شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کا مستقبل
قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اس وقت سیاسی طور پر ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ یہ عمران خان سے نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ اور قومی اداروں سے مفاہمت کا بیانیہ ہے۔
یہ درست بات ہے کہ مفاہمت کے بیانیہ کو سب سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت خود ن لیگ کے اندر سے ہی تھی۔ لیکن شہباز شریف نے جہاں ایک طرف باہر لڑائی لڑی ہے وہاں مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی ایک بڑی لڑائی لڑی ہے۔ انھوں نے نہ میدان چھوڑا ہے اور نہ ہی اپنی بات چھوڑی ہے۔ اندر رہ کر اپنی بات منوانے کا جو مظاہرہ شہباز شریف نے کیا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شہباز شریف کے لیے مشکلات کم ہو گئی ہیں۔ ان کے لیے ابھی بہت سے امتحاں باقی ہیں۔ لیکن پھر بھی شائد مسلم لیگ (ن) کا عام کارکن اب مفاہمت کے بیانیہ کی اہمیت کو سمجھ رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں مر یم نواز نے اپنی سیاسی سرگرمیوں سے مفاہمت کے بیانیہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں نے ایک سال میں مفاہمت کے بیانیہ کے تمام ثمرات کو ضایع کر دیا۔ کھلے راستوں کو دوبارہ بند کر دیا۔ بے وقت جلسوں اور بے وقت کی مزاحمت کا کائی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سیاست میں ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ بے وقت کی ہیجان انگیزی فائدہ کم اور نقصان زیادہ دیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مریم نواز کے اقدامات نے مسلم لیگ (ن) کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
رانا ثنا ء اللہ خان اندر چلے گئے۔ شاہد خاقان عباسی اندر گئے۔ اور باقیوں کے اندر جانے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ آخر پوری ن لیگ کی قیادت کو جیل بھیج کر مریم نواز کیا حاصل کر سکتی تھیں۔ اور پھر وہ خود بھی جیل چلی گئیں۔ کیا جیل چلے جانا سیاسی دانشمندی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یا جیل جانے سے بچ جانا سیاسی دانشمندی قرار دیا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف کی سیاسی مفاہمت سے نواز شریف کو چھ ہفتوں کی ضمانت ملی۔ اور آگے دوبارہ بھی ضمانت ملنے کے امکانات تھے۔ مسلم لیگ کے لیے سیاسی آسانیاں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن مریم نواز کی حکمت عملی نے نہ صرف نواز شریف کے لیے جیل میں مشکلات میں اضافہ کیا ہے بلکہ عمومی طور پر بھی مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن شہباز شریف نے اس مشکل وقت میں بھی سیاسی حکمت کا مظاہرہ کیا۔
شہباز شریف کی خاموشی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ انھیں اس سب سے اختلاف ہے۔ لیکن وہ اس اختلاف کا سر عام تماشہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ اپنی بات پر تو قائم تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کا باعث نہیں بننا چاہتے تھے۔ ایک موقع پر انھوں نے سب کچھ واپس کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سے بھی مستعفیٰ ہونے کو تیار ہو گئے تھے۔ وہ باقی عہدے بھی چھوڑنے کو تیار تھے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ ان کے بغیر ابھی مسلم لیگ (ن) نہیں چل سکتی۔ سب کو مفاہمت کے بیانیہ پر آنا ہوگا۔
شہباز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف اپنی سیاسی حیثیت بھی منوانی شروع کر دی ہے۔ اس ضمن میں عالمی سطح پر بھی انھیں بطور قائد حزب اختلاف قبول کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں چینی سفارتخانہ کی جانب سے شہباز شریف کے لیے خصوصی دعوت اس بات کی نشانی ہے کہ چین شہباز شریف کو پاکستان میں متبادل قیادت کے طور پر دیکھتا ہے۔ چینی قیادت کی جانب سے شہباز شریف کے لیے پسندیدگی کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ چین اور شہباز شریف کے روابط کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست کا مستقبل کیا ہے۔ اس مفاہمت کی سیاست کے باوجود وہ پہلے بھی جیل گئے ہیں۔ نیب نے انھیں گرفتار کیا۔ اب دوبارہ بھی نیب انھیں بلا رہا ہے۔ دوبارہ ان کی گرفتاری کے پھر امکانات ظاہرکیے جا رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف جانتے ہیں کہ یہ سب عارضی ہے۔ آخر میں ان کی مفاہمت کی سیاست ہی کام آئے گی۔
سیاست کے کھیل کو سمجھنے والے جان رہے ہیں کہ جیسے جیسے عمران خان کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ اس کی ناکامیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ معاشی میدان میں حکومت کی ناکامیاں۔ معاشی بحران بڑھ رہا ہے۔ ویسے ویسے شہباز شریف ایک متبادل کے طور پر سامنے آتے جا رہے ہیں۔ اسی لیے عمران خان کی حکومت نے بالخصوص شہباز شریف کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ شہزاد اکبر کا ٹارگٹ بھی شہباز شریف ہی ہیں۔ اس وقت پوری حکومتی مشینری شہباز شریف کو کسی بھی طرح مائنس کرنے کے چکر میں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بطور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کردار ابھی تک ٹھیک جا رہاہے۔ وہ حکومت کو چیلنج بھی کر رہے ہیں لیکن نظام کے لیے خطرہ بھی نہیں بن رہے۔ وہ نظام کو چلانے میں مدد کر رہے ہیں۔ مشکل وقت میں راستہ بھی دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کی حکومت ان کی اس مدد کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ شاید اس لیے کہ اس میں سے عمران خان کو اپنے لیے خطرہ نظر آتا ہے۔
شہباز شریف کے ناقدین شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے اندر مقبولیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہ ایک طرف نواز شریف اور مریم نواز کی اداروں سے مزاحمت کی پالیسی کے خلاف بھی ہیں اور دوسری طرف بغاوت بھی نہیں کرتے ہیں۔ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے بغاوت نہ کرنے کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہورہے۔ مقتدر قوتوںکی رائے میں 2018کے انتخابات سے قبل انھیں نواز شریف سے بغاوت کر دینی چاہیے تھی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں وہ ٹھیک کر رہے ہیں۔ اندر رہ کر لڑنا مشکل ضرور ہے۔
لیکن درست راستہ یہی ہے۔ آہستہ آہستہ مسلم لیگ (ن) کا عام ووٹر اور کارکن شہباز شریف کے بیانیہ کے ساتھ آتا جارہاہے۔ یہ درست ہے کہ مریم نواز کے جلسہ بڑے ہوئے تھے۔ لیکن ان کے جیل جانے نے پھر شہباز شریف کے بیانیہ کے طاقت کو ظاہر کر دیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پی پی پی کے کارکن نے بھی شاہنواز اور مرتضیٰ کی مزاحمت کو چھوڑ کر بے نظیر کی مفاہمت کو قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کا کارکن بھی شہباز شریف کی مفاہمت کو قبول کرے گا اور شہباز شریف کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ یہی مسلم لیگ (ن) کا مستقبل ہے۔