Friday, 18 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Chalees Din Ka Sach

Chalees Din Ka Sach

چالیس دن کا سچ

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذات اقدس پر۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی شخص 40 دن تک سچ بولے تو 40 دن کے بعد جو بھی وہ کلمات ادا کرے گا وہ سچ ہی ہوں گے، یعنی جو وہ کہے گا وہ سچ ہو جائے گا۔

سچ آپ کسی دوسرے کے بارے میں نہیں بول سکتے، سچ اپنے بارے میں بولا جا سکتا ہے، کیونکہ دوسرے کا سچ آپ کو معلوم ہی نہیں ہے، سچ کہنا یا بولنا تو ٹھیک ہے لیکن حق سچ کا چھپانا بھی جھوٹ ہی سمجھا جائے گا۔

جو شخص حق یا سچ بات دیکھے اور اس کو نہ بولے یا بیان نہ کر سکے تو وہ جھوٹا ہی سمجھا جائے گا، جھوٹ بولنے والا شخص بہت سے مسائل کا سامنا کرتا ہے، جھوٹ ادا ہونے کے بعد اپنے ساتھ ایک ڈر اور خوف لے کے آتا ہے جو کہ آپ کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے اور آپ اس ڈر اور خوف کے تحت اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں اپنی کوششیں تیز کر دیتے ہیں اور پھر جھوٹ اپنے ارد گرد مزید جھوٹ شامل کر لیتا ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سچا آدمی اگر جھوٹ بھی بولے تو وہ سچ ہی ہوگا اور جھوٹا آدمی جتنا مرضی سچ بول لے وہ جھوٹ ہی رہے گا، یہ تعلیمات ہیں بزرگوں کی یعنی سچا آدمی اگر غلطی سے کوئی بات جھوٹ بھی بول دے تو اللہ تعالی اس کے الفاظ کی لاج رکھتے ہیں اور ان الفاظ کو سچ کر دیتے ہیں۔

آج کل سچ جاننے کے لیے پولیوگرافک مشین کا استعمال کیا جاتا، پولیس اور دوسرے ادارے اس مشین کا استعمال کرتے ہیں زیادہ تر تفتیش کرنے میں، یہ مشین آپ کے بدن کے ساتھ لگا دی جاتی ہے بلڈ پریشر مشین کی طرح اور وہ آپ کے بیانات کو جانچتی ہے، جس کی بنیاد آپ کے دل کی دھڑکن اور فشار خون کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس مشین کے نتائج 85 سے 90 فیصد تک درست ہوتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے، تو سائنسی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ جب آپ جھوٹ بولتے ہیں تو آپ کے بدن میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس کے اثرات ہوتے ہیں جو کہ بلند فشار خون اور دل کی دھڑکن کے تیز ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، لیکن آپ یہ سوچیں کہ جب آپ اس جھوٹ کو سنبھالیں گے مستقبل کے لیے تو اس کے اثرات آپ کے جسم پر کیا ہوں گے، آپ کا بدن اس کو کیسے لے گا اور اس میں کیا حیاتیاتی تبدیلیاں ہوں گی جو کہ آپ کی طبیعت کے لیے موضوع نہیں ہوں گی، یہ تو تھی ایک ظاہری تبدیلیاں جو کہ سائنس نے دریافت کر لی ہیں کہ جھوٹ بولنے سے کیا ہو سکتا ہے۔

لیکن باطنی تبدیلیوں تک سائنس کی رسائی نہیں ہے، جھوٹ آپ کے روحانیت کے سفر کو روک دیتا ہے، کیونکہ یہ سفر ہے ہی سچے کے لیے، جھوٹے کی اس میں کوئی گنجائش نہیں، آپ کے خیال پہ جو عنایات ہو سکتی ہیں وہ جھوٹ کی وجہ سے رک جاتی ہیں۔

ایک بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی کے تمام واقعات کو کتابی شکل دوں گا جس میں کہ تمام واقعات بالکل اپنی حقیقتوں اور سچائیوں کے ساتھ بیان کروں گا تاکہ دنیا کو اور میرے مریدین کو پتہ چلے کہ آج جو میں پیر بن کے بیٹھا ہوں میرا ماضی کیا تھا، یعنی یہ ایک کوشش تھی سچ کہنے کی، انہوں نے کتاب لکھنی شروع کی اور جوں جوں مضامین مکمل ہوتے جاتے وہ اپنے مریدوں کو پڑھاتے، کچھ حصہ کتاب کا جب مکمل ہوا تو اُن کے مریدین نے گزارش کی کہ سرکار آپ یہ کتاب نہ لکھیں کیونکہ اس میں سے کچھ واقعات ایسے بیان ہو رہے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہیں، آپ کے موجودہ منصب کے شایان شان نہیں ہے۔

تو انہوں نے وہ کتاب لکھنا بند کر دی، تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سچ کہنا اتنا آسان نہیں ہے، آپ کا اپنے بارے میں سچ موجودہ زمانے کا سچ ہی نہیں، ماضی کا سچ بھی ہونا چاہیے، اب ہم میں سے کتنے لوگوں کی ہمت ہے کہ ماضی کا سچ بولیں اس کا فیصلہ آپ انفرادی طور پر خود کر سکتے ہیں، ہمت ہے تو اپنے ماضی کا سچ لکھیں بولیں یا بتائیں پھر ہی سچ مکمل ہوگا یہ کوئی اتنی آسان بات نہیں ہے، پھر ہی آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بیان کی تاثیر کو پا سکیں گے۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے ماضی بالکل صاف ہیں کوئی داغ نہیں ہے اور وہ اپنے تمام ظاہری اور باطنی معاملات بیان کر سکتے ہیں، بغیر کسی حیل و حجت کے اور ایسے لوگ بہت کم ہوں گے اگر کسی میں انفرادی طور پر ہمت ہے تو بسم اللہ کریں اپنا ماضی اور حال سچ کی کسوٹی پر پرکھیں اگر آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بیان کی تاثیر تک پہنچنا چاہتے ہیں، لیکن ایک بات یاد رہے کہ سچ اپنے لیے بولنا ہے دوسروں کے لیے نہیں بولنا دوسروں کا سچ آپ بولیں گے تو وہ جھوٹ ہوگا، کیونکہ آپ کو اُن کے حالات و واقعات اُن کے ماضی اور حال کا مکمل طور پر علم نہیں اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Awam Se Tax Wasooli Ka Asan Tareen Nuskha

By Nusrat Javed