چل بلھیا.... انشا جی اٹھو
میڈیا سے برس ہا برس کی بے منزل وابستگی بعض اوقات بڑے کٹھن سوالات اٹھا دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آدمی اپنی ذات کی نفی کر رہا ہے یا یہ کہ تجربات وحوادث کی شکل میں میڈیا نے جو کچھ دیا اسے زمانے نے خود اپنی دست برد سے محفوظ نہیں رکھا، افراط وتفریط کی نذرکردیا ہے۔ ایک زمانہ تھا پرنٹ میڈیا کا سحر غالبؔ کا یہ شعر گنگنانے پر مجبور کرتا تھا۔
اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بسر انداز
آج ہمیں اہل صحافت کے سینئر لوگ باورکراتے ہیں کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں۔ بڑی دھول پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے۔ صحافت کہاں ہے؟ سر! آپ مشن، آدرش، نصب العین اور سماجی نظریہ کی بات کرتے ہیں، وہ زمانے لد گئے جب کسی درد مند صحافی کے قلم سے ایسا فقرہ نکلتا تھا کہ میں صحافی اس لیے بنا کہ دنیا سے میری قربت دل سے قریب تر ہو۔ اسی پائے کے کسی جرنلسٹ نے صحافت کا اصل منشور پیش کردیا کہ " سچ کو پاؤ تو اسے چھاپو " آج بعض نامور قلم کاروں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو یہ کہتے سنا کہ دل میں اب وہ طاقت کہاں کہ کوئی ٹی وی ٹاک پرائم ٹائم میں سنے اور وحشت زدہ نہ ہو، اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں۔ یاد آتا ہے جب صحافتی زینہ پر چڑھے اور اس کے اسرار ورموز سیکھنے کے دن تھے تو ایک ادیب نے کہا کہ فکر تعصب زدہ نہ ہو تو ہر لفظ تہذیب میں گندھا ہوا لگتا ہے۔
سنجیدہ اور شائستہ سیاسی مکالمہ کو آپ نری بیان بازی سے جلد الگ کرلیں تو مناسب ہے، اخباری بیان کے بارے میں بھی فرض کرلیا جاتا تھا کہ انداز بیاں سے خالی نہیں ہوگا، ماضی کے مراسلات بھی مقالے سمجھ کر اخبارات کو بھیجے جاتے تھے، مگر سیاست اسفل ترین سطح تک پہنچی تو زبان بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا۔ لب ولہجے بگڑ جائیں، بات ذاتیات، کردارکشی الزام تراشی اور بد زبانی تک پہنچ جائے تو سیاست میں کسی برطانوی مدبر statesman ایڈمنڈ برک کی توقع کیوں؟ ماہر اسلوبیات کہتے ہیں نثر اچھی ہو تو ادب وصحافت کی کھیتی سرسبز رہتی ہے، شعر روح عصرکا ترجمان ہو تو ذہن کی تازگی دوچند ہوجاتی ہے، وہی تہذیب فیصلہ کرتی ہے کہ کون سا شاعر اپنے عہد سے بلند تر سوچتا ہے۔
اگر سارے تک بند ایک جگہ جمع ہوجائیں توکوئی سخنوراچھا سہرا کیوں کہے۔ غالب کا اس گلی سے گزرکیسے ممکن ہو، ہم سے بزرگوں نے کہا کہ لائبریری میں جانے کا اصول یہ ہے کہ چپ چاپ ہال میں داخل ہوں، ایک کتاب اور نوٹ بک لے کر میز پر بیٹھ جائیں۔ الفاظ کی کائنات سے رشتہ جوڑ لیں۔
تاریخ، سماجیات، معیشت، سیاست، منطق ادب اور فلسفہ کا کوئی موضوع منتخب کرلیں، مسولینی کی بایوگرافی پڑھ لیجیے، نیلسن منڈیلا کی خود نوشت سوانح حیات کتاب ہاتھوں میں تھامئے، چلیے ہٹلرکی آپ بیتی پر نظر ڈالیے، جولیس سیزر، نیپولین بونا پارٹ کی تقریروں، جان اسٹورٹ مل اور جان ایڈمزکے افکار سے آشنا ہوجایئے، کسی پارلیمانی دانشورکی پارلیمنٹ میں بحث کی ورق گردانی کر لیجیے، قانون واخلاق اور استدلال کے حوالہ سے باریک بینی کے ساتھ آئینی نکات اٹھائے پارلیمنٹیرینز حقوق و فرائض پر تقریرکرتے نظر آئینگے، مجھے ان دنوں بتایا گیا کہ مسلم لیگ کے سنجیدہ ماہر قانون حسن اے شیخ کو معمولی انسان نہ سمجھیں، وہ بہت عظیم سوچ اور منطق واستدلال کے آدمی ہیں۔
