داغ دھبے تو اچھے ہوتے ہیں
پی ٹی آئی کی ایک خاتون رہنما نے کہا ہے کہ ملکی اپوزیشن ملک پر مزید دھبے لگانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے پہلے پاکستان کو دھبے لگائے اور اب مزید دھبے لگانا چاہ رہی ہے جب کہ حکومت گرے لسٹ سے ملک کا نام نکلوانے کی کوشش کررہی ہے۔ اپوزیشن کی وجہ سے گرے لسٹ کے داغ پاکستان پر لگے تھے۔
میں ٹی وی دیکھ رہا تھا اور اس وقت کوئی کمرشل چل رہا تھا جس میں کہا جا رہا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کے مبینہ طور پر لگائے گئے دھبوں کی وجہ سے حکومت کی کوشش کو اب اپوزیشن کامیاب نہیں ہونے دے رہی اور وزیر اعظم کے بقول بلیک میل کر رہی ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وزیر اعظم سے قبل کراچی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی دیکھنے کراچی آئے تھے اور انھوں نے وفاقی حکومت پر کراچی سمیت ملک میں تباہی و بربادی کا الزام لگایا تھا۔ مرکز میں دو سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور دو سالوں میں ملک میں جو کچھ ہوا ہے وہ حکومتی پارٹی کو تو نظر نہیں آیا البتہ لاہور میں بیٹھی مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کو ضرور نظر آیا ہے اور حکومت حلیف ایم کیو ایم کو بھی کراچی کی تباہ حالی نظر تو آتی ہے مگر وہ کھل کر بول نہیں پاتی۔
ایم کیو ایم کی مجبوری یہ ہے کہ وہ طویل عرصہ وفاق اور سندھ کے اقتدار میں شامل رہی ہے اور اس پر بھی اس کے مخالف کراچی کو تباہ کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں جو ماضی میں من مانیوں کی عادی اور خوف ودہشت گردی کی علامت رہی ہے۔
ایم کیو ایم پر یہ الزام غیر ہی نہیں بلکہ اس کے ماضی کے اپنے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال بھی مسلسل لگا رہے ہیں اور ملک میں پہلی بار زمینوں پر قبضوں اور سرکاری زمینوں کو چائنا کٹنگ کے نام پر فروخت کرنے کے ایسے الزامات ہیں جو پیپلز پارٹی بھی اس پر لگا رہی ہے جب کہ اس وقت ایم کیو ایم بھی پی پی کی حکومتوں میں شامل تھی اور خود پیپلز پارٹی پر بھی داغ ہیں کہ اس نے اور اس کے لوگوں نے کراچی کے نواحی علاقوں میں سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے وہاں غیر قانونی تعمیرات کرائیں، غریبوں کے نام سرکارکی بجائے خود فائدے اٹھائے، گوٹھ آباد کیے اور پھر پی پی اور ایم کیو ایم دونوں نے اپنے غیر قانونی کاموں کو تحفظ دیا کیونکہ دونوں ہی کے لوگ غیر قانونی کام کرانے والے تمام سرکاری اداروں میں موجود تھے۔ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے داغ دھبے دونوں پارٹیوں کے دامن پر لگے ہیں۔
اشتہاروں میں تو داغ اچھے ہوتے ہیں مگر سابق وزیر اعظم نواز شریف پر سیسلن مافیا کے جو داغ عمران خان نے لگائے تھے وہ اب تک موجود ہیں جب کہ عدالتی ریکارڈ میں اس داغ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم اور حکومتی عہدیدار اپنی حکومت آنے اور پہلے سے سابق حکمران جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اور ان کی قیادت پر مسلسل چور، ڈاکو اور کرپٹ ہونے کے سنگین الزامات شد ومد سے لگاتے آئے اور اب بھی لگا رہے ہیں جن پر پہلے تو عوام نے بھی یقین کرکے انھیں مسترد کیا تھا مگر دو سالوں میں تبدیلی حکومت نے اپنی ناتجربہ کاری، نااہلی اور سیاست برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے ان اقدامات نے ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور بیڈ گورننس کے داغ لگا لیے ہیں وہ دور نہیں ہوئے بلکہ اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان ایمانداروں سے ماضی کے چور ڈاکو اور کرپٹ اچھے تھے جن کے دور میں نہ اتنی مہنگائی تھی نہ بے روزگاری۔ تبدیلی حکومت نے سابق حکمرانوں پر جو داغ دھبے لگائے تھے وہ اس حکومت نے اپنے اقدامات سے خود ہی دھو دیے ہیں اور عوام سے جینے کا حق تک چھین لیا ہے۔
یہ حق عوام کو سابق چور ڈاکوؤں اور مبینہ بدعنوانوں کے دور میں تو حاصل تھا جو اب چھن چکا ہے اور تبدیلی حکومت میں اس تواتر سے جھوٹ بالا جا رہا ہے کہ عوام یہ سن کر تنگ آگئے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ ماضی کے چور و ڈاکو حکمرانوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور توقع ہے کہ آیندہ تین سالوں تک بھی یہ داغ دھبے موجودہ حکمرانوں کی طرف سے سابق حکمرانوں پر لگائے جاتے رہیں گے۔
حکومتی اقدامات اور عوام نے ثابت کردیا ہے کہ سابق حکمرانوں پرکرپشن کے جو داغ لگائے گئے تھے وہ داغ اب صاف ہو رہے ہیں اور عوام اب ماضی کے حکمرانوں کو ہی تبدیلی حکومت سے بہتر کہنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ یہ داغ اب تک عدالتوں میں تو ثابت نہیں کرائے جاسکے ہیں مگر حکمرانوں کی گردان مسلسل جاری ہے، اور جو دھبے موجودہ حکمران اب تک ملک کے سابق حکمرانوں پر لگا چکے ہیں وہ صرف عدالتوں کے فیصلوں سے ہی دھل سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے کرتا دھرتاؤں کی شکایت اورکرپشن کے الزامات خود حکومتی ارکان اسمبلی لگا رہے ہیں اور نیب بھی وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت حکومتی ذمے داروں کو بلا کر اپنے پاس حاضری لگا چکی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ملک میں یہ کام انھی اداروں کو کرنے دیا جائے جن کا یہ کام ہے۔