این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کی ضرورت
پاکستان کے ان گنت مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نئے مالی سال کے پہلے دن ہی حکومت کنگال ہو جاتی ہے۔ بعض مالیاتی ماہرین اس کی وجہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کو بتاتے ہیں، وفاق جو کماتا ہے وہ صوبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ تنخواہ، بجٹ اور قرضوں کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2010 میں 18 ویں ترمیم کے تحت این ایف سی کا اعلان ہوا جس میں پہلی بار وفاق کے حصے میں خاطر خواہ کمی کی گئی اور صوبوں کا حصہ بڑھایا گیا۔ اس سے قبل وسائل کا سب سے بڑا حصہ وفاق کو جاتا تھا۔
نئے فارمولے میں طے کیا گیا کہ اگر پاکستان کی آمدنی 100 روپے ہو گی تو اس میں وفاق کا حصہ 42.5 روپے ہوگا۔ 57.5 روپے صوبوں کو دئے جائیں گے۔ این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے وفاق کے پاس قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی بجٹ کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ جس حکومت کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہو گا وہ اپنا کام کیسے چلائے گی، ظاہر ہے کہ قرضہ ہی لینا پڑے گا۔
وفاقی حکومت کی مالی پوزیشن کو ہم ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ گزشتہ سال 5 ہزار 500 ارب روپے کے بجٹ اہداف کی بجائے ٹیکس آمدن 3996 ارب ہوئی تھی۔ اس میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 57.5 فیصد یعنی تقریباً 2300 ارب روپے صوبوں کو منتقل ہو گئے باقی بچنے والے 1700 ارب روپے میں سے 1100 ارب دفاعی بجٹ میں چلے گئے۔ باقی 600 ارب میں سے ڈھائی ہزار ارب روپے ڈیٹ سروسنگ میں چلے گئے یعنی تقریباً 2000 روپے خسارہ ہو گیا۔ اب نیا سال 2000 ارب خسارے سے شروع ہوا اور یہ وفاق کا معمول ہے۔
مملکت کے باقی مصرفات ادھار اور قرضوں سے چلتے ہیں۔ وزیر اعظم کئی بارشکایت کر چکے ہیں، یہ پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے اور اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی اور وفاق کی مالی پوزیشن کے بارے میں نہ صرف عمران خان شکایت کرتے رہے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی یہی بات کرتی رہی ہیں۔ ن لیگ اور تحریک انصاف میں تو اس معاملے پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ وفاق کی بقا اور پاکستان کی معیشت کے لئیاہم ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ مسائل حل کرنے کیلئے آئین میں ترمیم ضروری ہے۔
صوبے خود بھی اپنے پیسے جمع کرتے ہیں، سندھ کو اپنے وسائل سے اچھی خاصی رقم ملتی ہے اور وفاق سے بھی حصہ ملتا ہے لیکن سندھ کے باسیوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ کراچی اور سندھ کے دیگر بڑے شہروں کا حال سب کے سامنے ہے، خاص طور پر ٹرانسپورٹ کا نظام۔ پیپلز پارٹی کم و بیش 13 سال سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے لیکن کراچی جیسا بڑا شہر اچھی ٹرانسپورٹ کو ترس رہا ہے۔ شہری خجل خوار ہو رہے ہیں۔
اس بار بلوچستان حکومت اپنے وسائل سے 25 ارب روپے جمع کرے گی۔ اس میں 15 ارب ٹیکس ہوگا اور 10 ارب روپے نان ٹیکس کے ہونگے۔ بلوچستان حکومت کے اخراجات کا تخمینہ 480 ارب روپے ہے۔ کے پی حکومت 52 ارب روپے جمع کرے گی، خرچ کرے گی 885 ارب۔ پنجاب حکومت 480 ارب روپے جمع کرے گی اور خرچ کرے گی 2090 ارب روپے۔ اسی طرح سندھ حکومت جمع کرے گی 240 ارب روپے اور خرچ کرے گی 1140 ارب۔ اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ صوبے اتنا ٹیکس جمع نہیں کر پا رہے جتنا ان کا خرچ ہے۔
صوبوں کا یہ کہنا ہے کہ جو اچھی آمدن والے ٹیکس ہیں وہ وفاق نے رکھ لئے جیسے سیلز ٹیکس آن گڈز اور انکم ٹیکس، ہمارے پاس آمدن والے ٹیکس نہیں بچے۔ پراپرٹی ٹیکس صوبوں کے پاس ہے جسے وہ صحیح سے استعمال نہیں کر رہے۔ اس طرح سے کچھ چیزیں دیکھنا پڑینگی کہ کونسا ٹیکس صوبوں کو دینا ہے کونسا وفاق اپنے پاس رکھے۔ کچھ ایسے ٹیکس بھی ہونگے جو آپ صوبے کوبھی دے سکتے ہیں اور وفاق کوبھی جیسے پراپرٹی ٹیکس۔ مقصد یہ ہونا چاہئے کہ مجموعی خسارے کو کم کیا جائے۔ وفاق کو کمزور کر کے صوبوں کو مضبوط کرنا عقلمندی نہیں۔ صوبے زیادہ تر ہیلتھ اور ایجو کیشن پر خرچ کرتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ صوبوں کو اپناٹیکس بڑھانا پڑے گا اور یہ چیک کرنا پڑے گا کہ کونسے ٹیکس صوبوں کو اور کونسے وفاق کے پاس ہونے چاہئیں۔ تیسری بات وفاق کوبھی کچھ ٹیکس بڑھانا پڑے گا، وفاق کوچاہئے کہ صوبوں کو ریسورس جمع کرنے کی ذمہ داری دے۔ آپ اگر کسی کو کہتے ہیں کہ خرچہ کرو میں پیسے دیدوں گا، یہ نہیں ہو نا چاہئے۔ اس کی جگہ اسے کہو کہ جو تم مانگتے ہو وہ میں دونگا لیکن اپنے پیسے بھی جمع کرو۔ آمدنی اور خرچے میں توازن ہونا چاہئے۔ دوسرا یہ ہونا چاہئے کہ جب وفاق صوبوں کو پیسے دے رہا ہے تو پھر وہ پیسے صوبوں تک محدود نہ رہیں بلکہ ضلعی حکومتوں کو بھی وہ پیسے منتقل کئے جائیں تاکہ حکومت صحیح معنوں میں مقامی سطح پر فعال ہو۔
پورے پاکستان میں اس وقت مقامی حکومتیں نہیں۔ ابھی تک مقامی حکومتوں کے الیکشن نہیں ہوئے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مقامی حکومتوں کو اختیار دیں تا کہ جو خرچ ہو رہا ہے وہ صحیح معنوں میں لوگوں کے کام آئے۔ بھارت میں انکم ٹیکس آن گڈز صوبوں کے پاس ہے اورسرسز پر سیلز ٹیکس وفاق کے پاس ہے۔ پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔ امریکہ میں انکم ٹیکس صوبے بھی لگا سکتے ہیں اور وفاق بھی، یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ سامان پر انکم ٹیکس صوبوں کودیدیں اور کچھ وفاق لے لے۔ اسی طرح پراپرٹی ٹیکس میں وفاق کا حصہ ہونا چاہئے اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا، آپس میں بیٹھ کر۔
پراپرٹی ٹیکس صوبوں کا ہے۔ اب 6 سے 8 فیصد ٹیکس ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ جب کوئی 20 کروڑ کی پراپرٹی رجسٹرڈ کرانے جا تا ہے تو حکومت نے اسکا ڈی سی ریٹ دو کروڑ یا چار کروڑ روپے مقرر کیا ہوتا ہے اس سے 16 کروڑ کی رقم کو تو ویسے ہی جعلسازی بنادیا گیا وہ 16 کروڑ کسی ریکارڈ میں نہیں ہیں۔ یہ تو آپ نے بے ایمانی یا چوری کرنے کا فائدہ دیدیا۔ ہونا یہ چاہئے کہ اس ٹیکس کو ایک فیصد پر لے آ ئیں اور زمین کی مارکیٹ قیمت پر یہ ہونا چاہئے۔ جیسے زمین کی قیمت 20 کروڑ ہیظاہر کی جائے۔ اس پر ایک فیصد ٹیکس 20 لاکھ ہو گا جو لوگ دیں گے۔ اس سے دستاویزات بھی کم ہو ںگی۔ رشوت بھی کم ہو جائے گی۔ اسی طرح کچھ ایسے بھی اقدامات کرنے ہونگے کہ وفاق کے پاس مالی وسائل بچ سکیں۔