سوچو ں کا ٹکرائو
ہر آدمی سوچتاہے۔ ہر وقت سوچتا رہتاہے کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر آدمی کی سوچ اپنی اپنی ہوتی ہے۔ کوئی بھی دو لوگ ایک طرح سے نہیں سوچتے اگر چاہیں بھی تو ایک طرح کاسوچ نہیں سوچ سکتے۔
اللہ نے شکلوں اور عقلوں میں اختلاف ر کھا ہے جب انسانوں کی شکلیں اور سوچیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو ان کے درمیان ٹکڑائو کا پیدا ہونا بھی ایک لازمی امرہے۔ لوگ جو ایک دوسرے سے لڑ تے بھڑتے رہتے ہیں چاہے وہ امیر ہوں کہ غریب، کالے ہوں کہ گورے، چاہے وہ ایک خدا کو ماننے والے ہوں یا بیک وقت کئی خدائوں اور بتوں کے پجاری ہوں۔
تاریخ انسانی ہولناک خونریز جنگوں سے بھر ی پڑی ہے جن کے تحت سروں کے مینار لگائے جاتے تھے وہ ساری جنگیں اپنے اپنے زمانوں کے حساب سے سوچوں کے درمیان ٹکڑائو کے نیتجہ ہی تھیں۔ سوچوں کا یہ ٹکڑائو انفرادی سطح پر بھی دوستی یاری اور خونی اور سگے رشتوں کے درمیان بات بات پر روزمرہ کی بنیاد پر جاری رہ سکتاہے۔ اس لئے ہر کوئی اپنی ایک سوچ رکھتا ہے۔
جب اس کی سوچ کے مطا بق کام نہ ہو تو ٹکرائو پیدا ہوتاہے۔ یہ ٹکڑائو گھر کی چاردیواری سے لے کر گلی محلے اور بازاروں تک پھیل سکتا ہے۔ ہر سوچ اپنے تئیں سچی اور صحیح سوچ ہوتی ہے اور جس سے ٹکڑانا مقصود ہو ظاہر ہے وہ سوچ اس کے نزدیک غلط یا جھوٹی سوچ ہی ہوتی ہے۔
سوچ کاماخذ عقل ہے جس کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے، اسی عقل کی بنیاد پر اللہ نے ہرچیز پر غور اور سوچ بچار کا حکم دے رکھا ہے، اللہ نے کوئی چیز بھی بغیر مقصد کے پیدا نہیں کی۔ عقل ہمیشہ وحی کی محتاج رہی ہے کیونکہ انسان نے جو بھی علمی سائنسی اور تکینکی ترقی کی ہے وہ وحی کے دکھائے گئے راستوں کی نشاندہی پر چل کرہی کی ہے۔
یہ وحی ہی ہے جس نے انسان کو عقل کے استعما ل کے گوناگو ںراستے دکھائے جو آج انسان کو اس مقام تک لے آ ئے ہیں کہ اب زمین وآسمان، کہکشاہیں اور انگنت نظام ہائے شمسی و ہ وہ راز اگل رہے ہیں کہ جن کے باعث امید کی جاسکتی ہے کہ انسان بہت جلدتخلیق کے ا لہٰی مقاصد سے ہم آہنگ ہوجائے گا۔ یعنی غائب پر ایمان کا صلہ مشاہدے کے تجربے کی صورت میں حاصل کرلیگا۔
انسان پر اب وحی کی سچائیاں ثابت ہوچکی ہیں، وحی کا علم صرف کتابی علم نہیں ہے بلکہ شخصیت کے اندر اترجانے والا علم ہے جوانسان کے اندر کی وحشتوں کو بھی کچل کر رکھ دیتاہے۔ دوسرے تمام علم انسان پرمعلومات کے ہزاروں لاکھوں دروزاے کھول سکتے ہیں اسے کائنات کے ہر پہلو پر فتح دلاسکتے ہیں لیکن اُسے اس کی انفرادی سوچ کی گرفت سے نجا ت نہیں دلا سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے عظیم ترین دانشور، سائنسدان، ہر علم اور فن کے ماہرین اور انگنت ہنر مندکاریگر اور فنکار حضرات وخواتین اپنی تمام تر دانست اور ادراک کے باوجود اپنی انفرادی سوچوں کے تابع رہتے ہوئے کنویں کے مینڈک سے زیادہ اپن شناخت نہیں بناسکتے۔ آج کا انسان زمانہ قدیم کے وحشی قبائل سے زیادہ باہم دست وگریبان ہے۔ اکیسویں صدی کے اندر بھی انتہائی ترقی یافتہ اور جدیدترین ہتھیاروں سے لیس ملکوں نے ا یک سپر پاور کے ساتھ ملکر افغانستان کے نہتے مسلمانوں پر بیس سال تک یکطرفہ اور ظالمانہ جنگ مسلط رکھی لیکن وہ معروضی حقائق سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود موضوعی طاقتوں کے عظمت سے ناآشناتھے، اس لئے ایک شرمناک شکست سے دوچار ہوئے۔
بدنصیب ہوتی ہے وہ سوچ جو انفردی شکنجوں سے باہر نہ نکل سکے اور عظیم اور ناقابل شکست ہوتی ہے وہ سوچ جو صرف اور صرف سوچ کے اپنے خالق کے تابع رہے اور انفرادیت کی قید سے آزاد ہوجائے۔
دنیا میں نو گیارہ سے بھی بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ نوگیارہ نے دنیا کو اتنا نہیں بدلا تھا جتنا اس تازہ ترین یعنی افغانستان میں طالبان کی فتخ نے دنیا کے سارے نظام کو بدل دیا ہے، یہ تبدیلی اُس سونامی کی مانند ہے جس کے آثار آہستہ آہستہ کچھ عرصہ بعد ظاہر ہونا شروع ہونگے اس دفعہ دنیا کسی دنیاوی نظرئیے یعنی کمیونزم اور سوشلزم، اطالوی فسطائیت یا جرمنوں کی نسلی برتری کے نظریات کے تحت تبدیل نہیں ہوئی۔
صدیوں بعد ایک مرتبہ پھر ایک الہامی نظرئیے نے مادی نظریات کو پوری قوت کے ساتھ جڑ سے اکھاڑ ا ہے۔ اس وقت اسرائیل جیسی مذہبی منافرت پر غاصبانہ طریقے سے قائم بدترین ریاست کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ آخر ہوا کیا ہے؟
ہندوستان حیران وپریشان اور سرگرداں ٹکریں ماررہا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا؟ یہ کونسی سوچ ہے جس کے سامنے ساری سوچیں اجتماعی طور پر ڈھیر ہو گئیں۔ ایک 90سالہ بزرگ علی گیلانی کی لاش نے پورے ہندوستان کے مقتدر حلقوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا کہ اُسے رات کی تاریکی میں زبردستی دفنایاگیا۔
توپ وتفنگ سے آرستہ اور پیراستہ بھارتی فوج جس کی پشت پر بین الاقوامی حمایت بھی موجود تھی ایک لاش کے ہاتھوں رسوا ہوگئے۔ یہ وہ خوف تھا جس نے سب کو بے نقاب کردیا ہے ایک لاش زندہ ہوگئی اور وہ سارے کے سارے جیتے جی مرگئے۔ ایک انفرادی سچی سوچ کے آگے ایک اجتماعی جھوٹ ذلیل ورسواہوگیا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی والا ملک بھارت طالبان کے چتھڑوں، فاقہ زدہ شکموں اور سادہ مگر خلوص اورایمان سے بھرپور جذبوں کا سرعام مذاق اس امید پراڑا رہا ہے کہ طالبان حکومت کا نظم ونسق نہیں چلا سکیں گے۔
ہندوستانی بہروپیئے اور مسخرے اسی طرح اگست 1947میں بھی گلے پھاڑ پھاڑ کر چلارہے تھے کہ پاکستان نہیں چل سکے گا۔ آج وہی پاکستان ہندوستان کو ہر سیاسی، سفارتی، اٹیمی اور عسکری محاذو پر ناکوں چنے چبوارہا ہے اسکے پیچھے جو دلیل ہے وہ آسانی کے ساتھ انھیں سمجھ نہیں آسکتی ایک اور لاشریک والی سوچ ہر اُس سوچ پر ہمیشہ حاوی رہے گی جو اس ایک کے مقابلے میں آئے گی۔
بعض اوقات بظاہر کمزورناتواں اور کسمپرسی میں مبتلا لوگوں کی عمدہ اور بڑھیا سوچیں انھیں وہ کامیابیاں دلاتی ہیں کہ دنیا حیران رہ جا تی ہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان اچھا سوچ رہاہے اور اس کے دشمن اپنی منفی سوچ ہی کے باعث تلملارہے ہیں، یہی سوچوں کا ٹکرائو ہے۔