مگر شومئی رپورٹنگ اور فیچر کے کسی مرحلہ میں مسلم لیگ کی پوری معلوم پارلیمانی تاریخ میں انھیں صحافیوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ موجودہ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی بونوں کی حکمرانی ہے، بقول جوشؔ لب ناقصان ہنر طعنہ زن۔ جہاں تک اہمیت کو گھٹانے کی بات ہے تو اس میں حضرت جوشؔؔ کے ساتھ بھی یاران با وفا نے کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے، لیکن ایک آواز بار بار آئی کہ اقبالؔؔ، فیضؔ، میرؔ، غالبؔ، حالی کے ساتھ ساتھ جوشؔؔ ملیح آبادی کو ضرور پڑھیں، جوشؔؔ کی ڈکشن صحافتی تحریر کو ادبی حسن سے مالا مال کردے گی، آپ کا تعلق میر انیسؔ، کے شعروں کی فصاحت سے جڑ جائے گا، ایک بار تو مجھے پابند کیا گیا کہ "سوداگروں سے خطاب" کو ازبر کروں۔ سوکرکے دیکھ لیا۔ آپ بھی چند بند ملاحظہ فرمائیں۔
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر بھیڑیا ہے بھیڑیا
بھیڑئیے کو مار دو گولی پئے امن و بقا
باغ ِانسانی میں چلنے ہی کو ہے باد خزاں
آدمیت لے رہی ہے ہچکیوں پر ہچکیاں
ہاتھ ہے ہٹلر کا رخشِ خود سری کی باگ پر
تیغ کا پانی چڑھا دو جرمنی کی آگ پر
کیا روانی ہے، کس انقلاب کی گھن گرج ہے، اردو زبان کا کیسا حسن ِ لازوال ہے۔ اپنی ہی تاریخ ہند کا حوالہ ہے، جوشؔؔ کا جوش خطابت ہے، ہم نے بطور صحافی زبان کی اس تدریس میں اپنے استادوں سے مدد لی، کسب فیض کیا، ہمیں تو فلمی اخبارات کے کاتبوں نے درست املا اور انشا پردازی کے رازوں سے آگاہ کیا، والد محترم بھی خوش نویس اور صحافی تھے، بچپن میں اپنی آنکھوں سے انھیں مسلسل کتابت کرتے دیکھا، پھر انھیں شاعری، خبریں، مضامین اور انگریزی سے اردو میں بیشمار مضامین کے ترجمے کرتے دیکھا، سینئر منع کرتے تھے کہ جلدی مت کرو۔ مطالعہ پر توجہ دو۔
میڈیا سے شناسائی کاؤ بوائے فلموں سے ہوئی، پھر تاریخی فلموں کا دور آیا۔ تھیٹرکا پاکستان میں ویسا عروج نہیں دیکھا جو براڈوے یا دیگر جرمن، فرنچ، برطانوی اور اطالوی اسٹیج کے شایان شان نظاروں سے مرصع تھا، اپنے لوکل اسٹیج پر جگت بازی دیکھی، متوازی سینما کو سہارا نہیں ملا، ایک حالیہ ٹی وی ڈرامہ کو دس ناموں سے دیکھنا کوئی فریش اور بلیغ تجربہ نہ تھا، پرانا پی ٹی وی ڈرامہ اپنی نصابی وحدت اور اسکرپٹ کی مضبوطی سے کبھی الگ نہیں ہوا، مارشل میکلوہن کا یہ کہنا کہ medium is the message بدستور ٹی وی کی نسبت فلم اسکرین سے زیادہ موثر پیغام رساں ثابت ہوا، لیکن مسئلہ وہی ہے جس پر مصطفیٰ زیدی نے کہا کہ "شعلہ جس نے مجھے پھونکا، مرے اندر سے اٹھا۔ " نئی نسل کے صحافیوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ہاں البتہ اس spark کی آرزو ہے جس سے فن کی ہے خون جگر سے نمود۔
