جب اداکار محمد علی طیش میں آئے
1973-74 کا زمانہ ہے۔ اداکار محمد علی کا طوطی بول رہا تھا، فلم بینوں کی طرف سے انھیں "شہنشاہ جذبات" کا خطاب ملا تھا۔ ان کی ڈائیلاگ ڈیلیوری نے بڑے اسکرین کے شائقین کو دیوانہ بنا رکھا تھا، انتہائی شائستہ اور رحم دل انسان تھے، حیدرآباد ریڈیوکے بڑے فنکار تھے، مصطفی قریشی ان کے ہم عصر اور قریبی دوست تھے۔
قدرت محمد علی پر مہربان نکلی، وہ مردم خیز شہر حیدرآباد سے فلم نگرلاہور آئے۔ فلمی صنعت نے انھیں عزت، شہرت، دولت ہرچیز سے نوازا۔ وہ بلاشبہ فلم انڈسٹری میں تازہ ہوا کا جھونکا تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے برصغیر میں ہالی وڈ کے سپر اسٹارزکی ہو بہو نقل کرنے کا رجحان عام تھا۔ بڑے بڑے اداکار اس الزام سے نہیں بچ سکے۔
دلیپ کمار پر مارلن برانڈوکے طرزکی ڈائیلاگ ڈیلیوری کا بہتان لگا، ان پر گریگوری پیک کی اداکاری سے فیض اٹھانے کی باتیں ہوتی رہیں، اسی طرح ہمارے اداکار سید کمال سالہا سال تک راج کپورکہلوانے کے تاثرکو مٹانے میں مصروف رہے، اظہار قاضی کو پاکستانی امیتابھ کہا گیا۔
دیگر فلمی ستاروں کی شباہت اختیارکرنا، چال ڈھال، بالوں کا اسٹائل اور خاص طور پر مکالموں کی ادائیگی کے ضمن میں اخبارات میں یہ بھی دوڑ لگی رہتی تھی کہ کون سے اداکار کوکس انڈین ایکٹر یا ہالی وڈ اسٹار سے متاثر یا اس کا نقال کہا جائے۔ انڈین فلم انڈسٹری میں بھی بڑے اسٹارز پر باتیں ہوتی تھیں۔
محمد علی اگرچہ براہ راست کسی بڑے غیر ملکی اسٹارکی چربہ سازی یا نقالی کے غیر معمولی الزام سے بچتے رہے مگر ان کی اداکاری کے اسلوب کو فلمGone with the wind کے شہرہ آفاق اداکار کلارک گیبل سے مستعار لینے کی شعوری کوشش سے تعبیرکیا گیا، محمد علی نے بہرحال اس الزام کی ہمیشہ تردید کی۔
یوں بھی برصغیر کے اداکارانہ مزاج، روایت، میتھڈ اور تکنیک پر نظر ڈالی جائے تو اس موضوع پرضیا محی الدین کی اتھارٹی ماننا پڑے گی، کیونکہ ہندوستان کے تھیٹر کی تاریخ، پارسی سیٹھوں، ساہوکاروں کے لائے ہوئے نوٹنگی تماشوں اورآغا حشر کے بلند آہنگ اسٹیج ڈراموں میں ان کے بقول زور دار مکالموں کی آسماںگیر مسابقت کا سماں تھا۔
ولن سارے بدمعاش تو تھے ہی مگر بولنے کے فن میں وہ ہیرو سے بھی دو قدم آگے تھے۔ محمد علی کی آمد سے اداکاری کے معیارکی سبقت میں احساسات کی اہمیت نے اپنا کردار ادا کیا، ولن اور ہیروکے مابین مکالموں کی شدت، چہرے کے تاثرات کو پیتھالوجیکل ہپناٹزم سے دور رکھنے کی صائب کوششیں ہوئیں، اسلم پرویز پاکستانی ولنز میں پہلا اداکار تھا جس نے ایک خوبصورت نوجوان ولن کے روپ میں نیا انداز متعارف کرایا، اس نے خبیث انسان کے فلمی تصور سے الگ رہتے ہوئے سماج کے ایک برے آدمی کا رول پیش کیا۔
