لیاری بھی منی کشمیر بنا تھا
سینئر ساتھی صحافی عبداللطیف ابوشامل نے ہال میں داخل ہوتے ہی کشمیرکی صورتحال پر اقبال کا یہ موسوی مصرع فضا میں لہرا دیا۔
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
مصرع کیا ہے ! اقبال کے اس شعرکی تفسیراور لمحہ حاضر کی دہکتی ہوئی سیاسی تعبیر ہے۔ پورا شعر یہ ہے۔
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو توکلیمی ہے کار بے بنیاد
موجودہ صورتحال تفہیم کے ایک کوزے میں بند موجزن دریاہے، سفارت کاری، سیاسی فہم وفراست، واقعات کی پیشگی تفہیم، خموشی میں گفتگوکی ترنگ، خوابوں کے صورت گروں سے ملنے والی نئی تصویریں اور نیا سیناریو، سری نگر کی دھمک اورگھڑی کی ٹک ٹک میں زلزلہ کی چھنگاڑ۔ اور بہت کچھ۔ اقبال نے تو تزویراتی اور زمینی حقائق کے سارے رستوں پر ریڈ الرٹ جاری کردیا تھا، اب حقیقت کشائی ہوئی ہے کہ کسی بڑی کارروائی کے لیے ایک سیاسی ارادہ کی ضرورت شرط ہے، کوئی بے خبر نکلا تو قصور تاریخ کا نہیں، فرد اور ملت کے رازدانوں کا ہے۔ اس موضوع پر اہل سیاست، دانشوروں، تجزیہ کاروں، سفارت کاروں اورکشمیر کی صورتحال پر بیانات اور خیالات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔
میں آپ کو کراچی میں جنم لینے والی ایک ایسی ہی دردناک کہانی کے کچھ کرداروں سے ملاتا ہوں جن کی سکندری اور تونگری بھی کچھ کم قلندری سے نہ تھی۔ جن کو ہم گینگ وارکمانڈرکہتے تھے وہ حقیقت میں منشیات کے ننگ انسانیت کاروبار، قانون کی حکمرانی کے سقوط اور بساط سیاست کی چمتکاری کے داستان گو تھے جس کے سارے رنگ سردار رحمن سے شروع ہوتے اور شیرازکامریڈ پر ختم ہوتے ہیں۔ یوں آپ لیاری کو بھولا بسرا کشمیر المیہ کا ایک خونیں باب کہہ سکتے ہیں۔ لیاری کو منی کشمیر بھی کہہ لیں کوئی کچھ نہیں کہے گا، ایک گینگ وار جو بے رحمی سے جاری رہی مگر کسی سیاسی آنکھ کی روشن ضمیری نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا، یہاں پورے گینگ وار فسانے میں مرزا غالب درمیان میں آتے ہیں اس عہد آفرین فکر اور معروضی سوال کے ساتھ کہ
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
جس طرح مودی کی مکروہ کشمیر واردات کا کسی دانا و بینا آنکھ نے وقت سے پہلے ادراک نہیں کیا مگر "مودی توا" نے وہ ساری سکرپٹ رائٹنگ مکمل کرلی تھی اور اپنے سارے عالمی مہروں سے پیشگی ضمانت بھی حاصل کرلی تھی، ورنہ ابو شامل کے بقول کیسے ممکن ہے کہ ادھر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کا بگل بجے اور ادھر مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم، ہندوبستیاں بسانے کی نوید اور لداخ الگ۔ بستیاں تو اقبال نے اہل نظر کی بسانے کی نوید دی تھی۔
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ وبغداد
پھر یہ کلیمی ہے کار بے بنیاد اور موسیٰ کلٹی کا سانحہ کیسے ہوا، ہمارے شرلاک ہومز اس کیس کی تفتیش مکمل کرکے قوم کو جلد بتائیں کہ مودی کا مکافات عمل کب ہونے جا رہا ہے۔ بقول کانگریس بی جے پی نے آئین قتل کردیا، محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ بھارت سے الحاق غلط ثابت ہوگیا، عمر عبداللہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ کم وبیش ایسی ہی خاموش واردات لیاری گینگ وارکے نام پر ہوئی۔
حلقہ بندی کے نام پر لیاری سے لیاری کی شناخت چھینی، حالانکہ اپنے مسکین وعاجزانہ مزاج، غیر معمولی سیاسی شعور، کھیل و ثقافت اور ادبی سرگرمیوں کے اعتبار سے لیاری پر شہاب ثاقب گرانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، آج تک کسی کو نہیں بتایا جاتا کہ کراچی کے ساؤتھ ڈسٹرکٹ میں قانون کی حکمرانی پر زوال کیسے آیا، معیشت دانوں کی میکرو اور مائیکرو اکنامک ڈائنامکس سے ماورا غربت اورکسما پرسی لیاری کا مقدرکیوں بنی رہی، کیا بات تھی کہ چار تھانے ایک بند اور محبوس آبادی کے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی میں ناکام ہی نہ رہے انور کالیا کامیاب رہا، بلکہ منظم مافیاؤں نے گینگ وار تباہ کاریوں پر چپ سادھ لی، جو عینی شاہدین ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2001 سے گینگ وار بر بادی کا اسکرین پلے سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے ماہرین نے پہلے سے تیار کیا تھا، جن دماغوں نے سردار رحمٰن سے لے کر جبار جینگو، راشد ریکھا، ارشد ببو، غفار ذکری، استاد تاجو، وصی لاکھو، ستار پیڑا، بابا لاڈلا اور ان کے ہزاروں کارندوں کو لیاری کی بے تاج حکمرانی بخشی وہ کس طرح قانون، احتساب وکریک ڈاؤن سے بالاتر رہی، میری سمجھ میں آج تک یہ منطق نہیں آئی کہ پیپلز امن کمیٹی نے کیا کارہائے نمایاں انجام دیے، شاید وہی کام کیا جوکشمیرکمیٹی نے کیا اور اس کے لیے آج مورد الزام ٹھہرائی جاتی ہے، گینگ وارکے تسلط کی کہانی عجیب تھی۔ علاقے پر وحشتوں کے اتنے درد ناک منظر تھے، اتنی جہتیں تھیں قتل وغارت کی کہ اس کی داستان سنانے پرکوئی آئے تو آنسوؤں کا سیل رواں کسی کے روکے نہ رکے گا۔ میں نے ان غریب و فاقہ کش ماؤں کو بے اختیار سینہ کوبی کرتے اپنے بال نوچتے آہ وفغان کرتے دیکھا ہے، ان کے بیگناہ نوجوان لڑکوں کوگھرکے اندرگینگ وارکے کرمنلز کے ہاتھوں مارا گیا۔ صرف اس ٹپ پرکہ وہ گینگ وارکارندوں کے مخبر بتائے گئے۔
میں نے لیاری کے علمائے کرام سے پوچھا کہ اسلام میں گینگ وار اور جرائم پرخاموش رہنے کے جرم کی کوئی سزا ہے مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ ایسا کئی بار ہوا کہ مساجد سے نصف شب کو مائیکروفون پر اعلان کیا جاتا کہ ماؤ بہنو جلد سے گھر وں سے نکلو اور فلاں چوک پر پہنچ جاؤ، ابھی ایک احتجاج کرنا ہے۔ لوگ نیند سے ہڑبڑا کر اٹھتے اور وہاں پہنچ جاتے اور غیر حاضری کی الگ سزا تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میرے لیے لیمارکیٹ سے سیفی لین بغدادی کے علاقے میں واقع گھر تک پہنچنا ممکن نہ تھا۔ وہ رات مجھے یاد ہے جب پی پی کے بانی رکن شفیع جاوید کے گھر سے تین نوجوانوں کو پکڑکر کارندے شیدی ولیج روڈ پر لائے اور ان کو زندہ جلادیا گیا۔ ابھی تک ارشد پپو اور ان کے ساتھیوں کے سر تن سے الگ کرنے کی بہیمانہ کارروائیوں کا مقدمہ زیر سماعت ہے، ارشد پپوکے سر سے فٹ بال کھیلنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ ان مرنے والوں کی موت کا کوئی نشان باقی نہیں رہنے دیا گیا۔