لیکن اتنی تاریخ ساز جدوجہد کے باوجود پرنٹ میڈیا کی موت کے افسانے گلی گلی سنائے جانے لگے ہیں، اہل صحافت نے ہاتھ اٹھا دیے کہ لفظ بے جان اور اپنی حرمت کھو بیٹھا ہے، قاری نے اخبار اورکتاب پھینک کر اور یہ کہہ کر انسٹا فون اور دیگر مواصلاتی گیجیٹس اور ڈیوائسز اپنا لیے کہ بس تم ہی تو ہو۔
ادھر آئیے۔ روایتی فلم کے مقابلہ ٹی وی آیا، فلم میں اینٹی ہیرو لینڈ سکیب نے اظہار جذبات میں اداکاری کی نئی تخلیقی عہد کا آغاز کیا۔ ملکی فلمی صنعت نے ترقی کی مگر لیکن مربوط دھرتی سے جڑا کوئی قومی فلم کلچر جنم نہ لے سکا، بے ہنگم فلم سازی میں صوبے میڈیا کے بڑے اسکرین کے طلسم کو نہ سمجھ سکے، پہلے علاقائی فلموں کا سقوط ہوا، سندھی، پشتو فلموں نے دم توڑا اور پنجابی فلموں کا آخری دھارا سلطان راہی ازم پر بے دم ہوکرگر پڑا۔ کمرشل سینما نے ٹیلنٹ کے انبار تولگا دیے، نجی ڈرامہ پروڈکشن کی شرح نمو نئی نسل کی صلاحیتوں سے جڑی ہوئی تھی، کئی باصلاحیت ہیروئنیں اور ہیرو سامنے آئے، لیکن ہمیں اپنا کوئی مارلن برانڈو اورکوئی الپچینو نہیں ملا، کوئی صوفیہ لورین اور ایلزبتھ ٹیلر جیسی بڑی اداکارہ اپنا سحر قائم نہیں کرسکی۔
پاکستانی فلم انڈسٹری کے نصیب میں کوئی ڈیوڈ لین بھی نہیں آیا۔ جب کبھی بحث چھڑی تو اداکار، ہدایت کار، فلم پروڈیوسرزاور ٹی وی پروڈکشن کے ذہین لوگوں نے یہی شکایت کہ سرمایہ اور وسائل دو تو مارلن برانڈو لو۔ جب کہ کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ ہمارے اندرکا وحشی چینل معاشرہ کو دھماکے سے اڑانے پر بے چین ہے، کسی پل چین سے رہنے نہیں دیتا۔ بظاہر چینلزکی بہار آئی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر رائے منقسم ہے مگر سچ اور جھوٹ کے دس مرحلے سیاست اور صحافت کو ایک دوسرے سے الگ کردیتے ہیں۔
استاد نثار احمد زبیری نے ایک مقالہ میں لکھا تھا کہ آج کل پریس 9طریقوں سے کاربند ہے، جو یہ ہیں، یعنی فرد کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ٕ، شہرتوں کو داغدارکرتے ہیں، خبر حاصل کے لیے فریب دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حکومت اور تجارتی طبقے پر غیر ضروری نکتہ چینی کرتے ہیں، پریشان کن خبروں کے تواترکے ساتھ خوش کن خبروں کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی اہمیت پر مصر رہتے ہیں، خبروں کو سنسنی خیز بناتے ہیں، افواہوں اورگپ بازی کو اعتبار عطا کرتے ہیں، کسی قضیہ میں فریقین کی پیٹھ تھپک کر جھگڑا کرتے ہیں، اپنی غلطیوں کی واضح تصحیح سے دامن بچااتے ہیں۔ کہنے کو یہ چارج شیٹ ہے، صرف اخبارات کے خلاف نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ذرایع ابلاغ اسی طریقہ کار پرکاربند ہیں۔ ان سے اختلاف کی گنجائش ہے۔
ہمارے ایک سینئر صحافی شرطیہ اورکسی سنکی بیوروکریٹ کے انداز میں کہتے ہیں کہ ساری صحافت اخلاقی طور پر غیبت کے زمرے میں آتی ہے، پرائیویسی کو غارت کرتی ہے، نام اس کا یار لوگوں نے احتساب رکھا ہے۔ غالبا یہی وجہ ہے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا،
چل بلھیا چل اوتھے چلیے، جتھے وسن سارے انے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں منے
دیر کس بات کی اپنے انشا جی سے بھی کہتے ہیں،
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو