شہباز شریف کی سیاسی سفارتکاری
آج میاں شہباز شریف اپنے بھائی میاں نواز شریف کو تحریک انصاف اور عمران خان کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کا بوجھ حکومت نے خود ہی اپنے سر پر نہیں لیا۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شہباز شریف نے اپنی حکمت عملی سے حکومت کو ایسی بند گلی میں کھڑا کر دیا تھا کہ ان کے پاس بھی کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ عمران خان نہ نواز شریف کو روکنے کی پوزیشن میں تھے اور نہ ہی جانے دینے کی پوزیشن میں تھے۔ ان کے لیے دونوں طرف ہی سیاسی کھائی تھی۔ جب کہ شہباز کے لیے دونوں طرف جیت ہی جیت تھی۔
نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان پہلا ایسا معرکہ تھا جس میں عمران خان کو شکست ہوئی ہے۔ آپ دیکھیں اس پہلے معرکہ میں عمران خان سیاسی طور پر نہ صرف چاروں شانے چت نظر آئے ہیں بلکہ ان کی حکومت کے پاؤں بھی اکھڑتے نظر آئے ہیں۔ عمران حکومت کے اتحادی بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئے ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان کی حکومت کو سیاسی طور پر مولانا کے دھرنے نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا شہباز شریف کی سیاسی سفارتکاری نے پہنچا دیا ہے۔ یہ رائے تو عام تھی کہ مولانا خالی ہاتھ چلے گئے ہیں لیکن یہ سب مان رہے ہیں کہ شہباز شریف نے سیاسی بساط کی شکل بدل دی ہے۔ لوگ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان کے دو دن کی چھٹیوں پر جانے کو اس بات سے تشبیہہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کو بھی شہباز شریف کی سیاسی سفارتکاری کی جیت نے پریشان کیا ہے۔ شہباز نے ہاری ہوئی گیم جیت لی ہے۔
ویسے تو جب سے نواز شریف اور شہباز شریف نے اکٹھے سیاست شروع کی ہے تب سے دونوں بھائیوں میں اختلافات کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ ہمیشہ یہ بتایا گیا ہے کہ بس اب یہ موقع آیا ہے کہ دونوں بھائی الگ ہو جائیں گے۔ اس بار بھی ایسا ہی ماحول تھاکہ بس شہباز شریف کی بات ہو گئی ہے۔ اب وہ موقع آگیا ہے کہ شہباز شریف نواز شریف سے بغاوت کر دیں گے۔ لوگ ہمیں بتا رہے تھے کہ ن لیگ کی قیادت کی اکثریت بھی شہباز شریف کے ساتھ ہے۔ لوگ بے وجہ مزاحمت سے تھک گئے ہیں۔ شہباز شریف کی بات اور ان کا مفاہمت کا بیانیہ ن لیگ میں بھی مقبول ہو رہا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ن لیگ میں اگر آج بھی کوئی خفیہ رائے شماری کروائی جائے تو اراکین اسمبلی اور عہدیداران کی غالب اکثریت شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیہ کے ساتھ ہیں۔ اگر شہباز شریف نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانی تھی یا اپنا الگ دھڑا قائم کرنا تو یہ بہترین وقت تھا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ پھر شہباز شریف نے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود اپنے بھائی نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ یہ کوئی معمولی یا چھوٹا فیصلہ نہیں تھا۔ اس کی اپنی ایک سیاسی قیمت ہے۔ آج پورا پاکستان نواز شریف کی ضمانت پر رہائی مریم نواز کی ضمانت پر رہائی اور نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی سہولت کے لیے شہباز شریف کو کریڈٹ دے رہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ سب یہ بھول رہے ہیں کہ جب وہ نواز شریف کی ضمانت علاج اور کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔ مریم نواز کی ضمانت کے لیے راستے بنا رہے تھے تب حمزہ شہباز جیل میں تھے اور ابھی تک جیل میں ہیں۔ شہباز شریف نے آج پھر نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو اپنے خاندان پر ترجیح دی ہے۔ ایسا بھی پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ ماضی میں بھی جب جلا وطنی کا وقت آیا تھا تو شہباز شریف نے اپنے بیٹے شریف خاندان کے لیے بطور ضمانت دیے تھے۔ تا ہم شہباز کی پہلی ترجیح پھر نواز شریف اور ان کا خاندان ہی تھا۔
