سلطان قابوس ایک مثالی رہنما
ممتاز کالم نگار جاوید چوہدری کا ایک کالم بعنوان "یہ صرف قبر نہیں " میں سلطان قابوس کی سادہ سی قبر کا حال پڑھ کر راقم کو لاہورکے ایک پوش علاقے کا قبرستان یاد آ گیا، جہاں گزشتہ سال نومبر میں سابق آئی جی سندھ اور سینیٹر رانا مقبول احمد کے ہمراہ ان کی خوش دامن کی تدفین کے لیے جانے کا موقعہ ملا تھا۔
تمام قبریں پختہ، ماربل اور ٹائلوں سے مزین کر کے خوبصورت بنائی گئی تھیں اور تمام قبروں پر جو کتبے لگے تھے ان سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ خصوصی قبرستان تھا جہاں عام لوگ نہیں خاص خاص لوگ دفن تھے۔ قبروں کے کتبوں پر دفن اعلیٰ افسروں اور بڑے لوگوں کے نام نمایاں طور پر لکھے ہوئے تھے۔
بتایا گیا کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والے کچی قبروں کے ساتھ وہ بھی تھے جن کی قبریں تدفین سے قبل ہی پختہ کی گئی تھیں۔ ان پختہ یا کچی قبروں میں دفن ہونے والوں کی تدفین کے بعد ان پر کیا گزری یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا مگر قبر کے ہر کتبے پر مرحوم کے اعلیٰ عہدے اور اس کی شخصیت کی پہچان ضرور ظاہر تھی۔
قومی بینک سے گولڈن شیک ہینڈ لے کر ریٹائر ہونے والے ایک بزرگ دوست محمد ایوب دو سال سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے اس قدر مداح ہیں کہ اب بھی دفتر میں جہاں وہ کام کرتے ہیں اور اب تنہا ہی ان کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ ٹی وی پر وزیر اعظم کا فوٹو نظر آتے ہی وہ کھڑے ہو کر عمران خان کو سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وقت کا انتظار کریں حالات عمران خان کی قیادت میں ضرور تبدیل ہوں گے۔ برے دنوں سے نکلنے کے لیے وقت چاہیے۔ وہ کہتے ہیں " ڈے ول کم آئی ول پروف یو اینڈ دیئر از ون اینڈ اونلی مسٹر عمران خان، آئی سلیوٹ یو" عمران خان سابق حکمرانوں کا کیا بھگت رہے ہیں اور جلد حالات پر قابو پا لیں گے۔
سابق حکمران اومان سلطان قابوس بن سعید پر جاوید چوہدری کا کالم راقم نے عمران خان کے ان حامی کو پڑھایا اور اسی سے قبل انھیں کہا کہ عمران خان نے بلکہ مرحوم حکمران سلطان قابوس اس قابل ہیں کہ انھیں سلام کیا جائے۔ کالم پڑھ کر محمد ایوب نے تسلیم کیا کہ سلطان قابوس ایک نہیں سو سلام کے لائق ہیں جنھوں نے اپنے 50 سالہ اقتدار میں ایک پس ماندہ خلیجی ملک اومان کو دنیا کا ایک مالدار ترقی یافتہ خوشحال اور ایک ایسا ملک بنا دیا جس کی غیر جانبداری اور عوام کے لیے فلاح و بہبود کے کیے گئے اقدامات کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
ہم اپنے دشمن ہمسایہ ملک بھارت سے 73 سالوں میں کشمیر کا مسئلہ اس لیے حل نہیں کرا سکے کہ بھارت دل سے ہمیں آزاد و خود مختار ملک تسلیم نہیں کرتا۔ بھارت نے 73 سال میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا بلکہ وہ تو مقبوضہ کشمیر کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتا بلکہ اب تو وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے جبری طور پر اپنا مستقل حصہ بنا چکا ہے اور چھ ماہ سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے بلکہ پاکستان کے حامی باہمت اور دلیر کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر کے بیٹھا ہے۔ کشمیر کو بھارت کے سوا ساری دنیا متنازعہ علاقہ قرار دیتی آئی ہے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد پر بھارت عمل نہیں کر رہا اور انھیں رائے شماری کا موقعہ نہیں دے رہا۔ اسی سلسلے میں موجودہ وزیر اعظم بھارت سمیت بھارت کا ہر حکمران کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے دشمنی کرتا آیا ہے۔ مودی سمیت کسی بھی حکمران نے افلاس و غربت میں عشروں سے مبتلا کروڑوں بھارتیوں کا نہیں سوچا کہ وہ کتنی بری حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کروڑوں بھارتیوں کو سر چھپانے کے لیے ٹھکانے تو کیا بیت الخلا کی بنیادی سہولت تک میسر نہیں۔ بھارتی حکمرانوں نے اپنے عوام میں یہ پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ پاکستان بھارت کا دشمن ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
