تبدیلی مگر کون سی؟
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ این آر او مانگنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں مگر وزیراعظم یہ بتانے کو تیار نہیں کہ وہ احمق کون ہیں جو ان سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ ایک سابق وزیر اعظم تو عمران خان سے این آر او لیے بغیر لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف لے کر چار ہفتوں کے لیے علاج کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔
جس کے جانے کو حکومت اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے خوش ہے کہ حکومت تو نواز شریف سے ساڑھے سات ارب روپے کا تحریری بانڈ مانگ رہی تھی مگر لاہور ہائی کورٹ کی شرائط تو حکومت سے بھی سخت ہیں جن کے تحت نواز شریف ہی نہیں شہباز شریف بھی انڈر ٹیکنگ عدالت کو دے کر خود کو عدالت کے پاس گروی رکھ گئے ہیں اور واپس نہ آئے تو عدالتی مجرم ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) نے حکومتی ٹیم کی پریس کانفرنس کے جواب میں (ن) لیگ کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ حکومت کو سات ارب روپے کے بانڈ تو نہ مل سکے اور حکومت کو 50 روپے کے اسٹامپ پیپر پر ہی اکتفا کرنا پڑ گیا ہے۔ (ن) لیگی رہنماؤں کے مطابق حکومت اور اس کے وزیر حد میں رہیں اور عدالتی فیصلے کی من مانی تشریح کو عدالت کی توہین نہ کریں۔
حکومت کے سوا سال مکمل ہونے پر یہ تبدیلی ضرور نظر آئی کہ سابق سزا یافتہ وزیر اعظم اور ان کے بھائی وزیر اعظم سے این آر او لیے اور ڈیل کیے بغیر عدالت عالیہ کو انڈر ٹیکنگ دے کر باہر چلے گئے اور وزیر اعظم کہتے رہ گئے کہ " مر جاؤں گا کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔" اب تو حکومتی حلقے بھی کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کسی کو این آر او دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتے کیونکہ این آر او کو تو سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے مگر این آر او کا لفظ وزیر اعظم کی زبان سے نہیں ہٹ رہا اور نہ وہ یہ بتانے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ ان سے این آر او کون لینا چاہ رہا ہے جس کی نشاندہی اپوزیشن بھی چاہتی ہے مگر حکومت بتانے کو تیار نہیں ہے۔
اسلام آباد میں 13 روز کے پر امن اور واقعی بڑے دھرنے کا ریکارڈ قائم کرکے لوٹ جانے والے جے یو آئی کے سربراہ خالی ہاتھ جانے کے بعد بھی بڑے مطمئن ہیں اور سو فیصد یقین سے کہہ رہے ہیں کہ اگلے سال بڑی تبدیلی آئے گی اور وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں لوٹے، تو ظاہر ہے کہ مولانا کہیں سے تبدیلی آ جانے کی امید پر ہی لوٹے ہوں گے اور وہ بہت پرامید ہیں کہ نیا سال ملک میں تبدیلی ضرور لائے گا۔
سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل نے مولانا کی تبدیلی کی بات پر کہا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آ رہی اور اپوزیشن سینیٹ میں تو تبدیلی لا نہیں سکی تو وہ ملک میں کیسے تبدیلی لا سکتی ہے؟ تبدیلی اپوزیشن کی خوش فہمی ہے۔ حکومت کے سوا سال میں سب سے بڑی تبدیلی تو مہنگائی میں آ چکی ہے اور سوا سال میں مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ کر تبدیلی حکومت میں تبدیلی لا کر دکھائی ہے جب کہ بے روزگاری، معاشی بد حالی کی تبدیلی مسلسل آ رہی ہے اور نئے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا ہے کہ بتائیں تبدیلی پسند آئی۔ اب نہ امپائرکی انگلی چلے گی نہ جعلی تبدیلی۔ اب صرف عوام کی مرضی چلے گی۔
