کراچی پیکیجز کی سیاست
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ کراچی پیکیج شہر کا حق ہے اس پر کوئی سیاست نہیں ہوگی مگر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور حقائق مسخ کرنے پر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
انھوں نے یہ بات پی پی چیئرمین بلاول زرداری کے اس بیان کے جواب میں کہی کہ وزیر اعظم کے اعلان کردہ 1113 ارب روپے کے پیکیج میں سندھ حکومت کے آٹھ سو ارب روپے اور باقی رقم وفاق کی طرف سے ہوگی۔
بلاول زرداری کی اس وضاحت پر وزیر منصوبہ بندی کا ردعمل کیامناسب ہے کیونکہ وزیر اعظم کے اعلان سے تو لگ رہا ہے کہ وفاق نے اتنا بڑا پیکیج دے کرکراچی پر بڑا احسان کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر امین الحق نے کہا ہے کہ گیارہ سو ارب روپے کا پیکیج کراچی پر احسان نہیں ہے کراچی اگلے تین سال میں 3300 ارب روپے ملک کو کما کر دے گا۔
وزیر منصوبہ بندی عوام کو یہ بتانا ہی نہیں چاہتے کہ اس میں وفاق کتنی رقم دے گا اور اس میں تاثر یہ دیا جاتا رہا کہ وفاق اپنی طرف سے کوئی بہت بڑی رقم دے رہا ہے یہ پی ٹی آئی کی سیاست تھی اور کراچی پیکیج پر سیاست خود پی ٹی آئی اور وفاقی حکومت نے شروع کی اور دوسروں کو کہا جا رہا ہے کہ کراچی پیکیج پر سیاست نہیں ہوگی مگر سیاست کا آغاز بھی خود ہی کیا۔
گزشتہ سال مارچ میں وزیر اعظم نے کراچی کے لیے 162 ارب روپے کے جس پیکیج کا اعلان کیا تھا اس پر ڈیڑھ سال میں عمل ہوا ہے نہ کے فور منصوبے اور گرین لائن کی تکمیل ہوئی ہے بلکہ اسد عمر نے اب کہا ہے کہ گرین لائن منصوبہ جون 2021 ئمیں اورکراچی سرکلر ریلوے منصوبہ2023ء اور کے فور منصوبہ 2022ء کے آخر تک یعنی تینوں اہم منصوبے مزید تین سال میں مکمل ہوں گے۔ کراچی کے لوگ پیاسے آج ہیں۔ سفر کی کوئی بھی سہولت کراچی کو سالوں سے میسر نہیں آئی مگر اب مزید تین سال انتظار کرائے جانے کا اعلان تو ہوا ہے مگر حکومتی وعدوں پر یقین کسی کو نہیں ہے۔
کراچی کو گزشتہ سال اگر 162 ارب روپے مل جاتے تو کوئی اچھی امید ہوسکتی تھی اور وزیر اعظم کے موجودہ اعلان کا بھرم رہ جاتا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی کے 1113 ارب کے پیکیج کے بعد وزیر اعظم کو خط لکھ کر اندرون سندھ کے لیے امداد کی درخواست تو کی ہے اب دیکھیں کیا جواب ملتا ہے کیونکہ 14 قومی نشستیں دینے والے کراچی کو تو دو سالوں میں محض اعلانات ہی ملے ہیں عملی طور پر کچھ ہو تو مسائل حل ہونے کی امید پیدا ہو سکتی ہے وگرنہ مزید تین سال بھی ایسے ہی گزر نہ جائیں۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے دعوے اور اعلانات قوم سالوں سے سنتی آ رہی ہے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بھی وزیر اعظم کے اعلان کردہ پیکیج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ یہ پیکیج تاخیر سے ایم کیو ایم کے میئر کے جانے کے بعد کیوں دیا گیا، کیا کراچی کو سب سے زیادہ جاننے والے ہمارے بلدیاتی نمایندوں کی مدت مکمل ہونے کا انتظار تھا۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز صاف کہہ چکے ہیں کہ ہمیں سندھ پر اعتماد نہیں اس لیے انھیں براہ راست پیسے نہیں دے سکتے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ جو پیسہ دیں وہ کراچی پر لگیں۔ وزیر اطلاعات نے الزام لگایا کہ بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ حقائق کو توڑ مروڑکر پیش کر رہے ہیں جب کہ وفاق کراچی ٹرانسفارمیشن کے لیے 6کھرب 11 ارب روپے دے رہا ہے۔ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر ایڈمنسٹریٹرکراچی، اور این ڈی ایم اے عمل کرائیں گے۔ وزیر اعظم نے نیک نیتی سے یہ پیکیج دیا ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ وفاق اور سندھ حکومت میں اعتماد کا فقدان ہے جس کی ذمے دار سندھ حکومت ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے فنڈز سندھ میں کہاں لگے نظر نہیں آ رہے۔
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس کے جواب میں کہا کہ وفاقی حکومت جھوٹ کے سہارے کھڑی ہے سندھ حکومت کوئی جھوٹ نہیں بول رہی بلکہ ہم نے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو نے اس سلسلے میں غلط نہیں کہا بلکہ وفاقی ترجمان شہباز گل اپنی نوکری بچانے کے لیے اس معاملے میں ٹانگ اڑا رہے اور غلط بیانی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے اعلان کردہ پیکیج پر ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ اس پیکیج کے لیے اعلان کردہ رقم نہ وفاق کے پاس ہے نہ سندھ حکومت کے پاس تو دیکھیں یہ وعدہ کب وفا ہو گا کیونکہ اب تک تو حکومت نے اپنے کسی اعلان پر عمل کرکے نہیں دکھایا۔ حکومتی حمایتیوں کا تو مسلسل یہ موقف ہے کہ کراچی پیکیج کے لیے وفاق 62 فیصد رقم اور سندھ حکومت 38 فیصد رقم فراہم کرے گی اور کراچی کے مسائل پی ٹی آئی کی حکومت حل کرکے دکھائے گی۔
وزیر اعظم کافی تاخیر سے کراچی آئے اور انھوں نے شہر کے کسی بھی متاثرہ علاقے کا دورہ نہیں کیا اور اپنی 6 گھنٹوں کی سرکاری مصروفیات کے بعد واپس لوٹ گئے اور بے شمار سوالات چھوڑ گئے۔ وزیر اعظم کے اعلان پر نہ سندھ حکومت مطمئن ہے نہ حکومت کی حلیف ایم کیو ایم نہ دوسری جماعتیں صرف پی ٹی آئی شادیانے بجا رہی ہے اور اس منصوبے پر اپنی سیاست چمکا رہی ہے جس سے کراچی کے لیے یہ منصوبہ سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔
لگتا یہی ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کو نظر انداز کرکے خود سارا کریڈٹ لینا چاہتی ہے اور اس نے ایم کیو ایم کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ کراچی آنے اور اندرون سندھ نہ جانے پر بھی پی پی سوالات اٹھا رہی ہے کیونکہ وہاں بھی بڑے نقصانات ہوئے ہیں جس کو وفاق نے نظر انداز کیا جس سے پیپلز پارٹی کو سیاسی فائدہ اور پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا۔
پیکیج کی رقم موجود ہے نہ واضح کہ کہاں سے آئے گی۔ کس کا بڑا حصہ ہے سب خفیہ ہے مگر اس پر سیاست شروع ہو چکی ہے اور سارا کریڈٹ لینے کی سیاست عروج پر ہے اور کہا بھی جا رہا ہے کہ سیاست نہ کی جائے اور سندھ حکومت پر اعتماد بھی نہیں تو عوام سوچ رہے ہیں کہ یہ بیل کیسے اوپر چڑھے گی؟