اکبر الٰہ آبادی کا صد سالہ یوم وفات
قصبہ بارہ جوکہ الٰہ آباد سے بارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں لسان العصر سید اکبر حسین الٰہ آبادی کا جنم ہوا۔ تاریخ پیدائش کے حوالے سے مختلف آرا نظر آتی ہیں لیکن 1846 پر مفکرین کی رائے کے مطابق درست ہے۔
انھوں نے اپنے والد تفضل حسین سے ریاضی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد مشن اسکول میں داخلہ لے لیا لیکن 1857 کے ہنگاموں کی وجہ سے وہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے، البتہ گھر پر فارسی اور عربی کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مولوی محمد فاروق چڑیا کوٹی کے درس سے بھی استفادہ کیا اور اپنی محنت و قابلیت کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا میں ملازمت اختیار کر لی، اور بتدریج ترقی کے مراحل سے گزرتے ہوئے جج کے عہدے پر پہنچ گئے۔ ان کی شاندار کارکردگی کے باعث حکومت برطانیہ نے انھیں خان بہادر کے خطاب سے نوازا۔
اکبر الٰہ آبادی کا زمانہ انتشار اور افراتفری کا ہے یہ وہ دور تھا جب مشرقی قدریں دم توڑ رہی تھیں اور مغربی تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی اور قوم مغرب کے اثرات تیزی سے قبول کر رہی تھی انھوں نے ان حالات میں تلخ حقائق اور معاشرتی زوال کو اپنی شاعری کے ذریعے اجاگر کیا۔
اکبر الٰہ آبادی وہ واحد شاعر تھے جنھوں نے مغرب کی اندھی تقلید پر نکتہ چینی کرتے ہوئے نوجوانوں کو راہ ہدایت پر چلنے کا درس طنز و مزاح کے پیرائے میں دیا چونکہ نوجوان طبقہ مغرب کے طور طریقوں کو برتر اور اپنی ثقافت و تہذیب کو کمتر سمجھنے لگا تھا۔ انھی حالات کے تناظر میں اکبر یہ کہنے پر مجبور ہوئے۔
کٹے ملت سے جو دیکھے گی دنیا ان کو عبرت سے
گرے پتے ہیں یہ بس سبز اپنی رطوبت سے
خوشامد کرتے ہیں غیروں کی اور آپس میں لڑتے ہیں
یوں ہی بربادیاں آتی ہیں، یوں ہی گھر بگڑتے ہیں
اکبر کے عہد کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر تبسم کاشمیری نے لکھا ہے کہ "سرسید احمد خان کی تحریک نے اپنے عہد کا جو ذہن تیار کیا تھا اس میں مادیت، عقلیت، اجتماعیت اور حقائق نگاری کے عناصر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اس ذہنی تحریک سے انتشار کی فضا پیدا ہو رہی تھی۔
انتشار کی اس صورت میں ایک طرف مشرق کی پرانی اقدار تھیں اور دوسری طرف مغرب کا سائنٹیفک انداز نظر اور مادی ترقی کا رجحان تھا، سرسید مغرب سے متاثر تھے اور ایک ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جو تجربے اور استدلال کے اصولوں پر قائم ہو، سرسید idea of Progress پر یقین رکھتے تھے اور اکبر ایک روایتی معاشرے کے روایتی تہذیبی نظام سے چمٹا رہنا پسند کرتے تھے وہ زندگی کے نئے رجحانات کو رد کرتے تھے ان کے سامنے زندگی کا نیا دستور مرتب ہو رہا تھا، جس میں مشرقی قدریں ٹوٹ رہی تھیں، نئی تعلیم سوچنے کا نیا انداز مہیا کر رہی تھی صدیوں سے ٹھہراؤ اور جمود کی کیفیت ختم ہو رہی تھی۔
ساتھ ہی ہندوستان جیسے زرعی ملک میں مشینی عہد نے آنکھیں کھولنی شروع کی تھیں، زمین پر ریلیں دوڑ رہی تھیں، ٹیلی فون، تار اور بعض دوسری ایجادات نے مغرب کی حیرت انگیز ترقی کا احساس دلایا تھا۔ اکبر کی علامتیں اسی ذہنی پس منظر سے بنتی ہیں۔
اکبر طرزِ احساس کی کسی نئی صورت کو اپنانے کے لیے تیار نہ تھے ان کا طرزِ احساس مشرقی سانچوں سے بنتا ہے مگر اکبر کے تصورات محض رجعت پسندانہ نہیں ہیں ان کے نظریے میں صداقت تھی، وہ مغرب کی کوئی ایسی روایت اپنانے کے لیے تیار نہ تھے جو مشرق کی روایات سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔"
