Phal Mosam Da Gal Wele Di
پھل موسم دا گل ویلے دی

ریاست اداروں کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور یہ ستون تب تک سہارا دیتے ہیں جب تک ان کی عزت عام آدمی کے دل میں برقرار رہتی ہے۔ یہ آدمی راتوں رات بدتمیز و بے لگام نہیں ہوتا بلکہ مرحلہ وار اور سلسلہ وار ہوتا ہے۔
اس عام آدمی کے لیے فوج، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت سے بھی زیادہ اہم عدالت ہوتی ہے۔ اگر سب مشکوک ہو جائیں مگر عدالت بے داغ ہو تو اس سے بڑی آخری ڈھارس کوئی نہیں ہوتی۔ لیکن عدلیہ بھی جب چائے خانوں اور تھڑوں کا موضوع بن جائے تو پھر سیلابی شکل اختیار کرنے والے پانی کے سامنے کوئی نفسیاتی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔
کوئی بھی انسان ایک رات میں انارکسٹ یا سماجی بے چینی کا شکار نہیں بنتا۔ پہلے عام آدمی ریاستی اداروں سے اپنی تکالیف کا اظہار چند بنیادی مطالبات کی شکل میں کرتا ہے اور ان میں سے آدھے بھی پورے ہو جائیں تو کئی برس کے لیے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اگر نہ پورے ہوں تو پھر وہ توجہ دلانے کے لئے احتجاجی طریقے اختیار کرتا ہے۔ اس سے بھی فیصلہ سازوں کے کان پر جوں نہ رینگے تو پھر وہ اداروں اور شخصیات کی جانب انگلی اٹھانے لگتا ہے۔ تب بھی اس کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے تو پھر وہ اداروں اور شخصیات کے نام لے لے کر گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ یہی فرد کی نفسیات ہے اور افراد کی نفسیات مل کر اجتماعی قومی نفسیات میں ڈھل جاتی ہے۔
اگر تب بھی ریاستی کرتے دھرتوں کا بہرہ و اندھا پن برقرار رہے تو عام آدمی بے ہنگم ہجوم کی شکل اختیار کرکے ریاستی سمبلز کے سامنے تن جاتا ہے اور بے خوف ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بے خوفی انارکی کا زہر پھیلاتی ہے۔ اس انارکی کو کون سا گروہ یا شخص لیڈ کرے گا یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ اس طرح کی صورتِ حال اپنے لیڈر خود پیدا کرتی ہے۔ اس مرحلے پر نہ کوئی اسپرین کام کرتی ہے اور نہ ہی کیمیو تھراپی، نہ کوئی چالاکی۔ یہی وقت ہے جب خوف ایجاد کرنے والے خود خوفزدہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور سماجی و قانونی ڈھانچہ خس و خاشاک کی طرح بکھرنے لگتا ہے۔
اگر عوامی بے چینی کے اس مرض کو اچھا طبیب مل جائے تو ریاست فرانس، امریکہ، ترکی اور چین بن جاتی ہے۔ نہ نصیب ہو تو ریاست افغانستان، صومالیہ، لیبیا، کانگو اور برما ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں ٹرکوں کے پیچھے ایک بڑا اچھا مقولہ لکھا ملتا ہے، "پھل موسم دا گل ویلے دی"۔۔
ساری بات وقت کی ہوتی ہے۔ ریاست کو یہ سوچنا ہوگا کہ چاہے جو بھی ہو جاتا کم از کم عدلیہ کو بازاروں، تھڑوں اور انٹرنیٹ کا موضوع سخن نہیں بننا چاہئیے تھا۔ مگر کیا کیجئیے جب ریاست اپنی ہی ذات میں روم کا نیرو بن جائے۔ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔

