برطانیہ ماما بنے نہ امریکا تھانیدار
امریکہ، برطانیہ یا یورپی یونین کو کیا تکلیف ہے کہ پاکستان، اپنی فوج اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کرنے والوں کے خلاف مقدمات کہاں چلاتا ہے اور انہیں کیسی سزائیں دیتا ہے کہ یہ یقینی طور پر پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے بالکل اسی طرح جیسے امریکہ نے کپیٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کو سزائیں دیں یا برطانیہ نے فیک نیوز پر ہنگامے کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنایا۔ دنیا اس وقت ریاستی نظام کے تحت چل رہی ہے اور یہ نظام ہر ریاست کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنا آئینی، قانونی اور عدالتی نظام تشکیل دے۔
کسی بھی ریاست کوکسی بھی دوسری ریاست کے نظام پر " ماما" یا" تھانے دار" بننے کا حق نہیں ہے اور ان ممالک کو علم ہونا چاہئے کہ پاکستان نے شرپسندوں اور حملہ آوروں کو اگر فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دی ہیں تو اپنے نظام میں آئینی، قانونی اور عدالتی تقاضے پورے کرکے دی ہیں۔ اپنے ملکی نظام پر لابنگ فرموں، کرائے پر دستیاب ارکان اور صحافیوں کے ذریعے سوالات کروانے والی تحریک انتشار کے دور میں جب فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دی جاتی تھیں تو اس وقت کا وزیراعظم اوراس کے بھونپو فوجی عدالتوں کے بڑے حامی تھے، بھونپو تھے۔
ہم اس معاملے کو آئین اور قانون سے پہلے منطق کے طور پر لیتے ہیں۔ یہ عین منطقی ہے کہ جب ایک گروہ ایک ایسی جگہ پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی سیکورٹی سے انتظام و انصرام سب اس کا اپنا ہے تو وہ یقینی طور پر اس کے دائرہ کار میں آجاتا ہے۔ ملکی تاریخ میں سیاسی مظاہرے ہمیشہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سامنے ہوتے رہے ہیں۔ فوجی علاقوں میں سیاسی مظاہروں کی نہ کوئی تاریخ موجود ہے اور نہ ہی لاجک۔ اس کی زیادہ سمجھ آپ کو اس وقت آتی ہے جب آپ کینٹ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر کینٹ کے باہر فوجیوں کا اپنا ناکہ موجود ہوتا ہے جو آپ کو وہاں داخل ہونے سے روکنے کا قانونی اختیار رکھتا ہے۔ میں بطور صحافی یا تجزیہ نگار کسی طور پر بھی کسی سیاستدان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی حمایت نہیں کرتا مگر جو لوگ خود جا کے وہاں حملہ کر دیں یا اس کی منصوبہ سازی کریں یا اس کے ماسٹر مائینڈ ہوں انہیں سیاستدان کے طور پر نہیں بلکہ آرمی ایڈمنسٹریشن کے مجرم کے طور پر ہی ٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔ کیا فوج ان کے خلاف شہری علاقوں میں آئی تھی یا یہ فوج کے خلاف اس کے علاقے میں پہنچے تھے؟
ہمیں اس بحث کو آئین اور قانون کے مطابق لینے میں بھی کوئی عار نہیں ہے اور اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل بالکل ہی نہیں ہونا چاہئے چاہے وہ ان پر حملہ آور بھی ہو تو وہ پارلیمنٹ سے میں اس پر قانون پیش کردے جو ترمیم کا واحد طریقہ ہے۔ جب آپ فوجی عدالتوں سے پچیس افراد کو دو سے دس برس کی سزائوں پر اعتراض کرتے ہیں توبھول جاتے ہیں کہ اسی برس گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہی جرائم پر اکاون افراد کو سزائیں دیں جن میں پی ٹی آئی کے باقاعدہ عہدیدار اور ٹکٹ ہولڈرز بھی شامل تھے اوراس کے بعد اسلام آباد کی عدالت نے دس افراد کو مجرم ٹھہرایا اور ایسی ہی سزائیں دیں جیسی فوجی عدالتوں نے دی ہیں۔
پی ٹی آئی ایک طرف نو مئی کے حملوں کو فالس فلیگ آپریشن کہتی ہے یعنی یہ حملے خود فوج نے کروائے اور دوسری طرف جب ان حملہ آوروں کو باقاعدہ ویڈیوز سے شناخت کرکے سزائیں دی جاتی ہیں تو اس پر بھی چیخیں مارتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ فالس فلیگ آپریشن تھا، عمران خان اس کا ماسٹر مائینڈ نہیں تھا تو پھر فوج کو اپنے ہی حملہ آوروں کو سزائیں دینے دو، تمہارے پیٹ میں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟
معاملہ صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کواب اپنا بانی اس میں صاف پھنستا اور سزا پاتا ہوا نظر آ رہا ہے اور اسی کو بچانے کے لئے یہ پارٹی ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کو لابنگ فرموں اور کرائے پر دستیاب صحافیوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف بیانات پر آمادہ کر رہی ہے۔ یہ ایسے احمق ہیں کہ کچھ روز پہلے ایک ضمیر فروش نے پاکستان کے ایک صوبے کے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر امریکی فارن آفس کے ترجمان سے سوال پوچھ لیا تھا، بھلا ان کا اس سے کیا تعلق؟
پاکستان کا آئین اورقانون نہ غیر منطقی ہے اور نہ ہی غیر اخلاقی، پریکٹس میں ضرور خامیاں ہوسکتی ہیں، جتنے بھی لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہیں ان کے پاس ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فیصلے درست نہیں ہیں تو ان کے خلاف شواہد، ثبوت، گواہ اور دلائل اپیلیٹ کورٹس میں پیش کر سکتے ہیں اور سزائیں ختم کروا سکتے ہیں جو دنیا بھر میں ایک عمومی پریکٹس ہے مگر مجھے یہ بتانے میں عار نہیں کہ خود پی ٹی آئی کے وکلا کہہ رہے ہیں کہ جس شفاف انداز میں مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلایا گیا اس کا وہ عام شہری عدالتوں میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔
فوج کی تحویل میں آنے والے اس کے مجرم بھی حکام کے روئیوں کی تعریف کر رہے ہیں کہ اتنے بہتر روئیے عام حوالاتوں اور جیلوں میں نہیں ہوتے۔ بہرحال میں بنیادی بات کروں گا کہ ان شرپسندوں کو کسی بھی مظاہرے کے لئے کینٹ میں نہیں جانا چاہئے تھا اور یہ کہ انہیں شہدا کی یادگاروں پر جا کے توڑ پھوڑ کرکے پوری قوم کے غم وغصے کا نشانہ نہیں بننا چاہیے تھا۔ ان مجرموں کا جو بھی حامی ہے وہ محب وطن نہیں ہے، بھارت جیسے دشمنوں کا ایجنٹ ہے، عاقبت نااندیش ہے۔
میں ایک مرتبہ پھر برطانیہ اور امریکہ سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔ کیا برطانیہ نے اسی برس جولائی میں سائوتھ پورٹ کے علاقے میں دوسو سے زائد افراد کو چند دنوں میں سزائیں نہیں دیں جن میں تین کم سن بچے بھی شامل تھے اور رہ گئی بات سوشل میڈیا کی تو کیا نارتھمپٹن میں ایک چھبیس سالہ شخص کو ہوٹلز اورقانونی فرموں کو جلانے پر تین سال دو ماہ کی قید نہیں دی۔ کیا امریکہ نے کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والے پندرہ سو افراد کواپنے نظام کے تحت فوری سخت سزائیں نہیں دیں اور اس سے پہلے جارج بش کے دور میں کئی سویلینزکو گوانتانا موبے میں ملٹری ٹریبونلز کے ذریعے ہی سخت سزائیں دی گئیں۔
پاکستان نے امریکہ اور برطانیہ کے اس سخت کریک ڈائون پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ریاستی رٹ قائم کرنے کے ان ایکشنز کو قوانین اور نظام کی مضبوطی سے عملداری قرار دیتے ہوئے اسے سراہا۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کو اب کیا تکلیف ہے۔ یہ پاکستان کی بجائے اسرائیل پر کیوں نہیں بولتے جس نے ایک برس میں معلوم انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ بچے قتل کر دئیے ہیں، تعلیمی ادارے اور ہسپتال تک تباہ کر دئیے ہیں، انسانی حقو ق کے نام پر پاکستان کی فوجی عدالتوں پر اعتراض کرنے والوں کی زبانیں ایک لاکھ سے زائد قتل کر دئیے جانے والوں کے حق میں کیوں گنگ ہیں؟