Monday, 18 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Samarkand

Samarkand

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت، معیشت اور عزت کے لیے سمرقند کافی تھا، ازبک زبان میں سمرقند کا مطلب ملاقات کی جگہ یا میٹنگ پلیس ہے۔ یہ شہر دو ہزار سات سو پچاس سال پرانا ہے، یہ ماضی میں سلک روٹ کا بڑا جنکشن تھا، یہ شہر سنٹرل ایشیا کے پر فضا ترین مقام پر بنایا گیا اور یہ تاریخ کے تمام بڑے فاتحین کی گزر گاہ تھا۔

سکندر اعظم نے سمرقند کو 329 قبل مسیح میں فتح کیا اور یہ اس کی خوبصورتی اور جغرافیائی پوزیشن دیکھ کر حیران رہ گیا، سمر قند افغانستان اور اس کے بعد ہندوستان کا دروازہ تھا۔

دنیا کے تمام بڑے فاتحین سمرقند سے گزر کر افغانستان، ایران اور ہندوستان میں داخل ہوتے تھے، نبی رسالتؐ کی رحلت کے بعد حضرت قثم بن عباسؓ سمرقند تشریف لائے اور سنٹرل ایشیا میں اسلام کی اشاعت کا آغاز کیا، حضرت قثمؓ نبی اکرمؐ کے چچا حضرت عباس ؓ کے صاحبزادے بھی تھے۔

آپؐ کے کزن بھی اور آپؓ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے نبی اکرمؐ کو لحد میں اتارا، سمرقند کے گستاخوں کو حضرت قثمؓ کی تبلیغ پسند نہ آئی چنانچہ انھوں نے آپؓ کو عین نماز کے دوران شہید کر دیا، آپؓ کا سر مبارک تن سے جدا کر دیا گیا لیکن جب تدفین کے وقت سر مبارک جسم اطہر کے قریب رکھا گیا اور آپؓ کو لحد میں اتارا گیا تو آپؓ کا جسد مبارک غائب ہو گیا، سمر قند کے لوگوں کا خیال ہے حضرت قثم بن عباسؓ ابھی تک زندہ ہیں چنانچہ یہ انھیں شاہ زندہ کہتے ہیں۔

یہ کہانی کس قدر سچ ہے ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں تاہم سمرقند میں حضرت قثمؓ کا مزار موجود ہے، یہ ایک طویل کمپائونڈ ہے جس میں امیر تیمور کے خاندان سمیت بے شمار نامور لوگوں کی قبریں ہیں اور ہر قبر عظیم تعمیراتی شاہکار ہے، یہ چھوٹے بڑے درجنوں مقبروں کا مجموعہ ہے اور آپ جب اس کمپائونڈ میں داخل ہوتے ہیں تو ہر مقبرہ آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے اور آپ اس کے بنانے والے کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے، چنگیز خان نے 1220 میں سمر قند فتح کیا، سمرقند کا نام اس وقت افراسیاب تھا۔

اس نے افراسیاب کی ساری آبادی قتل کر دی، تمام عمارات اور مکانات تاراج کر دیئے اور اس کے بعد شہر کو آگ لگا دی لیکن اسے حضرت قثم بن عباسؓ کے روضہ مبارک کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی، یہ سمر قند کی واحد عمارت تھی جو چنگیز خان کی بربریت سے محفوظ رہی، میں، قمر راٹھور اور ڈاکٹر رازق داد 25 ستمبر کی شام حضرت قثم ؓ کے روضے پر حاضری کے لیے پہنچے، آپ کے روضہ مبارک سے عجیب خوشبو آ رہی تھی۔

ہم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں تر ہو گئیں اور دل حلق میں دھڑکنے لگا، تیمور بھی آپؓ سے گہری عقیدت رکھتا تھا، تیمور کے خاندان کے بے شمار لوگ شاہ زندہ کے دائیں بائیں مدفون ہوئے اور یہ نبی رسالتؐ کے کزن کی ہمسائیگی کی بدولت خود کو بخشش کا حق دار سمجھ رہے ہیں۔

سمر قند کا اصل دور تیمور سے شروع ہوا، تیمور 1336 میں کیش نام کے گائوں میں برلاس قبیلے میں پیدا ہوا، اس کا والد معمولی جاگیر دار تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے تیمور کو بے انتہا صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا، یہ دونوں ہاتھوں سے لڑ سکتا تھا، اس کے حوصلے غیر متزلزل تھے، یہ بے خوف اور بے رحم بھی تھا اور یہ اس کے ساتھ ساتھ علم اور عالموں کا بھی شیدائی تھا۔

