اگر تول کر بولا ہوتا
حکومت نے چند روز قبل کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے لیے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی، مولانا اور اپوزیشن خود حکومت سے بات کرنا چاہے تو حکومت کے مذاکرات کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ چند روز بعد ہیاس نے یوٹرن لیا اورکور کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک کو مذاکراتی کمیٹی کے لیے سربراہ بنا کر انھیں کمیٹی کے ارکان تک کا انتخاب کرنے کا اختیار دے دیا ہے مگر مولانا نے فوری طور پر حکومت کی مجوزہ مذاکراتی کمیٹی کو مسترد کر دیا اور شرط عائد کردی کہ مذاکرات کے لیے جو بھی آئے، مگر وزیر اعظم کا استعفیٰ ساتھ لائیں تو مزید بات ہوسکتی ہے۔
یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ حکومت نے خود مولانا کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں حکومت کو مولانا سے مذاکرات پر مجبور ہونا پڑگیا ہے، مگر مولانا نے ایک ایسی سخت شرط عائد کر دی ہے جو وزیر اعظم کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی کہ صرف 14 ماہ بعد ہی وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگا جا رہا ہے جب کہ عمران خان یہ کام پہلے خود ہی کرچکے ہیں، انھوں نے بھی صرف 14 ماہ بعد بڑی اکثریت کی حامل حکومت کے مضبوط وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگا تھا اور اپنے طویل دھرنے میں اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر ہرگز واپس نہیں جائیں گے۔
دنیا نے دیکھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ناکام واپسی کے بعد تحریک انصاف کو واپسی کا راستہ ہی نہیں مل رہا تھا کہ کیا کریں کیونکہ حقیقی دھرنا علامہ کا تھا جو تحریک انصاف سے بڑا تھا جب کہ پی ٹی آئی کا دھرنا رات کو ایک میوزیکل شو بن کر رہ گیا تھا، جہاں چند سو شائقین محض تفریح کے لیے شریک ہوتے تھے۔
16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی سے تحریک انصاف کو 17 دسمبر کو اپنا دھرنا ختم کرنے کا موقعہ ملا اور اس کی ایک غیر موثر اور ناکام دھرنے سے جان چھوٹی تھی جو اپنی طوالت کے باعث اس کے لیے وہ کمبل بن گیا تھا جو کسی حصول کے بغیر اسے چھوڑنا چاہتی تھی مگر کمبل اسے نہیں چھوڑ رہا تھا۔
عمران خان کے دھرنے میں وہ سیاسی تنہائی کا شکار تھے اور انھوں نے چار حلقے نہ کھولے جانے پر دھرنا دیا تھا جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کی وجہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء تھے اور دونوں قائدین اسلام آباد جانے کے لیے لاہور سے نکلے تو ایک ہی روز تھے مگر ٹائمنگ الگ الگ تھی اور دونوں الگ الگ اسلام آباد پہنچے تھے۔ دونوں نے اپنی اپنی مرضی سے الگ الگ دھرنے ختم کیے تھے اور دونوں کے دھرنے کی یہ بات تھی کہ طاہر القادری بھی وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کر رہے تھے اور عمران خان بھی، مگر طاہر القادری کے مقابلے میں عمران خان نے بڑے بلند وبانگ دعوے ہی نہیں کیے تھے بلکہ سول نافرمانی کی بھی دھمکی دی تھی اور اپنے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار بلکہ بجلی کا بل جلاکر بھی دکھایا تھا۔
عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا اور ان کے دھرنے کی تمام سیاسی جماعتیں مخالف تھیں اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور اے این پی اسمبلیاں برقرار رہنے اور نئے انتخابات کی حامی نہیں تھیں اور چاہتی تھیں کہ نواز حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ اس وقت عمران خان اور ان کے ارکان قومی اسمبلی اپنے استعفے اسپیکر کو دے چکے تھے جب کہ کے پی کے میں ان کی اپنی حکومت تھی۔
