مہنگائی خود تو نہیں بڑھتی
جس ملک میں معیشت سدھارنے کے ذمے دار مشیر خزانہ کو اپنے ملک میں سبزیوں، پھلوں اور اشیائے ضرورت کی خریداری سے کبھی واسطہ ہی نہ پڑا ہو، وہاں ایسی شخصیت سے ٹماٹرکی قیمت 17 روپے کلو بتانے ہی کی امید کی جاسکتی ہے۔ آئی ایم ایف میں عمر گزارنے اور کبھی کبھی اپنے ملک میں اہم عہدہ مل جانے والے غیر منتخب مشیروں اور سندھ کے سابق وزیر خزانہ جن کا تعلق ہی دیہی سندھ کے چھوٹے شہر سے ہو کو واقعی کیا پتا کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے۔
انھیں صرف مہنگائی بڑھانے کے ایک سے ایک طریقے آتے ہیں۔ ایسے افراد جو عہدے پر آکر اپنا وقت اسلام آباد اورکراچی میں زیادہ گزارتے ہوں اورکبھی کسی مارکیٹ میں نہ گئے ہوں، ان سے کیا گلہ کیونکہ یہ حکومت کرنے پاکستان آتے ہیں مارکیٹیں گھومنے نہیں۔ انھیں عہدے کے دوران ساری سرکاری سہولیات میسر رہتی ہیں اور عہدے سے فارغ ہوتے ہی یہ وہاں جا بستے ہیں۔
جہاں سے انھیں ملک کی معاشی حالت سدھارنے کے لیے خوشامد کرکے بلوایا جاتا ہے۔ اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں زیادہ رہنے والوں کو بیرون ملک رہتے ہوئے وہاں کی مارکیٹوں میں شاید کبھی جانا پڑتا ہو تو انھیں اشیا کے نرخ ڈالروں میں بتائے جاتے ہیں اور یہ لوگ وہاں بل لے کر ادائیگی کرتے ہوں گے اور ان کے نزدیک ڈالرکی حیثیت پاکستانی روپے کی لگتی ہوگی۔ پاکستان میں مشہور ہے کہ یہاں مہنگائی آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑھائی جاتی ہے اور ملکی معاملات میں غیروں کے کہنے پر عمل کرنا پڑتا ہے وگرنہ انھیں قرض نہیں ملتا۔ قرضے دینے والے عالمی ادارے سود پر قرض بھی اپنی سخت شرائط پر دیتے ہیں اور قرض وصول کرنے کے طریقے بھی جانتے ہیں اور قرض لینے والوں کو ان کی تمام شرائط ماننی پڑتی ہیں اور اپنے ملک کی عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھانا پڑتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت اور رہنما حکومت میں آنے سے قبل قرضے لینے والے پاکستانی حکمرانوں پر تنقید کرتے اورکرپشن کے لیے قرض لینے والوں پر الزامات لگاتے تھے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اقتدار میں آکر کسی سے قرض لینے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے اور آخر انھیں بھی اقتدار میں آکر عالمی اداروں سے ریکارڈ قرضے لینے پڑے اور دوستوں سے امداد بھی لینی پڑ گئی۔
کہا جاتا ہے کہ سابق حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں اور کرپشن کے لیے جو قرضے لیے تھے، ان کی قسطوں کی بمعہ سود ادائیگی کے لیے مزید عالمی قرضے لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے وگرنہ ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف تاویلیں پیش کرکے مہنگائی پر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے حکومتی اخراجات میں کمی کی ہے مگر عملاً ایسا نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے اپنے اخراجات بڑھانے کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ حکومت کے جتنے ترجمان رکھے گئے ہیں، اتنے ترجمان ماضی کی کسی قرار دی جانے والی حکومت میں نہیں رکھے گئے۔
ریاست مدینہ کی مثالیں دینے والوں کی کابینہ میں وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی اور نوازے جانے والوں کی ریکارڈ تعداد موجود ہے اور ظاہر ہے یہ سب بھاری تنخواہیں اور سرکاری مراعات و سیکیورٹی بھی لے رہے ہوں گے تو سرکاری اخراجات کیوں نہیں بڑھے ہوں گے۔ وزیر اعظم نے رحمت اللعالمین کانفرنس میں ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستانی سب سے زیادہ خیرات اور سب سے کم ٹیکس دینے والی قوم ہیں۔