ایک شام کو منی بس XB لیمارکیٹ سے آٹھ چوک کی طرف آرہی تھی، مغرب کی نماز ہوچکی تھی، قریبی مسجد سے پیش امام دعا پڑھ رہے تھے، میں منی بس کی اگلی نشست پر بیٹھا احمد شاہ بخاری روڈ گھر جانے کا منتظر تھا کہ اچانک منی بس شفیع بٹ کی رہائش گاہ سے دودھ اور مٹھائی کی دکان کے سامنے پہنچی تو چار گینگ وار کارندوں نے بس میں داخل ہوکر لوٹ مار شروع کی۔ اسی دوران مجھے ایک زور دار تھپڑ عقب سے پڑا، جب اس کارندے نے میری جیب ٹٹولی اور پیسے نکال لیے تو میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ میں سید ملنگ شاہ کا نواسا ہوں، میرا قصور کیا ہے تو مجھے مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر پہنچ کر جب میں نے اس واقعہ کا ذکر اپنے بھتیجے سے کیا تو اس نے ایک لڑکے کو ساتھ لیا موٹر سائیکل لے کر بغدادی کے ایک اڈہ پر پہنچا معلومات کیں تو ایک بلیک کارندہ نے انھیں بتایا کہ کرمنلز کی شناخت ہوسکتی ہے، شاہ صاحب کہاں ہیں۔ کچھ دیر بعد مجھے بلایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک سیاہ فام نوجوان نے مجھے تعظیماً پوری کہانی سنانے کوکہا تاکہ وہ واردات کرنے والے لڑکوں کے حلیوں سے ان کو پہچان لے۔
میری باتیں سن کر وہ دس منٹ کے لیے غائب ہوگیا پھر آکر اس نے کہا کہ شاہ صاحب وہ سارے لڑکے ہمارے ہیں۔ "تم بتاؤکہ ان کوکہاں لاکر سزا دی جائے" میں نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں، بس ان سے کہوکہ ایسا نہ کریں، عورتوں اور بزرگوں سے ان کی نقدی چھیننا، موبائل لوٹنا اور ان کی توہین کرنا بند کریں، میں چلا گیا۔ اب سنیے کچھ دن ہی گزرے تھے کہ مجھے بھتیجے نے یاد دلایا کہ جس سیاہ فام نے وارداتی لڑکوں کے بارے میں آپ سے بات کی تھی وہی تو آج کا کمانڈر جینگو ہے۔ مجھ پر حیرت کا پہاڑگرگیا۔ سینئر اسپورٹس رپورٹر رفیق بلوچ ایک رات ملے انھیں کلاکوٹ اور مجھے سیفی لین آنا تھا، لیکن لی مارکیٹ میں خوفناک سناٹا تھا، سڑک پر جگہ جگہ پتھر پڑے تھے، ٹائر جل رہے تھے، ہوٹلز بند تھے، کوئی آدم نہ آدم زاد، میں نے رفیق بلوچ سے کہا کہ "گھرکیسے پہنچوگے؟ میرا تو دو تین گلیوں کے بعد سفر ختم ہوجائے گا۔ "
ایک بار رات 11 بجے مجھے ایک کچھی لڑکا موٹرسائیکل پر بٹھا کرگھر لارہا تھا، میں جیسے ہی احمد شاہ بخاری روڈ پر اپنا بیگ لے کر موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ سے نیچے اترا تو ایک نئی نویلی 125 موٹر سائیکل پر سوار نوجوان کارندہ نے میرا راستہ روکا اور کہا کہ اس بیگ میں کیا ہے۔ کچھ لوگ میرے گھرکی بیٹھک کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے، اس کارندے کو جب معلوم ہوا کہ چاچا کو بابا لاڈلا جانتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے اس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی کہ میں سمجھا تھا کہ اس بیگ میں یہ کچھی لڑکا اسلحہ لے کر جارہا ہے۔ ایسے لاتعداد واقعات ہوئے جس میں لوگ مارے گئے، انھیں اغوا برائے تاوان کے لیے ٹارچر سیل میں بندکیا گیا، جینگو کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ چھوٹے بچوں کو شام کے وقت گھرکے سامنے بلاکر رقمیں بانٹتا تھا۔ مستانہ وار رقص بھی کرتا تھا، مذاق کی اس کو عادت تھی مگر اندر سے وحشی تھا۔
(جاری ہے)