دختر صحرا ریشماں کی کتھا
مشہور لوک گلوکارہ، دختر صحرا ریشماں کو دریافت کرنے کا سہرا غالباً نامور براڈکاسٹر سلیم گیلانی کے سر جاتا ہے جو ان دنوں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے، لیکن ریشماں کا پہلا اخباری انٹرویو 1971میں روزنامہ "مشرق"میں شایع ہوا، اس انٹرویو کو لے اڑنے کی وارادت مجھ سے کراچی میں سر زد ہوئی، چنانچہ صحافتی مسابقت اور اسکوپ کی کہانی بھی دلچسپ وخاصی سسنسنی خیز رہی۔
ان دنوں سینئر صحافی نسیم شاد فلمی صفحہ کے انچارج تھے اور ان کا لاہور ٹرانسفر ہوا تھا، میں کراچی سے بطور سٹرنگر انھیںفلمی مضمون، ہالی ووڈ کے کسی اسٹار کا ترجمہ، کراچی کے فلم اسٹوڈیوز کی ہفتہ وار ڈائری، ٹی وی تبصرہ اورکچھ فلمی خبریں پیکٹ میںبند کرکے پی آئی اے کارگو کے ذریعے لاہور بھیجا کرتا تھا۔
ایک دن صبح مشرق کے دفتر پہنچا تو ریزیڈنٹ ایڈیٹر ارشاد احمد خان نے بلایا اور کہا "نادر ! ایک بڑی خبر ہے، نیچے ہفت روزہ "اخبار خواتین"کے دفتر میں گلوکارہ ریشماں انٹرویو دینے آئی ہیں، تم بھی اس سے انٹرویوکی کوشش کرلینا، اچھا موقع ہے، کسی نے اب تک ان کا انٹرویو نہیںچھاپاہے۔ یاد رہے ہفت روزہ "اخبار خواتین"ان دنوں پاکستان میں خواتین کا ہردلعزیز رسالہ تھا، اس کی ایڈیٹر سینئرصحافی فرہاد زیدی کی اہلیہ مسرت جبیں جب کہ ادارہ تحریر میں شمیم اختر، شین فرخ کے علاوہ دیگر معتبر خواتین جرنلسٹس شامل تھیں، حمیرا اطہر بھی اس قافلہ میں شریک ہوئیں، وہ سب کی سب ایم اے تھیں۔
اخبار خواتین کا دفتر مشرق سے نچلی منزل پر تھا۔ میں مشرق کی ایک تنگ سی گلی سے گزرکو اخبار خواتین کے کچن کے قریب آیا، حسن اتفاق سے اخبار خواتین کا نائب قاصد لیاری کا ایک سادہ وشریف النفس نوجوان فقیر محمد بلوچ تھا، شاہ بیگ لین میں اس کی رہائش تھی، میری ان سے اچھی سلام دعا تھی، ان سے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ خاموشی سے ریشماں کا پتا چلاؤ، تاکہ میں بھی ان سے بات چیت ریکارڈ کرلوں، وہ ہنسا اورکہنے لگا آپ چائے پیئیں میں اندر دیکھ کرآتا ہوں، فقیر محمد نے جاسوسی کے انداز میں آکر بتایا کہ ان کا انٹرویو ہو رہا ہے، اب ایسا ہے کہ جب وہ گفتگو ختم کرکے دفتر سے باہرآئیںگی تو آپ جلدی سے ان سے بات کرلیں اور مشرق کی سیڑھیوں سے انھیں دفتر لے آئیں۔
منصوبہ مکمل ہوگیا، میں انٹرویو کے دی اینڈ کا انتظارکرنے لگا، تھوڑی دیر بعد فقیر محمد نے اشارہ کیا کہ آپ گلی کے کونے میں کھڑے ہو جائیں، ریشما ں بس آنے والی ہیں، یوں میں نے دخترصحرا کا استقبال کیا اور جلدی سے انھیں بتایا کہ آپ کا کام ابھی ختم نہیںہوا، دوسرا انٹرویو ابھی آپ سے مجھے کرنا ہے، چند منٹ ہمیں بھی دے دیں، وہ سادہ سی بنجارن لڑکی تھی، ان کے ساتھ ایک آدمی بھی تھا، میں ریشماں کو لے کر مشرق کے دفتر اوپر آیا، اخبارات کے دفاتر میںصبح کے وقت کوئی چہل پہل اور رونق نہیںہوتی، میں نے ریشماں کے لیے جلدی سے ٹیبل کرسی کا انتظام کیا اور خود سامنے بیٹھ کر ان سے سوالات شروع کردیے۔