اس بیان پر کراچی چیمبرز آف کامرس نے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر ایک کو ٹیکس چور قرار دینے والے حکمرانوں کو شہروں کے لحاظ سے تمام ٹیکسوں کے اعداد و شمار کو مشتہر کرنا چاہیے تاکہ حقائق منظر عام پر آسکیں۔ خیرات زیادہ اورکم ٹیکس دینے کا الزام لگانے والے یہ بتانے کی بھی تو زحمت کریں کہ پاکستان کے کسی ایک شہری کا نام ہی بتا دیں جو ٹیکس نہ دیتا ہو۔ ہر چیزکی خریداری بلکہ جمع کی گئی رقموں پر ملنے والے منافع تک پر حکومت نے متعدد ٹیکس عائد کر رکھے ہیں اورکوئی پیک چیز ٹیکس کے بغیر نہیں ملتی جس کا ثبوت مذکورہ پیکٹ پر درج ٹیکس کی رقم کا پرنٹ ہوتا ہے۔
ملک میں مہنگائی کا ذمے دار ہر فروخت کنندہ وفاقی حکومت کی طرف سے بڑھائی جانے والی پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو قرار دیتا ہے اور یہ سو فیصد حقیقت بھی ہے۔ وفاقی حکومت ہی پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، ٹیکسوں میں رد و بدل کا اختیار رکھتی ہے۔ محکمہ ریلوے میں پہلی بار غیر اعلانیہ اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں کیے جانے والے اضافے کا اثر ٹرانسپورٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ پر فوری پڑتا ہے جس کو بنیاد بناکر ہر چیزکی قیمت بڑھا دی جاتی ہے اگر نہیں بڑھتی تو وہ تنخواہیں ہیں جو سال میں حکومت بڑھاتی ہے جب کہ پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس اور ٹرانسپورٹ کے نرخ بڑھائے جانے کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے اور وفاقی حکومت جب چاہے نرخوں میں رد و بدل کردیتی ہے۔
موجودہ حکومت کے سوا سال میں ملک میں مہنگائی میں بعض وجوہات کے باعث ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس پر اپوزیشن عوام کی ترجمانی میں سراپا احتجاج ہے اور حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ مہنگائی ضرور بڑھی ہے مگر اس کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں اور ملک کی معاشی حالت کو حکومت بہتر بنانے کی کوشش مسلسل کر رہی ہے جس کے نتیجے میں توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی اس لیے عوام کو کچھ انتظار کرنا ہوگا۔
ملک میں مہنگائی تو وفاقی حکومت کے اقدامات سے بڑھتی ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد مہنگائی پر کنٹرول اور صوبائی سطح پر قیمتوں کے تعین کی آئینی ذمے داری وفاقی حکومت کی نہیں صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے مگر صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہیں اور چاروں صوبوں میں مہنگائی پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ ہر صوبے میں اشیائے ضرورت کی فراہمی، قیمتوں کے تعین اور مقررہ سرکاری نرخوں پر اپنی انتظامیہ کے ذریعے عمل کرانے کی مکمل ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے۔ صوبائی حکومتیں اور متعلقہ انتظامیہ سال میں گیارہ مہینے سوتی ہیں اور رمضان المبارک کی آمد سے قبل جاگتی ہیں۔
صرف رمضان میں قیمتیں مقرر تو کی جاتی ہیں مگر عمل بہت کم کرایا جاتا ہے۔ ناجائز منافع خوروں پرکیے گئے جرمانوں سے حکومت کی آمدنی بڑھ جاتی ہے مگر عوام کا فائدہ عارضی اور برائے نام ہوتا ہے۔ گراں فروشی کا سبب متعلقہ محکموں کی خاموشی اور مجرمانہ غفلت کے ساتھ گراں فروشی کے ذمے دار ہر سطح کے تاجر، دکاندار اور ریڑھی والوں کی من مانیاں ہیں جن کا کام صرف لوٹنا اور ناجائز منافع خوری ہے اور صوبائی حکومتیں ان پر کنٹرول نہیں کر رہیں اور سزا عوام بھگت رہے ہیں۔