Suno Maze Maze Ki Hikayaten
سُنو مزے مزے کی حکایتیں

احباب اِس بار اوکاڑا کا احوال نہ لکھ پایا، کیونکہ ہماری فرصت کے اوقات کو شکوہ و شکایت کی نحوست نے کھا لیا۔ معاملہ یہ ہوا کہ اب کے لاہور گیا تو میاں فاروقِ اعظم ہمارے ساتھ تھا۔ یہ حضرت بڑے حضرت ہیں، خود ڈی ڈبلیو میں لکھتے ہیں اور باقی کو خود پر لکھتے ہیں۔ اِس بار بک فئیر میں ہمارے یار سہیل عزیز نے ہماری کتابوں کے ایمبیسڈر کا فریضہ انجام دیا۔ تمام دن کی روشنی اور تمام شب کی تیرگی میں ہماری کتابوں کے خیر خواہ رہے۔ لیکن اِس سے بھی کمال کی بات یہ ہوئی کہ اوکاڑا سے ہمارے تلی کے پھوڑے لالہ احمد شہزاد، حضرت کاشف مجید، مولانا سخن ور نجمی اور شکیل امجد صاحب بھی تشریف لائے اور صرف ہماری خاطر آئے، کتابیں بھی آنجناب کی خریدیں اور دمِ رخصت فرمانے لگے ناطق میاں یہیں سے اسلام آباد مت پدھاریو، ایک دن کے لیے اوکاڑا ضرور آو تا آنکہ کسی جگہ فرصت سے مل بیٹھیں۔ خاص کر سُخن ور نجمی اور کاشف مجید کو مجھ فقیر کی دلجوئی کرنے کی منشا تھی۔ ہم نے بھی ہاں کہہ دی۔
لیجیے حضت 9 فروری کی شام ہم نے فاروقِ اعظم اور حضرت شاعرِ نیلا پربت، طوطیِ لاہور اور بُلبلِ پنجاب اُستاد اکرام عارفی کو گاڑی میں ٹھونسا اور اوکاڑہ لے نکلے۔ رات بارہ بجے گائوں پہنچے۔ اگلے دن پروگرام یہ ہوا کہ فاروقِ اعظم کو نولکھی کوٹھی دکھانے کے بعد شہر کی سیر کروائی جائے گی۔ دو بجے منطقہ ھذا میں وارد ہوئے۔ فاروقِ اعظم اور میاں اکرام عارفی کوٹھی دیکھ کر باولے ہی تو ہو گئے۔ بولے میاں جس ناول کا شہرہ شرق و غرب میں ہے، کیسا عُجب ہے کہ ہم اُس کے مقام کو چھو رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔ بیسیوں تصویریں کھینچیں۔ خاص کر فاروقِ اعظم نے تو اپنا کیمرہ ہی بھر لیا۔
اِنھیں ایک پن چکی کے پاس لے گئے اور وہاں ایک برگد کے پہلو میں بیٹھ کر وہاں سے کھویا کھلایا، چائے پلائی، دونوں چیزیں بقول راوی زبردست تھیں۔ لیجیے پھر ہم پہنچے اوکاڑا کبابش پر۔ جہاں سخن ور نجمی و کاشف صاحبان بدستِ گلدستہ موجود تھے اور لالہ اُس گلدستے کے پھولوں کی تعریف میں رطب اللسان تھا، مجھے کہنے لگا ناطق میاں نجمی صاحب نے اِس گلدستے کے پھول خاص میاں تبارک اللہ کی نرسری سے منگوائے ہیں اور اِس گلدستے میں پروئے ہیں۔ گلدستے کو دیکھ کر ہمارے بھی آنسو چھلک گئے کہ اوکاڑا میں ہمیں پچھلے پچاس سالوں میں صرف دوبار پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا۔ دوسری بار بھی اُنھی نے پیش کیا جنھوں نے پہلی بار پیش کیا تھا۔ حضرت نجمی اور کاشف میاں واقعی آپ کے پھولوں میں خوشبو تھی لیکن دیر بعد سونگھنے کو ملی۔
تب ہم کبابش میں داخل ہو گئے، لیکن یہاں ایک جرح آڑے آ گئی کہ ہم نے نولکھی کوٹھی کے پہلو والے گائوں سے کھویا ہی اِتا کھا لیا ہے کہ کبابش کے کباب گلے سے نہ اُتریں گے۔ سخن ور نجمی اور کاشف مجید نے ہزار اصرار کیا کہ ایک بار ہمارا نمک بھی کھا لو مگر یہاں مجھ سمیت اکرام عارفی، فاروقِ اعظم اور فرقان یعنی سب کھانے پینے سے پرہیزی ہوئے بیٹھے تھے، پھر ایک موٹا تازہ مسئلہ اور درپیش تھا۔ وہ یہ کہ مسعود احمد صاحب ہوٹل نہ آ سکتے تھے اور اُن کے بغیر محفل ایسے ہی تھی جیسے مسجد مولوی کے بغیر یا گائوں پھپھے کُٹنی سے خالی ہو۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ یہاں سے اٹھا جائے اور مسعود صاحب کی چوکی پر پہنچا جائے۔
چنانچہ بقول علامہ طالب جوہری چند دقیقوں میں ہم مسعود صاحب کے ہاتھی گیٹ پر پہنچ گئے اور وہ حضرت بستر میں ایسے بِسرے پڑے تھے جیسے کنول کا پھول تالاب میں لیٹا ہو۔ بڑی مشکل سے پہلے اُنھیں بستر سے نکالا، پھر گھر سے نکالا اور باہر لان میں بیٹھ گئے۔ یہاں سخن ور نجمی صاحب نے وہی گلدستہ ہمیں دوبارہ پیش کیا، پھر اکرام عارفی کو پیش کیا پھر پوری منڈلی کو پیش کیا۔ پھر یہیں اکرام عارفی صاحب سے اُن کی غزلیں سنیں۔ عارفی صاحب کو عادت ہے غزل سنانے سے پہلے غزل کا جواز بتانے لگتے ہیں۔ ہم نے کہا میاں عارفی سیدھے بھائو غزل سنائو، جوازیں بتا کر غزل کا زہر نہ نکاو۔ عارفی غزل سنائے اور دنیا تڑپ کر نہ ہم نے اور مسعود صاحب نے، سخن ور نجمی نے اور کاشف نے غزلیں سنائیں۔
لالے کی ایک بات کی داد دینا پڑے گی۔ اُن کا اور شاعروں کا عمر بھر ساتھ ہے مگر ابھی تک شعر کہنے سے بچے ہوئے ہیں
تب رات کے پہلے پہر ہم لاہور نکل آئے۔