مجھے قطعاً اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ وہ کمرہ علی اختر رضوی صاحب کا ہے جو مشرق کے دبنگ چیف رپورٹر تھے، لہذا ابھی سوالات چل ہی رہے تھے اور ریشمان اپنے ابتدائی دنوںکی درد ناک غربت اوردر بدری کے قصے سنارہی تھیں کہ رضوی صاحب آگئے، میری ان سے براہ راست کوئی ملاقات نہ تھی، میں جونئیر رپورٹر اور جاب کی تلاش میں تھا، انھوں نے میری کلاس لے لی، ریشماں بھی پریشان کہ ہوا کیا ہے، میں نے معذرت کی اور منت سماجت کے بعد مجھے جلدی سے انٹرویو مکمل کرنے کی اجازت مل گئی، بعد میں ارشاد احمد خان نے بھی رضوی صاحب کو بتایا کہ نوجوان رپورٹر مشرق ہی کے سینئر رپورٹر اسرار عارفی کے صاحبزادے ہیں، پھر خطاط مبارک رقم نے مجھے انٹرویو کی تکمیل میں مدد دی، ریشماں سے بات کرنے کے بعد میں انھیں نیچے سڑک پر چھوڑنے آیا، ان سے ایڈریس لیا تاکہ انھیں اطلاع کردوں کہ انٹریو کب چھپے گا۔
ابھی کہانی ختم نہیںہوئی، اس میں نیا موڑ آگیا، ہوا یہ کہ میں نے نسیم شاد کو لاہور فون کیا کہ ریشماں سے میں نے انٹرویو کرلیا ہے، اس کا کیا کرنا ہے، نسیم شاد خوش ہوئے، سوال کیا کہ تصاویر بنوا لی ہیں، میں نے کہا جی ہاں اقبال زیدی یا فدا حسین نے فوٹوگرافی کی تھی، نسیم شاد نے حکم دیا کہ ابھی بیٹھ کر انٹرویو ٹرانسکرائب کرو اور شام والے کارگو پیکٹ سے جلدی بھیج دو۔ میں نے انٹرویو مکمل کیا تصاویر جمع کیں اور پیکٹ بھیج دیا۔ ہفتے کادن تھا، اتوار کا دن گزرا، پیرکو مشرق کے فلمی صفحہ پر فل پیج انٹرویو شایع ہوگیا۔ ریشماں کی بڑی سی کٹ آؤٹ تصویر نے لے آؤٹ کا حسن ہی دو بالا کر دیا تھا۔
مگر دن اچھا نہیں گزرا، کیونکہ فقیر محمد سے معلومات لے کر اخبار خواتین سے سینئر صحافی امداد نظامی مجھے ڈھونڈھنے میں کامیاب ہوگئے، مجھے انھوں نے بھی خوب ڈانٹا جو ان کا حق بھی تھا، امداد نظامی سرائیکی بیلٹ کے دانشور تھے، ریشماں کا انٹرویو کرانے میں ان کی کوششیں شامل تھیں، نظامی صاحب کو رنج اس بات کا تھا کہ ریشماں کا انٹرویو ہم نے ہفتہ وار میگزین اخبار خواتین کے لیے خصوصی طور پر لیا ہے، اور یہ بیچ میں کود پڑے، ابھی تو ریڈیوسے ریشماںکاگیت "ہایو ربا نئیوں لگدا دل میرا " براڈ کاسٹ ہوا تھا اور اس کی دھوم مچ گئی تھی، ایسی درد میں ڈوبی ہوئی سحر انگیز آواز بھلا کب کسی نے سنی تھی، اسی لیے امداد نظامی کے سامنے میں بھیگی بلی بن کر کھڑا رہا، ریشماں کے انٹرویو نے بڑی شہرت پائی۔ ریشماں کو میں نے اطلاع دی تو بہت خوش ہوئیں، اس وقت انھوں نے ناظم آباد میں عارضی سکونت اختیارکرلی تھی۔
ریشماں نے انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ 1947 میںپیدا ہوئی، ان کی پیدائش راجستھان کی تحصیل رین گڑھ ضلع بیکانیر میں ہوئی، اس کا تعلق ریلوے سٹیشن کے قریب کسی گاؤں سے تھا، اس کی روزی روٹی ٹرینوں پر دوران سفر لوک اور راجستھانی گیت سنانے سے وابستہ تھی، ریشماں نے بتایا کہ وہ بچپن سے گانے گاتی تھی، ماں اسے آگے رکھتی کیونکہ آواز میں بلا کی معصومیت اور حلاوت تھی، بڑی پر سوز آواز تھی، اس کی پیشانی پر زخمٕ کا ایک نشان بھی تھا، اس کی آنکھیں ہلکی نیلی اور مستقبل کے خوابوں سے لبریز تھیں، اپنے گاؤں، گلوکاری اور گھر والوں کی تفصیلات بتا رہی تھی، سلیم گیلانی نئے ٹیلنٹ کے لیے کولمبس کی سی شہرت رکھتے تھے۔