اس نے اپنے گائوں کے اردگرد شہر سبز کے نام سے شاندار شہر تعمیر کروایا، یہ نابغہ روز گار شہر تھا اور تیمور اپنی بائیو گرافی میں بار بار اس کی تعریف کرتا ہے لیکن اس نے اپنی ریاست کا دارالحکومت سمر قند ہی کو بنایا، سمرقند تیمور کے دور میں دنیا کا خوبصورت ترین شہر تھا، شہر کے چاروں اطراف چودہ بڑے بڑے باغ بنائے گئے، پورے شہر میں ہزاروں درخت لگائے گئے اور سڑکوں اور گھروں کو انگور کی بیلوں سے چھپا دیا گیا۔ تیمور اپنے سمر قند کو بہشت برزمین کہتا تھا اور یہ غلط بھی نہیں تھا۔

تیمور کی سلطنت روس سے دہلی اور آذر بائیجان سے لے کر بغداد، شام اور قاہرہ تک پھیلی تھی لیکن سمر قند اس کی جان تھا، تیمور کی بارہ بیویاں اور چار مرد بچے تھے، یہ ایک دن شطرنج کھیل رہا تھا، اس کے ہاتھ میں شاہ تھا، عین اس وقت اس کی لونڈی اندر آئی اور اسے بیٹے کی ولادت کی خوش خبری سنائی۔

تیمور نے ہاتھ میں پکڑے شاہ کی طرف دیکھا اور اس بیٹے کا نام شاہ رخ رکھ دیا، یہ بیٹا اس کے انتقال کے بعد اس کی سلطنت کا وارث بنا، تیمور کا ایک بیٹا جوانی میں بلڈ کینسر سے مر گیا، دوسرا بیٹا دہلی کی فتح کے دوران مارا گیا، تیسرا بیٹا بھی بیماری کا شکار ہو گیا اور پیچھے رہ گیا شاہ رخ۔ یہ درویش صفت انسان تھا، تیمور اپنی وسیع سلطنت اس کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے اپنے پوتے محمد سلطان کی تربیت شروع کر دی۔

یہ تیمور کی کاپی تھا لیکن بدقسمتی سے یہ ولی عہد بھی تیمور کی زندگی میں وفات پا گیا، تیمور نے سمرقند میں اس کا خوبصورت مقبرہ بنوایا، تیمور نے اپنی زندگی میں شہر سبز میں اپنی قبر تعمیر کروا دی تھی لیکن آپ قدرت کے فیصلے دیکھئے، یہ قبر آج تک خالی پڑی ہے کیونکہ تیمور 1405 میں چین کی مہم کے دوران قزاقستان میں سردی لگنے کی وجہ سے بیمار ہوا اور راستے ہی میں فوت ہو گیا، اس کی لاش سمر قند لائی گئی اور اسے اس کے پوتے محمد سلطان کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

تیمور کا پوتا الغ بیگ سمر قند کا حکمران بنا تو اس نے تیمور کا عالی شان مقبرہ تعمیر کروا دیا، اس کے ساتھ شاہی خانقاہ بنوائی، شاہی مدرسہ بنوایا اور اپنے دادا کی قبر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی بخش دی، یہ مقبرہ آج تک سمرقند میں موجود ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح اس کی " زیارت" کے لیے آتے ہیں، سمرقند کے لوگ تیمور کے مقبرے کو "گور تیمور" کہتے ہیں، یہ عالی شان عمارت ہے جو دیکھنے والے کو پہلی نظر میں کھینچ لیتی ہے۔

مقبرے کی دیواروں اور چھت پر سونے، سبز اور نیلے پتھروں سے قرآنی آیات لکھی ہیں، تیمور کی قبر کا پتھر آذربائیجان سے لایا گیا، یہ گہرے سبزرنگ کا پتھر ہے جو سورج کی روشنی کے ساتھ ساتھ رنگ بدلتا ہے، نادرشاہ درانی نے جب سمر قند فتح کیا تو وہ یہ پتھر اکھاڑ کر ساتھ لے گیا تھا لیکن راستے میں اس کی بیٹی بیمار ہو گئی چنانچہ اس نے یہ پتھر واپس بھجوا دیا، تیمور کے محلات اور دربار ختم ہو گیا لیکن اس کی قبر ابھی تک موجود ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

