاری آزاد تھے، دن رات لاشیں گرائی جاتی تھیں، کراچی کی سڑکیں خون میں نہا گئی تھیں، سیاستدانوں نے تباہی مچائی ہوئی تھی۔ حالات پھر پلٹے۔ حکمرانوں نے اپنی ذمے داریوں کو بالائے طاق رکھا اور دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہوگئے، تعلیمی نظام درہم برہم ہوگیا، طلبا چوری ڈکیتی میں مصروف ہوگئے، اغوا اور قتل کی وارداتوں میں خوب اضافہ ہوا، گلی کوچوں میں معصوم بچوں کی تشدد زدہ لاشیں ملنے لگیں۔ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی، عدل و انصاف کو بھی دولت کی تجوری میں قید کردیا گیا۔ سیکڑوں لوگوں کے قاتلوں کو رہا کیا جانے لگا۔
پھر کیا ہوا؟ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا، مسلمانوں سے خاص طور پر، کفار و نصاریٰ اور دوسرے غیر مسلموں کے لیے تو قیامت میں سوائے جہنم کے کچھ اور نہیں ہے۔ لیکن امت مسلمہ کی سرکشی، نافرمانی آج کورونا وائرس کی شکل میں ہمارے سروں پر مسلط ہے۔ پاکستان میں 201 ہلاکتیں ایک دن میں۔ یہی تو وقت ہے توبہ کرنے کا، نہ جانے کتنے لوگ لقمہ اجل بننے والے ہیں۔