گیلانی صاحب کو ریشماں سہون شریف میں قلندر شہباز کی درگاہ میں نظر آگئیں، لال مری پت رکھیو بھلا جھولے لالن، سہون دا شہباز قلندر" سنا، پھر دوسرے گیت سنے اور انھیں راضی کرکے کراچی لے آئے۔ ریشماں کا پہلا گیت جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا وہ "ہائیو ربا نئیوں لگدا دل میرا " تھا۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان اور ریڈیو سیلون سے انڈین فلمی گانوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اس لیے ریشماں کی منفرد و مدھر آواز نے ریڈیو کے سامعین کو چونکا دیا۔
جوں جوں دن گزرتے گئے، ریشماں کی مقبولیت بڑھتی گئی، اس کے چند لوک گیتوں نے تو دل پھینک عشاق کو بہت بے آرام کیا۔ مثلاً اس کے گیت کسے نین نا جوڑیں، وے میں چوری چوری تیرے نال لا لیا انکھاں وے، نہ دل دیںدی بیدردی نوں، لمبی جدائی، میری ہمجولیاں اور بیشمار راجستھانی گیت۔ ریشماں کو عوام، اشرافیہ اورفلم و شوبز میڈیا نے اس وقت تک پلکوں پر سجائے رکھا جب تک ان کی رس بھری آواز دلوں کو لباتی رہی۔ حکومت نے انھیں ستارہ امتیاز، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی، میڈلز، اسناد، نقد رقوم اور مراعات سے نوازا۔ بھارت میں ان کی پذیرائی ہوئی، لتا سمیت بڑی گلوکاراؤں اور سیلیبریٹیز سے ان کے مراسم استوار ہوئے، ریشماں کو بھارتی حکومت نے شہریت اور سکونت کی پیشکش بھی کی، ریشماں نے معذرت کی۔
بہرحال ایک حقیقت ریشماں نے اظہر من الشمس کردی کہ ایک طرف موسیقی کے زرکثیر سے قائم ادارے، کنسرٹ، آلات اور اکیڈمیز اور بے سری لڑکیاں ہیںاور دوسری طرف ایک بنجارن کی صحرا سے ابھرنے والی تنہا آوازہے جسے فطرت نے سب پر بھاری کردیا۔
ریشماں سے تھوڑی سی بھول بھی ہوگئی، جو ہر ابھرتے فنکار سے ہوتی ہے، سنا گیا کہ کئی میوزک ڈائریکٹرز نے انھیں اپنا دیہی اور صحرائی، ردھم، لے، لہجے اور سر میں تکنیکی " ترامیم " لانے کے لیے کہا، ایسا کچھ کمرشل ازم کی وجہ سے ہوا ہوگا، ریشماں نے ان کی دلجوئی کی خاطر اپنے طرز میں تبدیلی بھی کی، ان سے غزلیں سنی گئیں، ماہیے گوائے گئے، ریشماں نے ہیر بھی سنائی، سوز کی تو وہ ملکہ تھی مگر یار لوگوں نے ایک ماڈرن ریشماں لانے کی اپنی سی بہت کوشش کی لیکن ریشماں کا فطری اور پیدائشی رنگ اپنا اوریجنل تخلیقی ساخت بدل نہ سکا۔
بعد کے دن ان کی زندگی کے اذیت ناکی کے لمحوں سے عبارت تھے۔ بیماری نے اس کے سرکے آشیانے میں جگہ بنالی، کینسر نے حلق کو متاثرکیا، بہتیرا علاج کیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ریشماں رفتہ رفتہ افق موسیقی سے غائب ہونا شروع ہوئیں، اہل دل نے کوشش تو بہت کی کہ زخم جگر کے ساتھ بھی ان سے سوز میں ڈوبے ہوئے نغمے سنے جائیں مگر جب انسان کے لیے سانس لینا مشکل ہو جائے تو اسے بلبل صحرا کہہ کرکچھ فرمائش کرنا کہاں کی دانائی ہے۔
ہماری اس دختر صحرا نے نومبر 2013 میں دنیا سے منہ موڑلیا، اور لاہور میں چپکے چپکے "وے میں چوری چوری تیرے نال لالیاں اکھاں وے "کہتے ہوئے ابدی نیند سوگئیں۔