اقتدار ساڑھے تین برسوں کا ہے
موجودہ پی ٹی آئی حکومت اپنے اقتدارکی تقریباً ڈیڑھ سالہ مدت پوری کر رہی ہے مگر یہ ملک کی واحد حکومت ضرور ہے جس نے اپنے اقدامات سے عوام میں اپنی عدم مقبولیت کا بھی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
اس سلسلے میں عوام اپنے ناپسندیدگی کا اظہار ملکی میڈیا سے زیادہ نجی ویب چینلوں اور سوشل میڈیا پر کھل کر کر رہے ہیں اور سخت طیش میں آکر وزیر اعظم پر برس رہے ہیں اور ان کی طرف سے کہے گئے الفاظ "گھبرانا نہیں ہے" سن سن کر تنگ آگئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو جو ہنی مون پیریڈ ملا تھا وہ اپوزیشن سے برداشت نہیں ہوا تھا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ تو اس ملک میں ہوتا آیا ہے اور ہر نئی حکومت کے خلاف اپوزیشن اس قسم کا ہی پروپیگنڈا کرتی آئی ہے۔
عوام کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ نئی حکومت کو کام کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔ پی ٹی آئی حکومت کو ناتجربہ کار تو اس لیے کہا جاسکتا تھا کہ اسے پہلی بار وفاق میں اقتدار ملا تھا مگر پی ٹی آئی اتنی بھی ناتجربہ کار نہیں تھی جتنا اس کے لیے کہا گیا کیونکہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں پانچ سال حکومت کرچکی تھی۔ پی ٹی آئی کے برعکس مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی وفاق میں تین تین بار حکومت بنا چکی تھیں اور دونوں کے پاس وہ تجربے کار لوگ تھے جو دونوں کی سابقہ ہی نہیں بلکہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں بھی شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں مجبوری میں عہدے دیے گئے ہیں مگر انھیں وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو وہ چاہتے تھے۔
حکومت میں پی ٹی آئی بھی دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے ایک حصہ وہ ہے جو عمران خان کے دیرینہ اور نظریاتی ساتھیوں پر مشتمل پارٹی کے سینئر رہنما ہیں اور دوسری طرف پی ٹی آئی میں سیاسی مفاد کے لیے شامل ہونے والے دوسری جماعتوں کے وہ لوگ ہیں جو عمران خان کے دیرینہ اور نظریاتی ساتھی نہیں ہیں اور پی ٹی آئی میں جونیئر بھی ہیں۔
پی ٹی آئی کے قیام کے وقت عمران خان کے نظریے کے حامی وہ بھی رہنما ہیں جو اب پی ٹی آئی میں نہیں ہیں اور انھوں نے عمران خان سے ان کی پالیسی سے اختلاف کے باعث علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ ان کے خیال میں عمران خان میں عملی طور پر اپنی مرضی کے خلاف بات سننے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ بھی اپنی مرضی کی بات سننا اور جی حضوری کرنے والے رہنماؤں کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ عمران خان کے مزاج سے واقف پی ٹی آئی کے بعض رہنما بھی جارحیت پسند ہیں جن کی حرکتوں اور ان کے جارحانہ مزاج کی شکایات ملنے کے باوجود ان کی سرزنش نہیں کی جاتی۔
شیخ رشید احمد پرانے مسلم لیگی ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کے بعد (ق) لیگ میں رہے اور پی ٹی آئی اور پی پی میں شمولیت کی بجائے انھوں نے اپنی عوامی مسلم لیگ بنائی تھی جس کی ملک میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور ملک کی سیاست میں اگر انفرادی اہمیت ہے تو وہ خود شیخ رشید کی ہے۔ شیخ رشید نے اپنے سابقہ قائد نواز شریف کے خلاف جو جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے وہی رویہ عمران خان کا رہا ہے اور نواز شریف بلکہ شریفوں کی مخالفت میں دونوں ایک ہیں اور شیخ رشید کا یہی رویہ انھیں پارٹی قیادت کے قریب رکھے ہوئے ہے۔
شریفوں اور مبینہ سابقہ حکمرانوں کے خلاف عمران خان کی طرح کا جارحانہ رویہ وفاقی وزیر مراد سعید کا ہے اور کوئی پی ٹی آئی رہنما شریفوں پر اتنی کڑی تنقید نہیں کرتا۔ فواد چوہدری وزیر اطلاعات تھے تو ان کا رویہ اپنی پرانی پارٹی پیپلز پارٹی کی قیادت سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف زیادہ جارحانہ تھا۔ انھوں نے اپنے بعض اقدامات سے میڈیا کو بھی اپنے خلاف کرلیا تھا اور وہ کسی اور سے اپنی مرضی کے خلاف سننے کو تیار نہیں تھے۔
یہی حال پنجاب میں فیاض الحسن چوہان کا تھا جنھوں نے میڈیا کے ساتھ اپوزیشن رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لینے کی پالیسی اپنائی تھی مگر فیاض چوہان اقلیتوں کو بھی رگڑ گئے تھے جس کی وجہ سے پہلے انھیں وزارت سے ہٹایا گیا پھر دوسری وزارت دی گئی اور چند ماہ بعد انھیں دوبارہ پنجاب کی وزارت اطلاعات سونپ دی گئی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وزارت سے ہٹائے جانے کے باوجود وزیر اعظم کی گڈبک ہی میں شامل رہے۔ اپوزیشن کے خلاف ان کا جارحانہ رویہ اب بھی برقرار ہے۔ صوبائی وزیر ہونے کے باوجود وہ اپوزیشن کے قومی رہنماؤں کے خلاف لب کھولنے میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔
پی ٹی آئی کے سینئر اور امیر رہنما عبدالعلیم خان کسی وجہ سے وزیر اعظم کے قریب نہیں رہے ورنہ وہ بھی فیاض الحسن چوہان اور سبطین خان کی طرح دوبارہ وزیر بنا دیے جاتے۔
جس طرح عمران خان نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کیے تھے ویسے ہی دعوے وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے بھی کیے جو کبھی پورے نہ ہونے والے تھے اور نہ ہوئے۔ کراچی سے وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی کا کچرا صاف کرانے کا اعلان کیا جس کے لیے فنڈز بھی جمع کیے مگر کراچی صاف نہ ہوا۔ سندھ حکومت نے کہاں پیچھے رہنا تھا وہ بھی ایک ماہ کی صفائی مہم لے کر آئی اور مزید توسیع کی بجائے مہینہ پورا ہوتے ہی غائب ہوگئی مگر کچرا نہ صرف موجود ہے بلکہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے اور عوام پریشان سب کا منہ دیکھ رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی والوں کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اورکرپٹ عناصر کا خاتمہ ہے مگر قوم نہیں مان رہی بلکہ عوامی سروے میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور مہنگائی سے پیدا ہونے والی بے روزگاری ہے۔ وزیر اعظم اور حکومتی حلقے لاکھ کہیں کہ موجودہ صورتحال کے ذمے دار سابق حکمران ہیں مگر کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں اور وہ برملا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ سابق حکمران اچھے تھے جن کے بارے میں پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ ہیں اگر وہ خود کھا رہے تھے تو ان کے کھانے اور کرپشن کے باوجود ملک میں اتنی مہنگائی نہیں تھی جتنی ایمانداری کے دعویداروں کی حکومت میں ہوچکی ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد میڈیا میں دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ واحد وزیر ہیں جو کابینہ اجلاس اور وزیر اعظم سے ملاقاتوں میں ان کی توجہ مہنگائی پر مبذول کراتے ہیں تو انھیں جواب ملتا ہوگا کہ گھبرانا نہیں ہے۔
ملک میں مہنگائی نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے ہیں۔ جنگ 1965 اور 1971 کے علاوہ سنگین بحرانوں اور کرفیو اور بھرپور احتجاجوں کے دوران بھی ملک میں کبھی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی تھی جتنی موجودہ حکومت کے اقتدار میں آتے ہی ہونا شروع ہوئی تھی جو مسلسل جاری ہے اور حکومت نئے سال کا آغاز بھی پٹرولیم کی مصنوعات مہنگی کرکے عوام کو بطور مبارکباد دیتی ہے۔ گزرنے والے سال کے اختتام پر بجلی و گیس مزید مہنگی کرکے پرانے سال کو رخصت کرتی ہے اور یہ سب کچھ خود ہی کرکے عوام کو کہا جا رہا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔
پورا ملک مہنگائی سے پریشان ہوکر بری طرح گھبرایا ہوا ہے مگر اگر کوئی نہیں گھبرایا تو وہ وزیر اعظم ہیں جو اقتدار سے قبل مہنگائی بڑھنے، پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کا تنہا ذمے دار اس وقت کے حکمرانوں کو قرار دیتے تھے اور سر عام بجلی کے بل بھی جلاکر عوام سے تالیاں بجوایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں اور حکمران کہہ رہے ہیں کہ ابھی ہمارے پاس اقتدار کے باقی ساڑھے تین سال ہیں مگر حکمران یہ بھول بیٹھے ہیں کہ یہ پاکستان ہے جہاں اپنے ہی بنائے ہوئے صدور خصوصاً جنرل پرویز مشرف کی صدارت کے باوجود پاکستان میں ایسا کوئی بھی ریکارڈ نہیں کہ کسی منتخب یا نامزد وزیر اعظم نے اپنے 5 سال پورے کیے ہوں۔ یہاں دو منتخب سویلین صدور نے 5 سالہ مدت ضرور پوری کی اور غیر سویلین صدر تو ایک دہائی سے بھی زیادہ برسر اقتدار رہے مگر کوئی ایک بھی وزیر اعظم 5 سال اقتدار میں نہیں رہا۔ یہ ریکارڈ ہے جو برقرار ہے اور کبھی اس کے ٹوٹنے کا بھی امکان نہیں ہے۔
ضروری آئینی ترامیم کرا لی گئیں۔ سیاسی بیانیے دھرے رہ گئے۔ جن کو جانے نہیں دینا تھا وہ باہر چلے گئے یا باہر آگئے۔ نیب کو عدالتوں میں پیش کرنے کے ثبوت نہیں مل سکے۔ 2020 نئے انتخابات کا سال ہو نہ ہو سال بدلا سیاسی بیانات اور حکومتی لہجے بدلے اب مہنگائی سے گھبرا کر پہلے سے گھبرائے ہوئے عوام کی گھبراہٹ بے صبری میں نہ بدل جائے اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے تو بہتر ہوگا کہ صبر کی مزید تلقین کی بجائے عوام کے لیے مزید گھبراہٹ کے اقدامات نہ کیے جائیں۔