حکومت عوام کے غصے کی فکر کرے
پاکستان میں معاشی ترقی کی پیمائش کیلئے غربت میں کمی، بیروزگاری میں کمی، دولت کی عدم مساوات کی بنیاد پر دنیا میں رائج کسی بھی قدر آلہ پیمائش چاہے وہ بنیادی ضروریات کا نظریہ ہو، معیار زندگی کا انڈکس ہو، فلاح و بہبود کا پیمانہ معاشی ترقی ہو، یا انسانی ترقی کا انڈکس ہو تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عوام غربت کے منحوس چکر میں بْری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ عوام کی اکثریت کو نہ تو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہے اور نہ ہی انہیں تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا اور پہننے کیلئے صاف پانی میسر ہے، معاشی ترقی سے مراد ایسا عمل ہے، جس کے تحت کوئی بھی ملک اپنے ذرائع کو بھرپور طریقے سے اس طرح استعمال کرتا ہے جسکے نتیجے میں ملک کے عوام کی حقیقی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کے وسائل کو سستی اور موثر ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ تعلیم اور ہنرمندی کے فروغ سے معاشرے میں متوسط طبقہ ابھر کر سامنے آتا ہے اور اگر ملکی قیادت اور نوکر شاہی محب وطن ہو، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہو تو وہ معاشی ترقی کے عمل میں معاشی مافیازوجود میں نہیں آنے دیتی ہے اور معاشی ترقی کے عمل میں زیادہ ثمرات سمیٹنے والوں پر ریاست براہ راست ٹیکس زیادہ سے زیادہ لگا کر دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہیں ہونے دیتی ہے اور امرا پر لگائے گئے ٹیکسوں سے حاصل کردہ محصولات عام طبقے کی فلاح و بہبود کیلئے اجتماعی معاشی اور سماجی منصوبوں پر لگائے جاتے ہیں، جس سے جہاں لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں، ریاست اپنے غریب عوام کو تعلیم، صحت اور خوراک کو کم نرخوں پر فراہم کرتی ہے یا نیشنل انشورنس کے ذریعے انتہائی مستحق اور بیروزگاروں کیلئے تعلیم اور صحت کی مفت سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، ہمارے ہاں معاشی ترقی کا وہ عمل جو انتہائی کامیابی سے 1960ء میں شروع ہوا تھا اور دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے اختتام پر پاکستان نے بڑی تیزرفتاری سے معاشی ترقی کی تھی، جس کی شرح 5.2 فیصد تھی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کیمطابق یہ شرح افزائش ترقی دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تھی اور یہ بات ملک کیلئے بڑی حوصلہ افزا تھی، جس کی بنا پر پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن نے بیس سالہ تناظر میں معاشی منصوبہ تیار کیا مگر ہمیں ستمبر 1965ء میں بھارت سے جنگ لڑنا پڑی جس کی وجہ سے تمام وسائل ملک کے ترقیاتی کاموں سے ہٹ کر دفاع کی طرف منتقل ہو گئے اور پاکستان کی معاشی امداد کا سلسلہ بند ہو گیا اور بعدازاں اسی منصوبے کے بلیو پرنٹ پر عمل کرکے جنوبی کوریا معاشی ترقی کی منزل تیزی سے طے کر گیا۔۔ گزشتہ دہائیوں میں پاکستان میں معاشی ترقی کا عمل بیرونی اور اندرونی قرضوں کے ذریعے مصنوعی طورپر جو وقوع پذیر ہوا۔ اس میں صرف اور صرف حکمران طبقے اور بیورو کریسی کے کرتے دھرتوں کی قسمت تبدیل ہوئی ہے، پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ سے روایتی نوکرشاہی رہی ہے جن کی وجہ سے اگر کوئی حکمران اہم اور ضروری فیصلہ عوام کے مفاد میں بھی لے، تو اس پر عملدرآمد سرخ فیتے کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ ریاستی ادارے اربوں روپے کے خسارے پر چل رہے ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ تعلیم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا اور آج بھی دو کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ کئی دہائیوں سے ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ جس کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ ہر سال بڑھتا ہی رہا ہے۔ مستحکم معیشت کی دو بنیادیں صنعت اور زراعت کی پیداوار زوال پذیر رہی ہے۔ قومی خزانے کو جس بے دردی اور سنگدلی کے ساتھ لوٹا گیا، اس کی داستان نیب کے پاس اور میڈیا، اور ویڈیوز میں موجود ہیں۔ ماضی کی ناکام معاشی پالیسیوں کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے لینے پڑتے ہیں، پاکستان کی معاشی حالت انحطاط پذیر ہی رہی ہے۔ ماضی کی غلط معاشی پالیسیوں اور لوٹ مار کی وجہ سے پاکستان آج تک معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اب پاکستان ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے، آہستہ آہستہ مہنگائی کم ہو جائے گی، روز گار کے مواقع بڑھ جائینگے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ قومی مالیات میں صوبوں کا حصہ 53 فیصد اور وفاق کا حصہ 47 فیصد ہے، جس کی وجہ سے مسائل پیش آرہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا ابھی تک اعتماد بحال نہیں کیا جا سکا۔ ہیومن ریسورس کی صورتحال بھی پریشان کن ہے جاپان کو پانچ لاکھ ہنر مند افراد کی ضرورت ہے، پاکستان کے پاس ہنرمند افراد نہیں ہیں جن کو جاپان بھیجا جا سکے۔ آبادی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ گروتھ کم ہوتی جارہی ہے، جس کی بنا پر معاشی مستقبل مخدوش ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا ہے، معاشی استحکام کے لیے لازم ہے کہ صنعت اور زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے گورننس کو بہتر کیا جائے، کرپشن پر قابو پایا جائے اور گروتھ میں مڈل کلاس کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آئے ہیں ان کو استحصالی سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانی چاہئیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے عوام کو سہانے خواب دکھانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ وزیراعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پوری کابینہ نے یہ گمان کرلیا ہے کہ عوام کا پیٹ چکنی چپڑی باتوں سے بھر جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کا یہ بیان ہی ملاحظہ فرمالیں کہ درآمدی چینی مارکیٹ میں آچکی ہے، جو 15 سے 20 روپے فی کلو سستی ہوگی۔ ان کے ساتھ بیٹھے وزیر تحفظ خوراک سید فخر امام نے کہا کہ گندم کی قیمت میں اضافے کی وجہ پیداوار میں 20 لاکھ ٹن کمی ہے، لیکن اب درآمدی گندم سے قیمت میں کمی ہونا شروع ہوگئی ہے، لیکن شاید وفاقی حکومت اور وزرا کو اب بھی لوگوں کی تکالیف کا حقیقی ادارک نہیں ہے، کیوں کہ قوم یہ بیان 100 روز کے پہلے دعوے سے سنتی چلی آرہی ہے، مگر اس کے دکھوں اور تکالیف میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے، حکومت کو 2سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا۔ اب اسے سابق حکمرانوں کو کوسنے کے بجائے خود کچھ کرنا ہوگا۔ غریبوں کا استحصال کرکے سرمایہ داروں کو نوازنے والی کوئی بھی حکومت ماضی میں چلی ہے نہ چل سکتی ہے۔ اس لیے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن اور اس کی حالیہ تحریک سے خوف زدہ ہونے کے بجائے عوام کے غم و غصے کی فکر کریں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اپوزیشن سے تو بچ جائے، لیکن عوام کا اشتعال اس کا سورج غروب نہ کر دے۔