پاکستان کے اور اپنے ہی مسلمانوں کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کر کے بی جے پی نے اپنی جس مذموم سیاست کی ابتدا کی تھی نریندر مودی نے انتہا پر پہنچا کر دوسری بار بھی اقتدار حاصل کر لیا ہے، جس کے بعد بھی مودی حکومت کو چین نہیں آیا اور متنازعہ شہریت بل سے بھارت میں ہنگامے کھڑے کرا رکھے ہیں اور اب تک کسی بھی بھارتی حکمران نے سلطان قابو بن کر اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی غربت ختم کرنے پر توجہ نہیں دی۔ دنیا کا دوسرا بڑا ملک اور نام نہاد جمہوریت کے دعویدار بھارت نے کشمیریوں کا رائے شماری کا عالمی حق دبا کر ان پر جبر و مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور وہ ہمارے آزاد کشمیر کو بھی ہتھیانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
تین پڑوسی ملکوں سے تنازعات خوش اسلوبی سے حل کرانے والے عظیم حکمران سلطان قابوس کی طرح کاش کسی بھارتی حکمران نے بھی سوچا ہوتا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور پڑوسی تبدیل نہیں کیے جا سکتے اور ان کا ساتھ نبھانا پڑتا ہے۔
سلطان قابوس کے تین پڑوسی ملکوں سے جو تنازعات تھے انھوں نے بھارتی حکمرانوں جیسا مذموم رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں کی مرضی کے مطابق جو مثال قائم کی اس کی تقلید بھارتی حکمرانوں کو ضرور کرنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ پڑوسی کبھی بدلے نہیں جا سکتے۔
سلطان قابوس 50 سال قبل اگرچہ اپنے والد کو معزول کر کے اومان کے حکمران بنے تھے مگر انھوں نے اقتدار میں رہ کر اپنے ملک و قوم کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں انھیں دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی جب کہ ان کے مرحوم والد کا نام بھی دنیا میں مشہور نہیں اور اللہ نے جو عزت و مقبولیت اومان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں سلطان قابوس کو ملی وہ عمران خان سمیت دنیا بھر کے حکمرانوں کو اس کی تقلید کرنی چاہیے کیونکہ جرمنی میں ہٹلر کے کاموں کو جو انھوں نے اپنے ملک و قوم کے مفاد میں کیے تھے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
غیر مسلم حکمرانوں میں ایک اور عظیم نام افریقہ کے مشہور رہنما نیلسن منڈیلا کا ہے جو سالوں قید اور ظلم و بربریت کا شکار رہے مگر جیسے ہی وہ اپنے ملک کے صدر منتخب ہوئے انھوں نے تاریخی اقدامات کیے جس کی وجہ سے وہ گورے جو خوفزدہ ہو کر جنوبی افریقہ چھوڑ کر جانا چاہتے تھے۔ سلطان قابوس کی طرح صدر نیلسن منڈیلا میں بھی انتقامی جذبہ نہیں تھا انھوں نے اپنے دشمنوں کو بھی اپنے ملک کے عظیم تر قومی مفاد میں نہ صرف معاف کیا بلکہ ان کی صلاحیتوں سے اپنے ملک کو فائدہ پہنچایا اور ملک چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کرنے والوں نے وہیں رہنے کو ترجیح دی اور دن رات محنت کرکے پس ماندہ ملک کی حالت بدل دی اور عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کی توقعات پر پورا اتر کر خود بھی ترقی کے منازل طے کیے اور انھوں نے بھی اپنے ملک میں عزت و احترام پایا۔
سلطان قابوس اور نیلسن منڈیلا نے اقتدار کے حصول کے لیے اور اقتدار میں آنے کے بعد کبھی اپنے کسی مخالف کو جیل میں ڈالنے کا اعلان نہیں کیا تھا اور نہ کبھی سابق حکمرانوں کو اوئے توئے جیسے قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے تھے اور نہ انھوں نے ڈیڑھ سال کا اقتداری عرصہ اپنے مخالفین اور سابق حکمرانوں کو موجودہ برے حالات کا ذمے دار قرار دینے میں گزارا تھا اور نہ عوام کو نہ گھبرانے کی تلقین کی تھی۔ یہ بھی سو فیصد درست ہے کہ ہمارے سابق حکمران بدعنوان اور منتقم مزاج تھے اور ان کی شہرت عمران خان کی طرح ایماندار ہونے کی نہیں تھی۔
اگر وہ اتنے ہی برے تھے تو دو بڑے صوبوں کے عوام نے انھیں زیادہ اکثریت کیوں دی تھی۔ عوام اب ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ ان چور اور ڈاکوؤں کا دور اچھا تھا۔ اتنی مہنگائی اور بیروزگاری ماضی میں کبھی نہیں ہوئی تو موجودہ وزیر اعظم کی ایمانداری کا کیا فائدہ ماضی کے بدنام اور کرپٹ لوگ تو آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور سزا بے گناہ عوام کو مل رہی ہے تو محمد ایوب کی طرح سلام کرنے کی بجائے سلیوٹ کے قابل سلطان قابوس اور نیلسن منڈیلا کو کیوں نہ سلام کیا جائے جو حقیقت میں سلام کے واقعی قابل تھے۔