آدھی دنیا اور روشن روشن
آج میں نے کئی ان کتابوں پر لکھنے کا ارادہ کیا ہے جو عرصہ دراز سے میرے شیلف اور دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔"روشن روشن" افسانوں کا مجموعہ ہے اور "صلائے عام ہے" جس میں مصنف کی کتابوں پر اہل علم و دانش کے لکھے ہوئے مضامین شامل ہیں، ان دونوں کتابوں کے مصنف نجیب عمر ہیں۔
دو مزیدکتابیں اور جنھیں میں احاطہ تحریر میں لانا چاہتی ہوں ان کے نام ہیں "دکھ پیغمبری کے " اور "آدھی دنیا" ان کتابوں کی قلم کار ملکہ افروز روہیلہ ہیں، جس طرح نجیب عمر اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کی بنا پر اپنی مخصوص شہرت رکھتے ہیں بالکل اسی طرح ملکہ افروز روحیلہ کی بھی اپنی تحریروں کے حوالے سے ایک علیحدہ شناخت ہے۔
نجیب عمر کی 14 کتابیں مختلف موضوعات کے حوالے سے شایع ہو چکی ہیں ان کی کتاب "سرزمین مہر و ماہ" کو دوسری کتابوں کی نسبت فضیلت حاصل ہے، اس کی وجہ اس کتاب میں مکہ مکرمہ میں 27 سالہ قیام کی روداد درج ہے اس کے ساتھ عمرہ و حج کی ادائیگی کا ذکر اور مکمل معلومات بہت عقیدت و محبت کے ساتھ نظر آتی ہے، یقینا ایک مسلمان کی خوش نصیبی ہے کہ اسے طواف کعبہ اور روضۂ اقدس کا دیدار نصیب ہو۔
مذکورہ کتاب "روشن روشن" سے قبل ان کے تین افسانوی مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ بعنوان نیم وا دریچہ، حصار نظراور کرنوں کا رقص، چوتھا مجموعہ "روشن روشن" جسے میں ضابطہ تحریر میں لانے کی کوشش رک رہی ہوں۔ نجیب عمر کا فن برابر ترقی کر رہا ہے، نئے نئے موضوعات کی تلاش انھیں بے چین و بے قرار رکھتی ہے اور وہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ جو بھی افسانہ لکھوں اس میں انفرادیت شامل ہو، وہ اپنی اس کوشش میں سو فیصد کامیاب ہیں، مذکورہ کتاب کے افسانے عام موضوعات سے ہٹ کر ہیں۔
انھوں نے اپنے کچھ افسانوں میں مافوق الفطرت کرداروں کو شامل کیا ہے جیسے افسانہ "شطرنج"، "داستان رنگ و بو" شطرنج ایک بہترین اور دلچسپ افسانہ ہے جس طرح انسان اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتا، یہاں بھی اللہ کی مخلوق جن اپنی بیٹی کے لیے جوکہ صاحب خانہ کی دوسری بیوی نائلہ ہے اپنے کرشماتی عمل سے ایسی بازی پلٹتے ہیں کہ مقبوضہ املاک واپس مل جاتی ہے۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ جنات کو اللہ نے ایسی قدرت دی ہے کہ تمام وہ امور انجام دے لیتے ہیں جو لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہوتے ہیں۔
جنات کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ پوری سورۃ اسی مخلوق کے حوالے سے "سورہ جن" کے نام سے ہے رسول پاکؐ جنات کو مسجد جن میں تعلیم دیا کرتے تھے اور کافر جن اسلام قبول کرلیتے تھے۔"داستان رنگ و بو" میں بھی جناتی عمل دخل اور طلسماتی کیفیات نمایاں ہے۔
نفسیاتی مسائل بھی اکثر اوقات ایسے حالات سے دو چار کرتے ہیں جن کا حقیقتاً دور دور تک ذکر نہیں ہوتا ہے "دیکھو میری نگاہ سے" یہ افسانہ فراعئنہ مصر کی یاد دلاتا ہے جو لاشوں کو حنوط کرکے محفوظ کرلیتے تھے یہ بادشاہوں کا عمل تھا۔ کتاب میں شامل تمام افسانے معاشرتی حقائق اور سماج کی ناہمواری اور انسانوں کی خوبیوں اور خامیوں کا احاطہ کرتے ہیں مصنف کی تحریر میں سادگی اور روانی بدرجہ اتم موجود ہے۔
"روشن روشن" کا سرورق قابل دیدہے اور قاری کی توجہ بے ساختہ اس کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ ان کی دوسری کتاب "صلائے عام" ہے اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ مبصرین و ناقدین کے وہ مضامین شامل ہیں جو نجیب عمر کی کتابوں پر تحریر کیے گئے۔ ضخامت کے اعتبار سے 240 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں شامل مضامین مصنف کے بارے میں تمام معلومات فراہم کرتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ملکہ افروز روہیلہ بیک وقت بہت سی فنی و تعمیری صلاحیتوں سے مالا مال ہیں وہ پیشہ پیغمبری کے حوالے سے استاد ہیں۔ معتبر صحافی اور افسانہ نگار ہیں کچھ عرصہ قبل ان کی دو کتابیں اشاعت کے مرحلے سے گزریں "دکھ پیغمبری کے" افسانوں کا مجموعہ جب کہ "آدھی دنیا" کالموں کا مجموعہ ہے۔ ان کے تحریر کردہ مضامین و کالم مختلف اخبارات اور رسال میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔
کتاب میں تخلیقیت کے کرب کے نتیجے میں 39 افسانے شامل ہیں اور یہ تمام افسانے معاشرے میں بسنے والے کرداروں کے گرد گھومتے ہیں، خیر و شر، نیکی و بدی کی علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مصنفہ نے معاشرتی کرب، گھناؤنے اور بدبودار سماج کی تصویریں قلم کے ذریعے قاری کو اس طرح دکھائی ہیں کہ کردار متحرک ہو گئے ہیں، پڑھنے والا انسان اور اس میں پنہاں کہانیوں میں گم ہو جاتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس ماحول کا حصہ ہے اور یہی بات کامیاب افسانوں کی دلیل ہے۔
"سنگ ملامت" ایسے ہی ماحول کا افسانہ ہے جہاں وقتی فائدے اور خوشیوں کی خاطر ضمیر کا سودا کرلیا جاتا ہے اس انداز فکر سے نہ کہ دنیا رسوائیوں کے ساتھ گلے لگتی ہے بلکہ عاقبت بھی دہکتے ہوئے انگارے لیے اپنے مہمان کے استقبال کے لیے منتظر رہتی ہے، کہانی زرمینہ اور الیاس کے گرد گھومتی ہے، کلیدی کردار زرمینہ کا ہے اور الیاس تو ان مردوں کی صف میں شامل ہے جو دیار غیر میں کولہو کے بیل کی طرح جتے رہتے ہیں اپنی صحت گنوا بیٹھتے ہیں، عید، تہوار کی خوشیوں اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے اور ان کی نت نئی شرارتوں سے محظوظ ہونے کے لیے ترستے ہیں لیکن فرض کی ادائیگی انھیں اچھی طرح یاد رہتی ہے لہٰذا ہر ماہ پابندی سے تنخواہ کی مد میں ملنے والی رقم اپنے اہل خانہ کو بھیجتے رہتے ہیں۔
لیکن بدلے میں انھیں دکھوں، غموں، محرومیوں اور بدنامی کی فصل تیار ملتی ہے اور اسے کاٹنا ان کا مقدر بن جاتا ہے زرمینہ بھی ایکی بدکردار عورت ہے جو شوہر کی محبت و ایثار کی قدر کرنے کے بجائے گناہ کی دلدل میں قدم رکھ دیتی ہے۔
وہ شوہر کے ساتھ ہی ظلم و ستم نہیں کرتی ہے بلکہ اپنے معصوم اور کم سن بچوں کو بھی اپنی منزل پانے کے لیے سفاکیت کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے، انجام وہی ہوتا ہے جو ہونا چاہیے انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔
"پھر صبح ہوگی" یہ افسانہ بھی معاشرے کے مسند نشینوں کے منہ پر طمانچہ مارنے سے کم نہیں ہے۔ آج بے شمار گھرانے کیمپوں میں پناہ گزین ہیں یہ مظلوم لوگ تقریباً پچاس سال سے کھولیوں میں زندگی کے کڑوے کسیلے دن گزار رہے ہیں۔ زندگی کی تلخیوں کو گھونٹ گھونٹ پینے پر مجبور ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں وہ پاکستانی ہیں لیکن سابقہ حکومتوں خصوصاً سندھ کی حکومت انھیں اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں، ایک ایک کمرے نما کھولی میں دس، دس نفوس زندگی کا بوجھ اٹھائے ہیں وہی باورچی خانہ اور وہی بیت الخلا اور میٹرنٹی ہوم کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے والوں کا کمرہ ہے۔
مصنفہ نے نہ صرف یہ کہ اس قدر حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے بلکہ اس کڑوے سچ کی بھی نشاندہی کی ہے کہ معاشرے کے وہ ناسور جو انسان کہلاتے ہیں، جوان بچیوں کو اپنے ساتھ شادی کا جھانسا دے کر لے جاتے ہیں، والدین مجبور ہیں کہ وہ اس انسانوں کی بھیڑ اور بے ہنگم شور اور غیر محفوظ کھولیوں میں کس طرح حفاظت کرسکتے ہیں لہٰذا ایک اچھی امید کے ساتھ ان شیطانوں کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ نہ سہی ان کی بچی پاکستان میں جا کر بس جائے گی، ہو سکتا ہے ایک دن وہ بھی آئے جب وہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ سکیں۔
مجیدا، منیرہ اور شینا ایسے ہی بدنصیب کردار ہیں جو اپنوں ہی کے ہاتھوں برباد ہو چکے ہیں، ملکہ افروز کے تمام افسانے اپنے ارد گرد رہنے والوں کا المیہ بیان کرتے ہیں اور وہ مکروہ چہروں کی نقاب کشائی کو فنی باریکیوں کے ساتھ تخلیق کے مراحل سے گزارتی ہیں۔ بہترین افسانے لکھنے پر میں مصنفہ کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
"آدھی دنیا" کے کالم، سیاسی، معاشرتی، اسلامی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھے گئے ہیں، ملکہ محب وطن ہیں اور وطن کی محبت سے سرشار ہو کر قومی اور بین الاقوامی مسائل پر جم کر لکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی تحریریں زمانہ ماضی میں پسندیدگی کی سند حاصل کرچکی ہیں۔ ایک بات گراں گزرتی ہے کہ کالموں پر اخبار و رسائل کا نام ہے اور نہ تاریخ درج ہے۔