اکبر الٰہ آبادی کی غزلیں ہوں، نظمیں ہوں یا قطعات ان کی شاعری کے باطن میں اصلاح معاشرہ کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے ہر شعر میں معاشرتی برائیوں پر گہری ضرب نظر آتی ہے۔ تبدیلی سماج اور لوگوں کے بدلتے ہوئے اذہان کی عکاسی ان کی شاعری میں جابجا نمایاں ہے۔
نازکیا اس پہ جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
سَر میں سودا ہو آخرت کا ہو یہی مقصود ہے
مغربی ٹوپی پہن یا مشرقی دستار باندھ
انگریزوں نے اپنی حکومت کے استحکام کے لیے وہ اقدامات کیے جو کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور ترقی کے لیے لازمی قرار دیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نہ صرف یہ کہ تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی بلکہ یورپ سے تحصیل علم کے لیے اساتذہ کو بھی بلایا، اس طرح انگریزی تعلیم اور ثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔
نصاب بدلا، ذہن بدلا اور معاشرت بدلی۔ اکبر الٰہ آبادی ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اسلامی تعلیم ان کی گھٹی میں شامل تھی وہ کیونکر یہ بات برداشت کرتے کہ ان کی قوم اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھلا کر ایک ایسے راستے پر گامزن ہو جو ان سے ان کی دینی غیرت کو چھین کر اسے پاش پاش کردے ان کے رہن سہن اور دل و دماغ میں مغربی رنگ شامل ہو رہا تھا اور وہ یہ زہر ہے جو اپنا اثر آہستہ آہستہ دکھاتا ہے اور انسان جسمانی نہیں بلکہ روحانی طور پر اپنی موت آپ مر جاتا ہے، لہٰذا اس احساس نے انھیں ذہنی کرب میں مبتلا کردیا اور ان کے اسی دکھ نے شاعری میں اپنی جگہ بنالی۔
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا فقط سرکاری ہے
اکبر کی شاعری ان کے داخلی و خارجی حالات اور وارداتِ قلبی کی مظہر ہے، انھوں نے اپنے زمانے کی شکست و ریخت اور تغیرات دوراں کو اپنی شاعری کا اسیر کردیا ہے۔ انھیں لوگوں کے بدلتے رویے اور اپنی ناقدری کا بھی احساس ہے۔ ہر زمانے میں خوشہ چیں اور بدخواہ بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ انھوں نے اپنی کج روی کو اپنے ہاتھوں پروان چڑھایا ہے، اکبر الٰہ آبادی نے عیب جوئی کرنے والوں کو اس طرح جواب دیا ہے:
اس بحث میں اکبرکی ہنوز آہ وہی ہے
ہم کیوں نہ رہے وہ، اگر اللہ وہی ہے
نا فہم کوکچھ قدر نہیں میرے سخن کی
ارباب کے معنی میں مگر واہ وہی ہے
جن کے دل میں ملک و ملت کا غم ہوتا ہے اور ان کے اصلاح معاشرہ کی کوششوں کے باوجود سماج اور اس کے رہنے والوں میں ذرہ برابر تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے تب حضرت ناصح کے دل و دماغ میں یاسیت جنم لیتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی بھی اپنے ہم وطنوں کے طرز زیست پر افسردہ ہیں۔
نہ دلوں میں اب ہے وہ ذوقِ حق نہ دعا کا یاد ہے وہ سبق
نہ وہ آہ ہے نہ وہ شوق ہے نہ وہ تیر ہے نہ کمان ہے
نہ کمیٹیوں کی ترنگ اسے نہ ہوائے حملہ و جنگ اسے
کرے کیا اب اکبر مضمحل نہ وہ طفل ہے نہ جوان ہے
اکبر کی ظرافت کے بارے میں آل احمد سرور نے دو باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے، اول یہ کہ وہ انتہا پسندی اور تقلید پر طنز کرتے ہیں دوسرے وہ اپنے دور میں مغرب کی نقالی اور اس کی وجہ سے نئی نسل کی اپنے ماضی سے یکسر بے گانگی کا پردہ فاش کرتے ہیں۔"
اس میں کوئی شک نہیں انھوں نے اردو شاعری کو ایک نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ اور حالات کی نزاکت کو دردمندی کے ساتھ سمجھا ہے۔ اور اسے طنز و ظرافت کی چاشنی میں لپیٹ کر اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں