Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Thandi Meethi Rut

Thandi Meethi Rut

ٹھنڈی میٹھی رت

مارچ کا مہینہ بھی گزرا جارہا تھا اور دسمبر جنوری کی سرمائی بارشوں کا کہیں اتا پتا ہی نہیں تھا۔ چار دن چمکیلی دھوپ پڑی اور موسم نے تیور بدلنا شروع کر دئیے۔ سردی رخصت ہوتی نظر آنے لگی اور گرمی نے سر نکال کر جھانکنا شروع کردیا۔ گندم کی بوائی کرکے کسان آسمان پر نظریں جمائے بارش کی راہ تک رہے تھے، لاکھ ٹیوب ویل اور نہر کا پانی ہو مگر بارش کا پانی گندم کی فصل کو گھی بن کر لگتا ہے اور پھر بارانی علاقوں کا تو انحصار ہی بارش کے پانی پر ہوتا ہے۔

اللہ اللہ کرکے مخلوق خدا کی دعائیں رنگ لائیں اور کل رات سے باران رحمت نے ادھر کا رخ کیا۔ رات بھر بارش ہوتی رہی صبح سے بھی رک رک کر بوندا باندی کا سلسلہ جاری ہے۔ میں نے پردہ ہٹا کر لان میں جھانکا تو کن من بوندیں گر رہی تھیں۔ سردی بھی بارش اور ٹھنڈی ہوا دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئی ہے۔ لان میں گھاس پر گرتے بارش کے قطروں کو محویت سے دیکھتے دیکھتے طائر خیال کی پرواز برسوں پہلے کے دور تک جا پہنچی۔۔

مارچ کا مہینہ ختم ہونے جارہا تھا مگر بارشیں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتی تھیں اور اسی حساب سے موسم سرما بھی جاتے جاتے رک گیا تھا، ہم چھٹی پر پاکستان آئے ہوئے تھے اس موسم میں آنے کا مقصد بچوں کو سکول کے سالانہ امتحان میں شریک کرانا تھا۔ سارا سال میں پردیس میں اسکول کا نصاب انہیں خود پڑھاتی اور مارچ کے مہینے میں سکول کے باقی طلبا کے ساتھ امتحان میں بٹھا دیتی، یوں وہ سکول میں اپنی اپنی کلاس کے ساتھ چل رہے تھے۔ سکول کی پرنسپل میری بڑی اچھی دوست تھی اس نے مجھے یہ رعایت دے رکھی تھی۔ میری ذاتی توجہ کی وجہ سے میرے بچے پڑھائی میں بہت اچھے تھے اس لئے پرنسپل کو کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ خوش ہوا کرتی تھیں۔

بچے امتحان دے چکے، نتیجہ بھی آگیا، میں نے اگلی کلاس کی کتابیں بھی خرید لیں، جانے کے لئے سب تیاری کرلی تو میرے پہلے بھتیجے نے دنیا میں تشریف لانے کا اعلان کرکے ہمارا جانا روک دیا۔ ہسپتال میں نرس نے جب گولو مولو سا گورا چٹا کاکا سب سے پہلے میری گود میں دیا تو میرے احساسات ہی نرالے تھے۔ اندر سے اٹھتی ہوئی خوشی کی لہر سے مغلوب ہوکر میں نے اس ننھے سے وجود کو سینے سے لگا لیا۔ اپنے بچوں پر بھی پہلی پہلی بار یہ تجربہ ہو چکا تھا مگر بھائی کی پہلی اولاد کو سینے سے لگانے کی ٹھنڈک الگ ہی تھی۔۔

بھابی ہسپتال سے گھر آگئیں تو ہم نے جانے کی دوبارہ سے تیاری شروع کردی لیکن اب یہاں ایک نئی کشش پیدا ہوگئی تھی۔ ننھا سا پیارا سا بڑی بڑی آنکھوں والا گول مٹول گڈا سا بھتیجا ہر وقت آنکھوں میں سمایا رہتا اسے چھوڑ کر جانے کو دل نہیں چاہتا تھا مگر جانا تو تھا۔۔

بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور سردی بھی ڈیرہ جما کر بیٹھی ہوئی تھی۔ ہم بہت عرصے سے صومالی شہر ہرگیسہ کے ٹھنڈے میٹھے معتدل موسم میں رہنے کے عادی ہوچکے تھے۔ پاکستان آتے تو بھی مارچ کے مہینے تک موسم خاصا کھل چکا ہوتا اور ہمیں ذیادہ فرق نہیں پڑتا تھا لیکن اس سال تو بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں نے دسمبر جنوری کی سردی کو مات دے رکھی تھی۔ ہمیں چونکہ اتنی ٹھنڈ کی عادت نہیں رہی تھی اس سرد دھواں دھار فضا اور برکھا کی رم جھم سے ہم سب سخت تنگ آچُکے تھے۔ چھٹی ختم ہورہی تھی اور مزید رکنا ممکن نہ تھا چند دنوں میں تیاریاں مکمل کیں اور ایک دن صومالیہ کے لئے اڑان بھر لی۔

راستے میں رکتے چلتے جب جہاز نے ہرگیسہ ائیرپورٹ پر لینڈ کیا اور باہر نکلنے پر وادی کی ٹھنڈی میٹھی ہوا نے استقبال کیا تو اس ہوا میں سکون کی لمبی سانس لے کر اسے پھیپھڑوں میں بھر لیا۔ پہاڑیوں پر ظالم چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی جس میں کچھ وقت کھڑے رہیں تو جلد کو اڑا کر رکھ دے، لیکن کسی گھنے درخت کا مہربان سایہ بے حد سکون بخشتا تھا، وہاں کی ٹھنڈی میٹھی رت میں سایہ دار جگہ بہت بڑی نعمت تھی گھر پہنچے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz