مسکراتی جھلکیاں
تاریخ قتل و غارت سے اٹی پڑی ہے۔ کوئی بیٹے کو قید کر رہا ہے۔ کوئی بھائی کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا رہا ہے۔ کوئی دشمن کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنے کا حکم دیتا ہے۔ یہاں تک کہ مقتول کے گوشت کو پکا کر اس کے اہل خانہ کو بھجوا دیتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کو اس کے بیٹوں کے بریدہ سر طشت میں سجا کر پیش کئے جاتے ہیں، شہر کے شہر جلائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو بلند میناروں سے نیچے پھینکا جاتا ہے۔ آخری عباسی خلیفہ کو ہاتھی کے پائوں تلے روندا جاتا ہے۔ عورتوں کو بھاگتے گھوڑوں کے پیچھے باندھا جاتا ہے۔ بچے نیزوں میں پروئے جاتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے سر انگریزوں نے محفوظ کئے اور کھوپڑیوں کو ایش ٹرے کے طور پر استعمال کیا۔
مگر اسی تاریخ میں کچھ جھلکیاں مسکراتی ہوئی بھی ملتی ہیں۔ آئیے آج اُن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
خلیفہ ہارون الرشید صحرا کی سیر کو نکلا۔ ایک بوڑھا خچر سوار ملا۔ پوچھا کہاں کا قصدہے۔ بوڑھے نے بتایا کہ بصرہ سے بغداد آیا ہے تاکہ آنکھوں کا علاج کرائے۔ جعفر برمکی ساتھ تھا۔ خلیفہ نے اسے اشارا کیا کہ اس سے کچھ شغل کرو۔ جعفر نے بوڑھے کو کہا کہ میرے پاس ایک نادر نسخہ ہے۔ تم اسے آزمائو تو علاج کے لئے کہیں جانا نہ پڑے گا۔ بوڑھا مسافر بے تاب ہو گیا اور کہا کہ نسخہ بتائو۔
جعفر برمکی نے کہا سورج کی کرن، چاند کی چمک، ہوا کا جھونکا اور چراغ کی لَو، یہ چاروں اجزا اڑھائی اڑھائی تولے لو۔ پھر انہیں اُس کھرل میں پیسو جس میں گہرائی نہ ہو تین ماہ تک کوٹتے رہو۔ پھر ایک ٹوٹے ہوئے برتن میں ڈال کر تین ماہ ہوا میں رکھو۔ پھر اونٹ کی پنڈلی کو سلائی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہر رات تین سو بار آنکھوں میں لگائو۔ تین ماہ کے بعد شفایاب ہو جائو گے۔
مسافر جھلا کر خچر سے اترا۔ ایک ڈنڈا جعفر برمکی کو رسید کر کے کہا یہ ہے تمہاری اجرت! اور جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر بادشاہ انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔ چنانچہ بوڑھے کی قسمت بھی جاگ اٹھی۔
خلیفہ مہدی عباسی شکار کے دوران بارش سے بچنے کے لئے ایک بدو کے گھر پہنچ گیا۔ میزبان سے پوچھا کچھ پینے کے لئے ہے۔ اس نے چھاگل میں بھری نبیذ پیش کی۔ مہدی نے پہلا پیالہ پیا۔ موسم رنگین تھا۔ کچھ دیر بعد حالتِ حال میں آ گیا۔ بدو سے پوچھا جانتے ہو میں کون ہوں۔ بدو نے کہا مجھے کیا معلوم! کہا میں امیر المومنین کا خادم خاص ہوں۔ بدو نے دعا دی کہ خدا مرتبہ بڑھائے۔ پھر دوسرا پیالہ پیا اور بدو سے پھر پوچھا کہ میں کون ہوں۔ بدو نے بتایا کہ آپ خلیفہ کے خادم ہیں۔ مہدی نے کہا ہرگز نہیں! میں فوج کا سپہ سالار ہوں! بدو نے پھر دعا دی کہ حکومت میں وسعت ہو اور مراد حاصل ہو۔ پھر مہدی نے تیسرا پیالہ چڑھایا اور پوچھا جانتے ہو میں کون ہوں۔ بدو نے کہا ابھی آپ نے بتایا ہے کہ فوج کے افسر ہیں، مہدی نے کہا ہرگز نہیں! بدو نے پوچھا تو پھر آپ کون ہیں؟ مہدی کہنے لگا میں امیر المومنین ہوں۔ یہ سنتے ہی بدو نے چھاگل اور پیالہ سامنے سے اٹھا لیا اور کہا کہ خیریت اسی میں ہے کہ آپ چوتھا پیالہ نہ نوش فرمائیں ورنہ پیغمبر ہونے کا دعویٰ کر دیں گے۔
کیا سوچ رہے ہو؟ ابوالفضل نے بتایا کہ فیضیؔ کی غیر منقوط تفسیر کا دیباچہ لکھ رہا ہوں۔ دیباچہ بھی غیر منقوط ہے۔ والد کا نام شیخ مبارک لکھنا ہے سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں؟ عرفی نے فوراً کہا اپنے لہجے میں ممارک لکھ دو۔ (اس زمانے میں گنوار دیہاتی مبارک کو ممارک کہتے تھے) فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتے رکھنے کا شوق تھا۔ کچھ پلے سونے کے پٹے گلوں میں ڈالے چل پھر رہے تھے۔ عرفی نے ان کے نام پوچھے۔ فیضی نے شرارت سے جواب دیا "بہ اسم عرفی" یعنی عام سے نام ہیں۔