جو لوگ شہباز شریف سے اس بات سے نالاں تھے کہ شہباز شریف مولانا کے کنٹینر پر کھڑے نہیں رہے۔ شہباز شریف کو اندازہ تھا کہ مولانا تو آرام سے گھر چلے جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) میں شاید اس وقت اس ناکامی کی قیمت چکانے کی ہمت نہیں ہے۔ مرکزی قیادت جیل میں ہے۔ اب مزید کوئی جیل جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ جو جیل میں ہیں انھیں باہر لانے کے لیے حکمت عملی بنانی چاہیے نہ کہ ایسے کام کرنے چاہیے جس سے باقی بھی جیل میں چلے جائیں۔
آج لوگ نواز شریف اور بھٹو کا بہت موازنہ کرتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں جہاں ہمارے سیاسی تجزیہ نگار بھٹو اور نواز شریف کا موازنہ کرتے ہیں وہاں وہ یہ تجزیہ کرنا بھول جاتے ہیں کہ بھٹو پھانسی لگ گئے کیونکہ بھٹو کے ساتھ کوئی شہباز شریف جیسا وفادار بھائی نہیں تھا۔ جو مشکل وقت میں بھٹو کے ساتھ کھڑا رہتا۔ بھٹو کے تمام سنیئر ساتھی جن میں جتوئی کھر اور دیگر شامل تھے بھٹو کے اقتدار کے خاتمہ کے ساتھ ہی بدل گئے تھے۔ انھوں نے اپنی جانیں بچانے کی فکر کی۔ کسی کی بھی ترجیح بھٹو نہیں تھا۔ اس لیے بھٹو ایک مقبول سیاسی لیڈر ہونے کے باوجود اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سیاسی طور پر تنہا ہو گئے تھے۔
جب کہ اس کے مقابلے میں نواز شریف کو ہر موقع پر شہباز شریف کا ساتھ میسر تھا۔ ورنہ اگر نواز شریف کے ساتھ شہباز نہ ہوتے تو نواز شریف کا انجام بھی بھٹو سے مختلف نہیں ہونا تھا۔ جس طرح بے نظیر اپنے والد کو پھانسی نہیں بچا سکیں تھیں۔ اس طرح مریم بھی باپ کو جیل سے اسپتال منتقل کروانے اور یہ راستے بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ وہ خود جیل میں تھیں۔
نواز شریف کی بیماری پر ہونے والی سیاست میں عمران خان کو شکست ہوئی ہے۔ پہلی دفعہ یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی عمران خان کی پالیسی سے مختلف تھی۔ عمران خان نے کوشش کی ہے۔ لیکن ناکام ہو گئے ہیں۔ وہی ہوا ہے جو اس قسم کے کھیل میں ہوتا ہے۔ جہان تک بیان بازی کا تعلق ہے، کہیں نہ کہیں عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ شہباز شریف نے تحریک انصاف کی گالم گلوچ کی سیاست کو اپنی خاموشی سے شکست دے دی ہے۔ کئی کئی دن شہباز شریف بیان نہیں دیتے۔ میڈیا کو انٹرویو نہیں دیتے۔ جواب الجواب کے چکر میں نہیں پڑتے۔ لیکن پھر بھی پاکستان کی سیاست میں ان کا کردار ختم نہیں ہو جاتا۔ روزانہ کی گالم گلوچ نے تحریک انصاف کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دیا ہے۔
پاکستان کی سیاست بدل رہی ہے۔ بدلتی سیاست کے تقاضے بھی مختلف ہوں گے۔ تحریک انصاف کا ہنی مون ختم ہو گیا ہے۔ آج شاید عمران خان اور ان کی ٹیم کو احساس ہو رہا ہو گا کہ ایک سال پہلے جب شہباز شریف نے ایک نئے چارٹر آف اکانومی کی پیشکش تھی، اس وقت وہ چارٹر کر لینا چاہیے تھا۔ اگر تب شہباز شریف کی بات مان لی ہوتی تو آج یہ حا لات نہ ہوتے۔ عمران خان ملک کے معاشی حالات سنبھالنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ مہنگائی ان کی سب سے بڑی سیاسی دشمن ہے۔ آج جب شہباز شریف کہتے ہیں کہ میں حالات چھ ماہ ٹھیک کر دوں گا تو یہ اہم نہیں کہ وہ چھ ماہ میں کریں گے کہ نہیں۔ اہم یہ ہے کہ عمران خان ٹھیک کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ان کے حامی بھی ان کی ناکامی سے پریشان ہو کر متبادل دیکھ رہے ہیں کیونکہ معاشی استحکام ہی حکومت کا بنیادی ستون ہے۔