موجودہ صورتحال مختلف ہے اور پی ٹی آئی کے سوا کسی بھی جماعت نے 2018 کے انتخابی نتائج قبول نہیں کیے تھے بلکہ وفاقی حکومت کی حلیف ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سمیت تمام اپوزیشن کی جماعتوں نے نتائج مسترد کرتے ہوئے الیکشن چوری کیے جانے کے الزامات لگائے تھے۔ صرف جے یو آئی کا موقف تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھائیں مگر ان کی تجویز اپوزیشن نے قبول نہیں کی تھی اور نہ ہی کوئی مستعفیٰ ہوا تھا اور نتائج مجبوری میں قبول کیے گئے تھے۔
وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن میں شکایتوں کے الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ ہمیں ایسی انتخابی شکایات نہیں ملیں۔ سابق وفاقی وزیر فیصل صالح حیات نے پنجاب کے الیکشن ٹریبونل میں اپنی شکست کے سلسلے میں سوا سال قبل انتخابی عذر داری داخل کی تھی جس پر سوا سال میں کارروائی تک شروع نہیں ہوئی جس پر فیصل صالح حیات نے بطور احتجاج اپنی الیکشن پٹیشن واپس لیتے ہوئے درخواست میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن پٹیشن کا جو طریقہ کار بنایا وہ ڈھونگ تھا کیونکہ پٹیشن ابھی ابتدائی مرحلے ہی میں ہے جب اس کی سماعت کی نوبت آئے گی تو اسمبلی مدت ہی پوری ہوچکی ہوگی۔
یہ درخواست ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ الیکشن کمیشن دھاندلی کا الزام کبھی تسلیم نہیں کرتا تو وہاں الیکشن پٹیشن داخل کرنا وقت کا ضیاع ہی ہوتا ہے جلد فیصلہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی درست ہے کہ الیکشن کمیشن اگر ایک سال میں ہی کسی الیکشن پٹیشن کا فیصلہ کرتا ہے تو نااہل قرار پانے والا عدلیہ سے حکم امتناعی لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس کی مثال ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری ہیں جن کے خلاف سوا سال بعد فیصلہ آیا اور الیکشن کمیشن کو اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر نااہلی کا نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا۔
وزیر اعظم عمران خان جولائی 2018 کے انتخابات کو منصفانہ اور تمام دیگر جماعتیں غیر منصفانہ قرار دیتی ہیں اور حکومت کا آئینی وجود تسلیم نہیں کرتیں اور 14 ماہ کی حکومتی کارکردگی اور انتخابی وعدوں اور اعلانات پر عمل نہ ہونے پر بھی مشتعل ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ عمران خان نے اپنے جلسوں میں اپنی تقریروں میں جو کہا تھا اور سابقہ حکومتوں پر الزامات لگاتے ہوئے جو دعوے کیے تھے ان میں کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے 105 دعوؤں پر یوٹرن لیے اس لیے اگر ان کی اقوام متحدہ کی تقریر اچھی بھی تھی تو عملی اقدامات سے نتیجہ نکلتا ہے صرف بیانات دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔
پیپلز پارٹی کے علما و مشائخ ونگ نے عمران خان کی سابقہ تقاریرکے حوالے سے سوشل میڈیا پر 105 تفصیلات جاری کی ہیں جن پر وزیر اعظم بن کر عمران خان نے کوئی عمل نہیں کیا جس پر اپوزیشن کو وزیر اعظم پر تنقید کا بھرپور موقعہ مل رہا ہے۔ جو بالکل جائز بھی ہیں کیونکہ عمران خان نے حقائق کے برعکس اگر تول کر بولا ہوتا اور سابقہ حکومتوں پر الزامات لگاتے وقت حقائق کا ادراک کیا ہوتا تو انھیں آج اپوزیشن کی تنقیدکا سامنا نہ ہوتا۔ عمران خان کے انتخابی وعدے اپنی جگہ اگر انھوں نے وزیر اعظم بن کر اپوزیشن کو اسلام آباد آنے کی دعوت اورکنٹینر اور بریانی فراہم کرنے کی بات نہ کی ہوتی تو ان کا اعلان آج آزادی مارچ کے سلسلے میں ان کے گلے نہ پڑتا۔ عوام اب ان کے وعدوں پر عمل چاہتے ہیں مگر موجودہ حکومت اپنے کسی وعدے پر عمل نہ کرسکی اور عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی بنی ہوئی ہے جو بڑھنے کے بعد مسلسل بڑھ رہی ہے۔