قلم دان سے زمانہ فائونٹین پین تک آیا۔ پھر بال پین آ گئے اب کاغذ قلم رخصت مانگ رہے ہیں کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کا زمانہ ہے۔ مگر ایک زمانہ تھا کہ قلم دان ساتھ اٹھانا پڑتا تھا۔ یحییٰ برمکی کا ایک کاتب عبداللہ تھا۔ اسے بلایا اور مراسلہ لکھنے کا حکم دیا۔ کاتب نے عرض کیا کہ حضور! قلم دان نہیں ہے۔ یحییٰ برہم ہو گیا اور اس کو خوب جھاڑا۔ عبداللہ لکھنے بیٹھا تو اتنا بدحواس ہو چکا تھا کہ لکھا ہی نہ جا رہا تھا۔ یحییٰ نے اس کی حالت دیکھی تو کہا تم مقروض معلوم ہوتے ہو۔ عبداللہ نے اعتراف کیا کہ تین لاکھ درہم کا مقروض ہوں۔ یحییٰ نے اسے اس قرض سے نجات دلائی۔ عرفی شیرازی کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے ؎
عرفیؔ تو میزلیش ز غوغائی رقیبان
آوازِ سگان کم نہ کند رزقِ گدا را
عہد اکبری کی بات ہے۔ عرفی ملاقات کے لئے ابوالفضل کے گھر گیا۔ ان دنوں فیضی نے تفسیر قرآن لکھی تھی اور یوں کہ غیر منقوط تھی یعنی کوئی لفظ نقطے والا نہ تھا۔ ابوالفضل اس وقت قلم دانتوں میں دبائے کچھ سوچ رہا تھا۔ عرفی نے فوراً کہا " مبارک باشد"! کہ مبارک ہو! (مبارک فیضی کے والد کا نام تھا) شہنشاہ جہانگیرنے ابو طالب کلیم کوملک الشعرا کا خطاب دیا مگر ملکہ نور جہاں اسے ناپسند کرتی تھی۔ ایک مرتبہ کلیم نے شعر کہا ؎
ز شرم آب شدم کا ب را شکستی نیست
بحیر تم کہ مرا روزگار چوں بشکست
میں شرم سے پانی ہو گیا پانی ٹوٹ نہیں سکتاپھر بھی حیران ہوں کہ زمانے نے مجھے کیسے توڑ کر رکھ دیانورجہاں تک شعر پہنچا تو اس نے کہا یہ کون سی مشکل ہے۔ پانی کو منجمد کر کے برف بنایا تو ٹوٹ گیا۔
ایران سے آئے ہوئے شعرا زندگی ہندوستان میں گزار دیتے تھے مگر مقامی زبان کا ایک لفظ زبان پر نہ لاتے تھے۔ کہتے ہیں عرفی نے ساری عمر میں صرف ایک لفظ جھگڑا ہندوستانی کا بولا۔ مگر ابو طالب کلیم اشعار میں بے دریغ ہندی الفاظ لاتا تھا۔ ؎
تبان راجپوت و شیخ زادہ
شکیب عاشقان برباد دادہ
کہ راجپوت حسینائوں اور شیخ زادوں نے عاشقوں کو صبر سے محروم کر دیا۔ پھر کہا
گُلِ گڈھل نہ فہمیدست موسم
شگفتہ چون رخِ یاراست دائم
کہ گڈھل کے پھول پر موسم کا اثر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ محبوب کے چہرے کی طرح کھلارہتا ہے۔ (گڑھل کا پھول نہ جانے کون سا ہوتا تھا)مغلوں کے بارے میں فرانسیسی ڈاکٹر برنیٹر لکھتا ہے کہ اگر شمال کو سفر کرتے تو تخت رواں پر جاتے۔ مشرق کی طرف سفر کرنا ہوتا تو ہاتھی استعمال کرتے۔ مغرب کی طرف جانے کے لئے گھوڑے پر سواری کرتے اور جنوب کی طرف سفر کرنا ہوتا تو رتھ یا گھوڑا گاڑی کا استعمال ہوتا۔ محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ مغل افزائش نسل کے لئے ہندوستانی بیوی رکھتے۔ پروٹوکول اور مہمان نوازی کے لئے ایرانی بیگم۔ گھر سنبھالنے کے لئے افغان اور ان سب کو قابو میں رکھنے کے ایک بیوی ترک بھی رکھتے!
یہ سب بادشاہ ضعیف الاعتقاد تھے۔ حد درجہ توہم پرست! شاہ عباس صفوی نے کچھ پودے شادی باغ کے لئے منگوائے۔ اتفاق سے اس وقت باغبان حاضر نہ تھا۔ نجومی نے ستاروں کا حساب لگا کر باغ کی مختلف جگہوں پر پودے لگائے اور دعویٰ کیا کہ یہ ہمیشہ رہیں گے۔ باغبان دوسرے دن آیا۔ اسے یہ مقامات مناسب نہ لگے۔ اس نے سارے پودے اکھاڑ دیے۔ بادشاہ کو معلوم ہوا تو غضب ناک ہوا کہ نجومی نے حساب کتاب سے لگائے تھے۔ باغبان عرض گزار ہوا کہ جہاں پناہ! اس کا دعویٰ سراسر جھوٹا تھا۔ اس کی منتخب جگہوں پر تو پودے دو دن بھی نہ ٹھہر سکے!