لیکن عوام کو کیا فائدہ
سال 2020 کی معیشت تو کورونا کھا گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلا سال کیسے ہو گا۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 7 فیصد رکھنے کا اعلان کیاہے۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا زور ٹوٹنے کی امید ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں بہتری آ رہی ہے اور بین الاقوامی ادائیگیوں کے مقابلے وصولیوں کا پلڑا بھاری ہے۔ اسٹیٹ بینک کے جاری مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی رفتار تیز ہوئی ہے لیکن حکومت کی جانب سے رسد میں بہتری کے اقدامات سے قیمتوں میں کمی کا امکان ہے۔ رواں مالی سال معاشی ترقی کی رفتار توقعات کے مطابق 2 فیصد سے تجاوز کر جانے کی امید ہے۔ ٹیکسٹائل، سیمنٹ، پیپر، کھاد اور دیگر مختلف شعبوں کی پیداوار میں بہتری آئی ہے۔
زرعی شعبے میں جہاں کپاس کی پیدوار گھٹی ہے تو وہاں دوسری جانب حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ فصل کی پیداوار بڑھانے میں معاون ہو سکتا ہے۔ ترسیلات زر میں اضافہ، عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی اور امپورٹس کو لگام دینے سے جولائی تا اکتوبر عالمی وصولیاں ادائیگیوں سے 1 ارب 20 کروڑ ڈالر زائد رہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے شرح سود اس بھی کم ہونی چاہئے تھی خاص طور پر اس ماحول میں جب کوویڈ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، پاکستان میں دوسری لہر زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ اسما رٹ لاک ڈائون یا مکمل لاک ڈائون کی بات ہو رہی ہے ان حالات میں بزنس کی رفتار سست ہو رہی ہے، دنیا بھر میں شرح سود خاص طور پر ان ممالک میں جہاں کورونا ابھی بھی شدت اختیار کئے ہو ئے ہے، وہاں شرح سود زیرو پرسنٹ کردی گئی ہے۔
پاکستان میں ہر چیز کا تعلق مہنگائی کے ساتھ ہے، حکومت کس طرح سے مہنگائی کنٹرول کر سکتی ہے۔ مہنگائی دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو یہ کہ لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہو تا ہے اکانومی گرو کر رہی ہوتی ہے لوگ پیسہ زیادہ خرچ کر نے لگتے ہیں جس کی وجہ سے چیزیں کم پڑ جاتی ہیں۔ دوسری جانب سپلائی کمزور ہوتی ہے ایک تو بے روز گار لوگوں کے پاس پیسے نہیں دوسرا چیزوں سپلائی بہتر نہ ہونے سے مارکیٹ میں چیزیں نہیں مل پاتی، جس سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ نہیں کہ لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے اور وہ خرچ کر رہے ہیں ہمارے لوگوں کے پاس پیسہ بھی نہیں اور چیزوں کی کمی بھی ہے اسی لئے مہنگائی ہے۔ اگر حکومت عام استعمال کی اشیا سستی کردے تو ایک تو مہنگائی کم ہو گی دوسرا آٹو میٹک لوگوں کے پاس پیسے زیادہ ہو جائیں گے۔ دوسرا اسٹیٹ بنک نے ایک اچھا اقدام کیا تھا کہ بزنس کیلئے قرضے پر مارک اپ 4 یا 5 فیصد ہے تو بزنس مین اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن جب تک کوویڈ ہے اس وقت تک ریلیف مشکل ہے۔ اگر کورونا بڑھ گیا تو نوکریاں مزید کم ہو سکتی ہیں حکومت نے کنسٹرکشن سیکٹر کو کھولا تھا اس پر اثر پڑ سکتا ہے، مہنگائی کم ہو جائے، شرح سود تھوڑی سی اور کم ہو، بزنس کو اوپر لایا جائے تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں، فی الحال صنعتی سیکٹر میں بہتری آ رہی ہے، پاکستان کے میکرو نمبر بہت بہتر نظر آ رہے ہیں، اس وقت پاکستان کی معیشت کی سمت درست جا رہی ہے، ٹیکسٹائل، سیمنٹ، اسٹیل، فرٹیلائزر، آٹو موبیل، فارمو سیو ٹیکل سیکٹر میں بہتر پیداوار ہو رہی ہے۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق مالی سال میں جی ڈی پی گروتھ 1.5 