عمران خان کی سیاسی تنہائی
عمران خان حکومت کی بری کارکردگی کی بہت سی وجوہات ہوں گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی سولو فلائٹ کی کوشش سب سے بڑی وجہ ہے۔ ملک میں جمہوریت کا بستر بھی اسی تنہائی کی وجہ سے گول ہوا اور بھٹو کو پھانسی بھی ان کی سیاسی تنہائی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
اس کے بعد دیکھیں 1999 میں نواز شریف بھی سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ بینظیر کو سیاست سے مکمل مائنس کرنے کے درپے تھے۔ سیف الرحمٰن کے احتساب کمیشن نے بینظیر بھٹو کو ملک سے بھاگنے پر مجبو ر کر دیا تھا۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ اگر وہ بینظیر کو مائنس کر دیں تو ایک لمبے عرصہ تک ملک میں حکومت کر سکتے ہیں۔
بینظیر کے مائنس ہونے کے بعد ان کے راستے صاف ہو جائیں گے۔ لیکن بینظیر کے ملک سے چلے جانے کے بعد نواز شریف کو بھی جانا پڑا۔ نواز شریف کو بھی ان کی سیاسی تنہائی لے بیٹھی۔ بینظیر کو ملک سے بھگاتے بھگاتے انھیں خود بھی ملک سے بھاگنا پڑ گیا۔ پاکستان کے آمروں نے بھی ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ سیاسی تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ انھوں نے بھی میوزیکل چیئر کی طرز پر اپنے حلیف اور حریف بدلے ہیں۔ لیکن یہ شعوری کوشش کی گئی ہے کہ انھیں قومی دھارے کی چند سیاسی جماعتوں کی حمایت ضرورحاصل رہے۔ اسی لیے آمریت نے ملک کی سیاسی اکائیوں کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ قائم کیے۔ آمروں کے بھی کوئی اصول نہیں رہے۔
وہ آج ایک کے ساتھ ہوتے رہے ہیں تو کل اسی فریق کے مخالف بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی دوستیاں پسند و ناپسند کا دارومدار کسی اصول کا نہیں بلکہ سیاسی ضرورت کے تابع ہوتا ہے۔ آپ جنرل مشرف کا دور ہی دیکھ لیں۔ مشرف نے اگر ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کو ملک سے باہر کیا تو دینی جماعتوں کو شریک اقتدار کیا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ مشرف دینی جماعتوں کو بھی نظر انداز کر کے اپنے اقتدار کو مستحکم رکھ سکتے۔
بعد میں جب مشرف نے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو اکٹھے ملتے دیکھا تو اس اتحاد کو توڑنے کے لیے وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے اور شراکت اقتدار کے لیے تیار ہو گئے۔ انھیں اتنی سیاسی سمجھ بوجھ تھی کہ سیاسی تنہائی زہر قاتل ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی میں ناکام ہوئے۔ لیکن سیاسی فلسفہ کی سمجھ انھیں بھی تھی۔
نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی نے بھی کچھ قوتوں کو پریشان کیا۔ اس چارٹر کا فائدہ بھی ہوا۔ جمہوری حکومتوں نے مدت پوری کرنی شروع کی۔ پھر عمران خان کی شکل میں ایک نئی سیاسی اکائی پیدا کی گئی۔ یہ پراجیکٹ نہایت کامیاب رہا۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نواز شریف کو اکیلے عمران خان شکست نہیں دے سکتے تھے۔ عمران خان کے دھرنے کے موقع پر ان کے ہمدردوں کو سیاسی تنہائی کا دوبارہ شدت سے احساس ہوا۔ انھیں احساس ہوا کہ عمران خان سیاسی تنہائی کا شکار ہیں، اس لیے ناکام ہو جائیں گے۔ دھرنے کے موقع پر پی پی پی سمیت تمام سیاسی اکائیوں نے پارلیمنٹ کے اندر سے دھرنے کو اس طرح ناکام کیا۔
جس کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ ایسا سیاسی اتحاد بھی کم ہی دیکھنے میں ملا ہے۔ تاہم اس سے عمران خان نے تو نہیں لیکن ہمدردوں کو اندازہ ہو گیا کہ جب تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے سے دور نہیں ہوتے، عمران خان کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے آصف زرداری پر بہت محنت کی گئی۔
اور بالا آخر وہ نواز شریف سے دور ہوگئے۔ یہی وہ موقع تھا جب عمران خان اور آصف زرداری نے ملکر سینیٹ کا انتخاب لڑا۔ مل کر بلوچستان کی حکومت ختم کی۔ مل کر پاناما کی لڑائی لڑی۔ نواز شریف کے جانے کی راہ ہموار کی۔ اب جب کہ عمران خان کی سیاسی تنہائی ختم ہو گئی تھی تو انھیں کامیابیاں بھی ملنی شروع ہو گئی تھیں۔ یہ سیاسی تنہائی بھی عجیب چیز ہے ایک طرف سے ختم ہو تو دوسری طرف ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ جیسے ہی عمران کی سیاسی تنہائی ختم ہوئی، نواز شریف کی سیاسی تنہائی شروع ہو گئی۔ آصف زرداری کے جانے کا ن لیگ اور نواز شریف کو بہت نقصان ہوا۔ اور دھرنے کی جنگ جیتنے کے بعد وہ پاناما کی جنگ ایک اقامہ پر ہار گئے۔ پاناما اور اقامہ پر وہ سیاسی طو ر پر تنہا نظر آرہے تھے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاسی تنہائی اقتدار کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے۔ آپ جتنے تنہا ہوتے ہیں اتنے ہی کمزور ہوتے ہیں۔
اب عمران خان اقتدار میں ہیں۔ بہترین سیاسی فارمولا تو یہی تھا کہ جب سینیٹ کا انتخاب مل کر لڑا تھا۔ جب چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے اتحاد تھا تو انتخابات کے بعد حکومتیں بھی ملکر بنائی جاتیں۔ یہی سوچ پہلے بھٹو کو لے بیٹھی تھی اور بعد میں نواز شریف کو لے بیٹھی تھی۔ آج کہیں نہ کہیں یہ احساس ہونے لگ رہا ہے کہ عمران خان بھی بھٹو اور نواز شریف جیسے رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جنگ اب انھیں مزید سیاسی زندگی نہیں دے سکتی ہے۔
شاید عمران خان یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ جمہوری حکومت کی سیاسی تنہا ئی جمہوریت اور حکومت دونوں کو کمزور کرتی ہے۔ وہ جیسے بھی اقتدار میں آئے تھے آنے کے بعد انھیں اپنی سیاسی تنہائی کو ختم کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ غلطی اس سے پہلے بھٹو نے کی ہے۔ نواز شریف نے کی تھی۔ اب عمران خان کر رہے ہیں۔ یہ آزادی مارچ عمران خان کی سیاسی تنہائی کو واضح کر رہا ہے وہ سیاسی طور پر بند گلی میں طرف جا رہے ہیں۔ جہاں سے کوئی راستہ باہر نہیں نکل رہا۔