فلمی کرداروں کی اس نفسیاتی قلب ماہیت میں بعض ذہین اور ذمے دار ہدایت کاروں اور فلم سازوں نے اہم کردار ادا کیا، باقیوں نے جہاں فلم انڈسٹری میں طوائف الملوکی مچائی، تشدد، ہیجان انگیز ناچ گانوں سے کہانی کا چہرہ بگاڑا، وہاں شوکت حسین رضوی، انور کمال پاشا، لقمان، مسعود پرویز، شباب کیرانوی، پرویز ملک، ایس سلیمان، منشی دل، ایم جے رانا، دلجیت مرزا، سیف الدین سیف، خلیل قیصر، اسلم ایرانی، جعفر بخاری، اسلم ڈار، اقبال کشمیری، الطاف حسین، سید نور، یونس ملک، حسن عسکری، سنگیتا ودیگر نے فلموں میں مقصدیت کے ساتھ ڈرامہ، کشمکش، تصادم اور تکنیک ومیتھڈ کا خوبصورت امتزاج پیش کیا۔
محمد علی اور زیبا کی جوڑی فلمی صنعت میں مثالی سمجھی جاتی تھی۔ محمد علی نے 1966 میں ہمایوں مرزا کی فلم "آگ کا دریا " میں ایک ڈاکوکا کردار ادا کرکے اینگری ینگ مین کا پہلا فلمی باب کھولا۔ دلیپ کمار کی فلم " آگ کا دریا" بھی پندرہ سال کے تعطل کے بعد ریلیز ہوئی۔ دلیپ اور محمد علی دونوںکی شخصیت فلم انڈسٹری کے وقار میں اضافہ کا سبب بنی۔ زماں و مکاں کا فرق البتہ واضح تھا۔ محمد علی نے فلمی سکینڈلز سے بالاتر رہتے ہوئے فلمی صنعت کی خدمت کی، اسی طرح دلیپ کمارکا شمار انڈین فلم انڈسٹری میں ایک سنجیدہ، مایہ ناز اور فلسفی اداکارکے طور پر کیا جاتا ہے۔
وہ ٹریجیڈی کنگ کہلائے۔ آج کل عمر عزیزکی آخری اننگزکھیل رہے ہیں، اللہ انھیں مودی کے فاشسٹ بھارت میں وقار سے اپنا فلمی اور انسانی باب مکمل کرنے کا موقع دے۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوںکے لاشعور میں ہو گی کہ انڈین مسلمانوں کے لیے دلیپ کمارکی موجودگی ان کے لیے ایک دیوار ثابت ہوئی، دلیپ نے اپنے فن اور سوچ و انسانی خدمات سے بھارتی سیاست کو کبھی یہ موقع نہیں دیا کہ انھیں کوئی تعصب کی دیوار سے لگائے۔ کسی وزیر اعظم یا لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیم کو ایسی مہم جوئی کی ہمت نہیں ہوئی، ان کا پورا فلمی کیریئر، ایک مسلمان اداکار کے طور پر بے داغ رہا، ان کی فلمی زندگی رومان انگیز تھی، مگر اس میں بھی وہ اپنے ہم عصروںکے ساتھ وقار اور سنجیدگی سے انسانی تعلقات کی منفرد تاریخ لکھتے رہے۔ پاکستان میں انھوں نے صرف کرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین کو انٹرویو دیا جس پرکراچی کے شام کے اخبارات نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔
پاکستان کے فلمی صحافیوں نے ایک بار محمد علی کے صبر و تحمل کو چیلنج کیا، اور وہ اپنی کسر نفسی اور عجز کی روایت سے ہٹ کر مشتعل جذبات کی رو میں بہہ گئے۔ یہ واقعہ کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پیش آیا۔ اس وقت شرکائے تقریب فلمی اداکارہ و ہدایت کارہ میڈم زینت کے مہمان تھے، ان کی کراچی میںفلم ریلیز ہوئی تھی، اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ تھے، جو عدم فرصتی کے سبب شریک نہیں ہو سکے تھے، اور مہمان تقریب شروع ہونے کا بے چینی سے انتظارکر رہے تھے، اسی تقریب میں فلمسٹار محمد علی کو بطور خاص شرکت کرنا تھی، فلمی صحافی بڑی تعداد میں موجود تھے.
