پیپلز پارٹی کی کامیابیاں
الیکشن کمیشن نے این اے 249کے ضمنی الیکشن کا سرکاری نتیجہ روک دیا ہے تاہم الیکشن کے ابتدائی نتائج میں پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل کامیاب قرار پائے ہیں، کراچی کے اس ضمنی الیکشن کے ابھی مختلف پولنگ سٹیشنوں سے رزلٹ آرہے تھے کہ ن لیگ کی قیادت نے پہلے اپنے امیدوار کی کامیابی کا دعویٰ کر دیا اور جب صورتحال یکسر بدلی تو دھاندلی کا شور مچا دیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی روایت رہی ہے جو فیصلہ حق میں آئے وہ منصفانہ اور شفاف ہوتا ہے، مخالف آنے والا فیصلہ عدالتی ہو یا عوامی انہوں نے کبھی قبول نہیں کیا، جو قابل تعریف رویہ نہیں ہے، کراچی کے ضمنی الیکشن میں اول تو رائے دہندگان نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور پولنگ سٹیشن کا رخ ہی نہیں کیا جو دراصل سیاسی جماعتوں اور امیدوارواں کیخلاف کھلا اظہار عدم اعتماد تھا، اس ضمنی الیکشن میں وفاق اور سندھ میں حکمران جماعتوں سمیت تمام پارٹیوں کے ووٹ بینک میں کمی آئی حتیٰ کہ ایم کیو ایم بھی نامراد ٹھہری، خوش آئند بات مگر یہ ہے کہ کراچی کا ووٹر مقامی اور لسانی سیاسی گروہوں کو خیر باد کہہ کر قومی سیاسی دھارے میں شامل ہو رہا ہے اور اس کا کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کی اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریروں اور وعدوں کو نہ دینا زیادتی ہو گی، اگر چہ وہ انتخابی دعوے اور وعدے بھی خواب و خیال ہو چکے ہیں، کالعدم تحریک لبیک کے امیدوار کا اتنی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنا بھی حیرت کا باعث ہے، ان کے حوالے سے تلخ ترش خبریں پردہ ذہن پر تازہ ہیں، اس کے باوجود ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ایک غیر معمولی بات ہے اور حکومتی ذمہ داران کو اس حوالے سے سوچ بچار کی اشد ضرورت ہے ورنہ مستقبل میں معاملات زیادہ گھمبیر صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
ہزار ہا اختلاف کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ آصف زرداری سیاست، مفاہمت کے جادوگر ہیں، جب تک وہ علالت کے باعث سیاست سے دور رہے ملکی سیاست ایڈونچر سے خالی و عاری دکھائی دی مگر سینیٹ الیکشن میں جیسے ہی آصف زرداری میدان عمل میں نکلے تو زرداری کی سیاسی چالوں نے نقشہ ہی پلٹ ڈالا، انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود اسلام آباد کی نشست سے کامیاب کرا کے مخالفین ہی کو نہیں اپنوں کو بھی حیران کر دیا، اگر چہ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کیلئے آصف زرداری کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں مگرآصف زرداری نے اتحادی جماعتوں کے ان رہنماوں کو جو اپوزیشن اتحاد میں غلبہ کے خواہشمند تھے کو باور کرا دیا کہ صرف تقریروں اور بیانات سے میدان نہیں مارے جاتے، شطرنج کی بساط پر بیٹھنا ہے تو شاطرانہ چالوں سے آگہی بھی ضروری ہے، ورنہ بساط کسی اہل کھلاڑی کیلئے چھوڑ دینا چاہئے، ہر شخص نواب زادہ نصراللہ نہیں بن سکتا جو بعد المشرقین نظریات کے حامل سیاستدانوں اور مذہبی رہنماوں کو ایک میز پر لا بٹھاتے تھے، کوئی مانے یا نہ مانے زرداری میں بھی ایسے خواص موجود ہیں اور وہ اتحادیوں کو خوش رکھنے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہیں۔
سینیٹ الیکشن کے دوران پنجاب میں ن لیگ نے تحریک انصاف سے حصہ بقدر جثہ کی بنیاد پر ڈیل کر لی، نتیجے میں زرداری کو پنجاب میں قدم جمانے کا راستہ نہ ملا، مگر کے پی کے میں مطلوبہ ووٹ نہ ہونے کے باوجود زرداری نے اپنے دو سینیٹرز جادوگری سے منتخب کرائے، اس کے بعد اسلام آباد کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کو تو گیم چینجر قرار دیا جانے لگا، چیئرمین سینیٹ کیلئے بھی ان کا نام سامنے آیا، مگر یہاں تحریک انصاف نے حفاظتی منصوبہ بندی کر لی جس کے نتیجے میں گیلانی کامیاب نہ ہو سکے، ان کی شکست میں بھی بنیادی کردار اپوزیشن اتحاد کی رکن جماعت جے یو آئی (ف) کے سینیٹرز نے اد اکیا، اپوزیشن لیڈر سینیٹ کے عہدے پر مگر اپوزیشن اتحاد کی دو بڑی جماعتوں میں ٹھن گئی، پیپلز پارٹی نے یوسف گیلانی کو ہی میدان میں اتارا، ن لیگ مقابلہ میں اپنا امیدوار لے آئی، اور اس معمولی عہدے کیلئے دونوں جماعتوں کے ماضی کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے، فضل الر حمٰن نے اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دئیے، بلاول نے اس نوٹس کی کاپی پارٹی اجلاس میں پھاڑ کر پھینک دی، شائد آصف زرداری نے بلاول کی وزارت عظمیٰ کے راستے سے تمام رکاوٹیں دور کر دی ہیں۔
اس صورتحال نے سیاسی منظر میں کچھ تبدیلیوں کی بھی نشاندہی کی، نتیجے میں پیپلز پارٹی جو سندھ تک محدود ہو نے کے باوجود اب بھی ملک گیر جماعت ہے کی پوزیشن سندھ میں مزید مضبوط ہو گئی، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا وفاق سے رویہ بدلا اور ان کے لہجے میں یقین اور اعتمادآگیا، موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی سندھ، ن لیگ وسطی پنجاب، تحریک انصاف جنوبی پنجاب اور کے پی کے میں مضبوط ہیں، وفاق میں کل کلاں کو البتہ کوئی جماعت اپنی اکثریت کی بنیاد پر حکومت سازی نہ کر سکے گی اور ادھر ادھر سے زبردستی کے اتحادی ملا کر وزیر اعظم منتخب ہو گا، آصف زرداری نے پنجاب سے ن لیگ کا کردار محدود کرنے کیلئے ایک تجویز دی تھی کہ مسلم لیگ ق سے اتحاد کر کے عثمان بزدار حکومت کیخلاف عدم اعتماد تحریک لائی جائے، مگر ن لیگ کو پنجاب میں کسی کی بھی حکومت منظور ہے مگر چودھری برادران ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور ان کے ساتھ ہاتھ ملانے اور ایک میز پر بیٹھنا انہیں گوارا نہیں، اگر چہ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت نے اس کی حمائت نہیں کی تھی مگر آصف زرداری کی چال بہت شاطرانہ تھی، انتہائی اہم بات پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں نے انتخابی طریقہ کار پر اعتراضات اٹھائے ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ کہ جب وزیر اعظم نے انتخابی قوانین میں اصلاحات کی بات کی تو تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس پر اعتراض کیااور تعاون کرنے سے انکار کر دیا، قوم حیران ہے کہ جب قوانین میں کہیں کوئی خامی دکھائی دیتی ہے تو اس کی اصلاح منتخب ایوان کا کام ہے مگر اپنا آئینی کام کرنے پر یہ لوگ رضا مند نہیں اس پر اعتراضات کی بارش کا پھر کوئی جواز نہیں بنتا، پھر جو قانون ہے اسی کے مطابق معاملات انجام دئیے جائیں گے۔
شہباز شریف جیل سے باہر آ چکے، اب وہ پنجاب یا قومی سیاست میں کوئی متحرک کردار ادا کریں گے یا اب بھی گوشہ نشین رہیں گے اس بارے تجزیہ کار تذبذب کا شکار ہیں، بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ وہ مفاہمت کا ڈول ڈالیں گے مگر نواز شریف پی ڈی ایم سے مایوس ہو چکے، مریم نواز اس تدبر اور فراست کا مظاہرہ نہ کر سکیں جو موجودہ حالات کا تقاضا تھا اس لئے شہباز شریف پر سب کی نظر ہے، تاہم پیپلز پارٹی کی اب اتحاد میں واپسی اپنی شرائط پر ممکن ہے، لگتا ہے کامیابیاں اب پیپلز پارٹی کی طرف ہی بڑھ رہی ہیں۔