الغ بیگ تیمور کا پوتا اور شاہ رخ کا بیٹا تھا، یہ فطرتاً سائنس دان تھا، یہ فلکیات میں خصوصی دلچسپی رکھتا تھا، اس نے سمر قند میں شاندار مدرسہ تعمیر کروایا، یہ سنٹرل ایشیا میں ماڈرن سائنسز کا پہلا مدرسہ تھا، طالب علم اس میں آٹھ سال پڑھتے تھے، یہ چار سال دینی تعلیم حاصل کرتے تھے اور چار سال دنیاوی علوم بالخصوص سائنس کے مضامین۔ الغ بیگ نے فلکیات اور زمین پر ریسرچ کی اور کمال کر دیا۔

اس نے قدیم شہر افراسیاب کے کھنڈرات کے قریب عظیم رصدگاہ تعمیر کروائی، الغ بیگ اور اس کے سائنس دان اس رصد گاہ میں زمین کی ہیت اور ستاروں پر ریسرچ کرتے رہے، اس نے زمین کے اندر چوتھائی چاند کی طرز کی خندق کھودی، پتھروں سے خندق کی تعمیر کروائی، اس کے کناروں پر ڈگریاں بنائیں، چھت پر سوراخ کیا اور اس سوراخ سے ستاروں کی چال نوٹ کرتا رہا۔

اس نے سال کو 365 دنوں میں بھی تقسیم کیا، آج کے کیلنڈر اور الغ بیگ کے کیلنڈر میں صرف 58 سیکنڈ کا فرق تھا، اس نے 1018 ستارے بھی دریافت کیے اور اس نے سورج، چاند اور زمین کا آپس میں تعلق بھی تلاش کر لیا، الغ بیگ حکمران کم اور سائنس دان زیادہ تھا، یہ اگر چند سال مزید زندہ رہتا تو یہ دنیا کے عظیم سائنس دانوں میں شمار ہوتا لیکن 1449 میں اس کے صاحبزادے نے اسے اس وقت قتل کروا دیا جب یہ حج کے لیے مکہ جا رہا تھا، الغ بیگ کو بعد ازاں تیمور کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔

الغ بیگ کے بعد اس کی رصد گاہ تباہ کر دی گئی، سائنس دانوں کو قتل کر دیا گیا مگر اس کا ایک شاگرد علی اس کی کتاب لے کر ترکی بھاگ گیا، یہ کتاب دو سوسال بعد انگریزوں کے ہاتھ لگی اور یہ کتاب دیکھ کر حیران رہ گئے، آکسفورڈ پریس نے 1665 میں یہ کتاب شائع کر دی اور یوں الغ بیگ کی ریسرچ نے دنیا کو حیران کر دیا۔ 1900 کے شروع میں روس کے ایک آرکیالوجسٹ نے اس کتاب کی روشنی میں الغ بیگ کی رصد گاہ کے مقام کا تعین کیا، کھدائی شروع کروائی اور اس نے مٹی میں دفن رصدگاہ تلاش کر لی۔

یہ رصد گاہ آج بھی موجود ہے اور دنیا اس کا نظارہ کر کے حیران رہ جاتی ہے، ہم 25 ستمبر کی شام الغ بیگ کی رصدگاہ میں گھوم رہے تھے، میں نے اپنی روسی گائیڈ کو الغ بیگ کی کتاب دکھائی اور اس سے سوال کیا " تیمور کے درجنوں پوتے اور نواسے تھے لیکن تاریخ صرف الغ بیگ کو جانتی ہے، کیوں؟ " اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا " آئی ڈونٹ نو" میں نے عرض کیا " صرف اور صرف اس کتاب کی وجہ سے۔

الغ بیگ تیمور کی نسل کا واحد بادشاہ تھا جس نے فلکیات کے علم میں اضافہ کیا اور اس اضافے کو کتاب کی شکل دی چنانچہ یہ اپنی اس چھوٹی سی کتاب کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے جب کہ اس کے باقی تمام بھائی اور کزن اپنی اپنی سلطنتوں کے ساتھ دفن ہو چکے ہیں " میں نے اس سے عرض کیا " کتابیں سلطنتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، سلطنتیں، ملک اور ان کے حکمران ختم ہو جاتے ہیں، ان کی قبروں کے نشان بھی مٹ جاتے ہیں لیکن کتابیں خود بھی زندہ رہتی ہیں اور یہ اپنے مصنفوں کو بھی زندہ رکھتی ہیں اور الغ بیگ اور تیمور دونوں اس کی زندہ مثال ہیں "۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Maro Ya Mar Jao

By Prof. Riffat Mazhar