ملک میں ڈالرکبھی اتنا مہنگا نہیں ہوا اور نہ ملک میں لاکھوں افراد کو بے روزگاری میں دھکیلا گیا ہے جس میں تقریباً پچاس ہزار میڈیا ورکرز بھی شامل ہیں جنھوں نے تبدیلی کا خواب دیکھا تھا اور عمران خان کے تبدیلی پروگرام کو اتنی اہمیت دی تھی اور عمران خان کی وہ زبردست کوریج کی تھی جو پچاس سال قبل ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی سوشل ازم اور روٹی کپڑا اور مکان کو بھی نہیں ملی تھی۔
تبدیلی کے خواہش مند اینکروں، صحافیوں، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے عمران خان کی تبدیلی کی اس قدر تشہیر اور سابق حکمرانوں کو اس قدر بدنام کردیا تھا کہ عوام بھی تبدیلی کے خواہش مند ہوگئے تھے مگر عوام سے زیادہ تبدیلی کی خواہش کہیں اور مگر عوام سے موثر تھی۔ عمران خان کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ ان کے غیر معروف امیدواروں کے ذریعے دوسروں کے بڑے بڑے سیاسی بت گروا دیے جائیں گے۔ عوام بھی کہیں اور سے لائی گئی تبدیلی پر عارضی طور پر خوش ہوگئے تھے۔
تبدیلی سرکار جو خود تبدیلی کی اتنی جلد توقع نہیں رکھ رہی تھی اور بغیر تیاری کے حکومت بنا بیٹھی تھی مگر جب حکومتی ایوانوں میں داخل ہو کر کبھی کسی بلدیاتی ادارے کی سربراہی کا تجربہ نہ رکھنے والے کو اچانک وزیر اعظم بنا دیا گیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ اقتداری تبدیلی تو آ گئی مگر اس تبدیلی کے لیے انھوں نے عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے تھے اور سابق حکمرانوں پر بڑے بڑے الزامات لگائے تھے کہ انھیں کرپشن کے سوا کچھ نہیں آتا تھا اور میں تبدیلی لا کر طرز حکومت ہی نہیں سب کچھ تبدیل کر دوں گا مگر حقائق کا علم ہونے پر وزیر اعظم حیرت زدہ رہ گئے اور ان کے ساتھ حکومت میں وہی شامل کیے گئے جو کہ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف، نواز شریف اور آصف زرداری کے دور میں حکومتی اقتدار کا حصہ رہے تھے۔
حقیقی تبدیلی کے خواہش مند عمران خان کے دیرینہ رفقا بھی صورت حال دیکھ کر مایوس ہوئے کیونکہ وہ عمران خان سے واقعی مخلص جب کہ موقعہ پرست مفادات کے لیے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اور انھوں نے وزیر اعظم کو حقائق سے لاعلم رکھ کر وزارتیں لے لی تھیں۔ وزیر اعظم کو اقتدار کے لیے سب سے پہلے اپنے اصولوں میں تبدیلی لانا پڑی۔ جس کو عمران خان اپنا چپڑاسی نہ رکھنے کا کہہ چکے تھے اس کو وفاقی وزیر اور ڈاکو قرار دیے گئے شخص کو پنجاب کا اسپیکر بنانے پر آمادہ ہونا پڑا۔ کچھ عرصے بعد انھیں یوٹرن لینے والا بھی بڑا رہنما محسوس ہوا۔
وزیر اعظم کو مجبوری میں اپنے دعوؤں اور اصولوں میں تبدیلی لا کر اپوزیشن کو یہ موقعہ ضرور فراہم کر دیا کہ وہ انھیں یو ٹرن خان، منافقت اورکٹھ پتلی جیسے القابات سے پکاریں مگر اقتدار کے لیے سب کچھ کہنا اور بعد میں تنقید برداشت کرنا ہی پڑتی ہے۔
وزیر اعظم کے مخلص ساتھی اسد عمر کو ہٹائے جانے کے بعد یہ بھی تبدیلی ہے کہ انھیں فیاض چوہان کی صف میں لانا پڑ گیا اور کئی ماہ بعد اسد عمر پھر وزیر بن گئے ہیں۔ عوام جو تبدیلی دیکھنا چاہتے تھے وہ تبدیلی تو سوا سال میں نہیں آئی مگر ملکی حالات، سیاست اور حکومتی حلیفوں کے تیور دیکھ کر وزیر اعظم کو یہ دن بھی دیکھنے پڑے کہ ان سے این آر او کوئی نہیں مانگ رہا اور وزیر اعظم کے حریف عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں اور عدالتی ریلیف لے کر عمران خان کے غصے میں اضافہ کر رہے ہیں اور اقتداری مجبوری ایسے ہی دن دکھاتی ہے۔