سے 2.5 فیصد رہنے کی امید ہے، حالانکہ پاکستان کی جو جی ڈی پی ہونی چاہئے اس سے یہ بہت کم ہے لیکن پھر بھی کورونا کی وجہ سے عالمی معیشت کا جو انجام ہوا اور جو پاکستان کا حال ہوا، اس سے یہ بہتری کی جانب قدم شمار کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ ترسیلات زر 2 ارب ڈالر سے زیادہ موصول ہو رہی ہیں، ورلڈ بنک نے امکان ظاہر کیا اس سال پاکستان میں ترسیلات زر 9 فیصد سے بڑھ کر 24 ارب ڈالر تک جا سکتی ہیں، کرنٹ اکائونٹ مسلسل چوتھے ماہ بھی سر پلس رہا ہے، جولائی سے اکتوبر کرنٹ اکائونٹ سر پلس ایک ارب 20 کروڑ ڈالر رہا۔
اکتوبر میں ایکسپورٹ پچھلے سال کے مقابلے میں 6.18 فیصد بڑھی، ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں اس مالی سال میں اب تک تقریباً 4 فیصد اضافہ ہوا، زر مبادلہ کے ذخائر بھی اڑھائی سال کی بلند ترین سطح پر 20 ارب ڈالر سے زائد ہو گئے ہیں جن میں 13 ارب ڈالر کے سرکاری ذخائر بھی شامل ہیں، یہ مجموعی صورتحال ہے مالی سال کے پہلے 4 مہینوں میں جو صورتحال ہے اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ باقی 8 ماہ میں صورتحال مزید بہتر ہو گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی ترجیح تو کورونا سے نمٹنا ہے اس پر کیسے قابو پایا جائے، کورونا کے پہلے فیز میں ملکی حالات واقعی خراب ہو گئے تھے اسکے بعد جب کوروناکچھ کم ہوا اور حالات کچھ سنبھلے ریکوری میں اچھے اہداف آنا شروع ہوئے۔ صنعتی پیداوار میں 5 فیصد اضافہ ہوا جو ایک مثبت قدم ہے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ دنیا کی بہترین اسٹاک مارکیٹ ثابت ہو رہی ہے، دنیا بھر کے انویسٹر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگانا چاہتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں جو کمپنیاں آپریٹ کر رہی ہیں۔ کورونا کے بعد سے اب تک پاکستان کو جی ٹونٹی ملکوں سے قرضوں کی واپسی میں 1 ارب 69 کروڑ ڈالر کا ریلیف مل چکا ہے۔
جون 2021 تک مزید 80 سے 90 کروڑ ڈالر کا ریلیف متوقع ہے جی ٹونٹی ممالک کی جانب سے پاکستان کو مجموعی طور پر اڑھائی ارب ڈالر کی سہولت ملے گی۔ جی 20 ممالک کے ریلیف سے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں پر دباؤ کم ہوگا اور ڈالر کی قدر بھی مستحکم ہوگی۔ اس سے قبل مئی سے دسمبر 2020 تک پاکستان نے چین سے 34 کروڑ 70 لاکھ ڈالر، امریکا سے 12 کروڑ 83 لاکھ ڈالر، فرانس سے 17 کروڑ اور جرمنی سے 8 کروڑ 61 لاکھ ڈالر، سویڈن سے ایک کروڑ 44 لاکھ اور کینیڈا سے 80 لاکھ ڈالر کا قرض ریلیف حاصل کیا تھا۔
زرمبادلہ کے ذخائر بہتر بنانے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 2.84 کروڑ ڈالر منتقل کیے تھے، ان معاہدوں کے بعد پاکستان کویہ فنڈز واپس کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ جولائی سے اکتوبر کے مہینہ تک 12 لاکھ 54 ہزار 813 ملین روپے کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں 5.98 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ملکی برآمدات کا حجم 11 لاکھ 83 ہزار 957 ملین روپے کی برآمدات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اکتوبر کے مہینہ میں برآمدات میں 8.77 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اکتوبر 2020ء میں 3 لاکھ 42 ہزار 539 ملین روپے کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں۔ یہ تمام تو معاشی اشارئیے ہیں لیکن عوام کو ان سب کا کیا فائدہ ہو گا حکومت کو اس کا سوچنا چاہئے، جب تک عوام کو سستی اشیا نہیں ملیں گی عوام کسی بھی اشارئیے کو نہیں مانے گی سبزی، آٹا، چاول چینی، دالیں عام آدمی کی پہنچ میں نہیں آئینگی تمام اچھے اشارئیے بھی بے کار ہیں۔