ان میں روزنامہ مساوات کے فلم پیج کے انچارج شمیم عالم اپنے فوٹوگرافر زاہد حسین کے ساتھ محمد علی کی آمد کا انتظار کر رہے تھے، کافی وقت ہو چکا تھا، اچانک محمد علی نے انٹری دی، وہ کمال بے نیازی سے سیدھا ڈائس کی طرف جانے لگے مگر شمیم عالم نے احتجاجاً ان سے سوال کیا۔ "کیا یہ آنے کا وقت ہے؟" دو چار سخت جملے بھی کہے، سنا ہے کہ محمد علی نے ڈائس سے پلٹ کر شمیم عالم کا رخ کیا اور آتے ہی ایک زوردار پنچ شمیم عالم کے رسید کر دیا۔ پھر لڑائی شروع ہوئی، زاہد حسین نے کیمرہ محمد علی کی پیٹھ پر مارا اس ہنگامہ آرائی میں شمیم عالم کا ہاتھ زخمی ہوا، پھر سب نے مل کر بیچ بچاؤ کرا دیا، تقریب بدمزگی کا شکار ہو گئی، اداکارہ زینت اپنے ساتھ آئے ہوئے مہمانوں کو لے کر رخصت ہو گئی، معاملہ سول لائنز تھانے پہنچا، پرچہ کٹا، وزیراعلیٰ ہاؤس کو اطلاع دی گئی اور سین دوسرے دن کے لیے کٹ ہو گیا۔
اگلے دن میں روزنامہ مساوات پہنچا تو شمیم عالم کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی، خبر چھپ چکی تھی، احفاظ الرحمن اسسٹنٹ ایڈیٹر مساوات تھے، میگزین بھی ان کی نگرانی میں ترتیب پاتا تھا، مجھے ہدایت ملی کہ سنڈے فیچر کے لیے محمد علی پر میرا تجزیہ جائے گا۔ شوکت صدیقی ایڈیٹر جب کہ شہزاد منظر طاہر احمر اور ذکی حسن ادارتی ٹیم کے رکن تھے، شمیم عالم کے ساتھ سب ایڈیٹر اسلم شاہد بھی تھے۔ اسلم شاہد نے بتایا کہ محمد علی پر مضامین کی سیریز جائے گی۔ میرا پہلا فیچر چھپا، اس کے بعد دوسرا مضمون اور پھر تیسرے پوسٹ مارٹم فیچرکے ساتھ ہی ڈنڈا چل گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو بیگم بھٹو کا پیغام ملا، وہ خبروں اور مضامین پر سخت برہم ہوئیںچونکہ فلم اسٹار محمد علی پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے بانی رکن تھے۔ شوکت صدیقی نے مجھے منع کیا کہ مزید مضامین مت لکھیں۔ مگر پولیس کارروائی جاری رہی، محمد علی جب کراچی آئے تو فلمی اخبار ’نگار" کے مدیر الیاس رشیدی اور دیگر فلمی نامہ نگاروں کی کوششوں سے ایک اجلاس منعقد ہوا.
مجھے شمیم عالم اور نسیم شاد نے بتایا کہ محمد علی آپ پر سخت برس رہے تھے، فلم اسٹار محمد علی نے اپنے خلاف لکھے گئے مضامین کو توہین آمیز قرار دیا، لیکن وہ کراچی مساوات کے دفتر نہیں آئے، تاہم محمد علی نے فلم ایشیاکے مینیجنگ ایڈیٹر منیر حسین سے شکایت کی کہ نادرشاہ عادل نے بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانے کا رول ادا کیا، ان کا اس پورے افسانے میں کوئی ذکر نہ تھا، اس تقریب میں نہیںآئے تھے، لڑائی سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا مگر مضامین کے انبار لگا دیے۔ بعد میں جب میں نے عارضی طور پر اخبار وطن اور فلم ایشیا کی ادارت سنبھالی تو ایک دن محمد علی نے منیر حسین کے سامنے مجھے بلایا۔
میں نے بصد ادب صورتحال کی وضاحت کی اور ان سے معذرت بھی کی، محمد علی ٖکا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ علی صاحب کو لوگ پیار سے "بھیا " کہتے تھے۔ محمد علی کو دکھ تھا کہ ان سے منسوب اشعار کسی صورت قابل معافی نہ تھے۔ مذکورہ مضامین میں وہ اشعار مجھ تک کسی ذریعے سے پہنچائے گئے، اہل صحافت جانتے ہیں کہ پلانٹڈ اسٹوری، تصویر یا سوال ان بے چہرہ عناصر کی طرف سے کسی صحافی یا فوٹو گرافر کو دیا جاتا ہے جو خود پس پردہ رہتے ہیں اور کسی کے کاندھے پر بندوق رکھ کر اپنا مقصد پورا کرتے ہیں، کل بھی ایسا ہوتا تھا اور آج تو صدر ٹرمپ کے نزدیک پوری امریکی صحافت اور الیکٹرانک میڈیا جعلی اور فیک صحافیوںکا نیلام گھر بنا ہوا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں تو شاید ٹھیک ہی کہتے ہونگے، مگر صحافتی اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ پلانٹڈ سوال، تصویر، اشتہار، خبر، تجزیہ یا تبصرہ کسی طور قبول نہ کیا جائے، یہ سب سے بڑی صحافتی بد دیانتی ہو گی۔ ایسے پلانٹڈ میٹیریل سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