مجھے چکر آرہے ہیں
عرصے بعد ذہن کچھ لکھنے پر آمادہ ہوا، اپنے پڑھنے والوں سے پہلے بھی تاخیر پر معذرت کرچکا ہوں، سوچا اس بار بھی کرلوں گا، ویسے بھی تبدیلی سرکار نے یوٹرن کو سنہرا اصول ڈیکلیر کر رکھا ہے، اب تو یہ چلن ہے کہ ذمے داری کوئی سونپی گئی ہے اور باتیں کسی اورکی ہورہی ہیں۔
غور کریں! کیا تبدیلی سرکار کے کسی وزیر باتدبیر کے منہ سے اپنی وزارت کی کارکردگی کے بارے میں کبھی کچھ سناہے، جب سے اس حکومت کا نزول ہوا ہے، ایسا کوئی خوشگوار لمحہ کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ حکومت کے آغاز میں ساری کی ساری کابینہ نے چور چور کا اتنا ڈھول پیٹا کہ ڈھول ہی پھٹ گیا۔
قوم کو بتایا گیا کہ پاکستانی عوام کی تمام تر تکالیف کی واحد وجہ نوازشریف ہیں جنھیں "کیفر کردار" تک پہنچایا جائے گا (جو آج کل بالکل ویسے ہی لندن نشین ہیں جیسے کوئی خلد نشین ہوتا ہے)۔ ایک خوبرو نوجوان بزرجمہر نے تو ایڑھیوں تک زور لگا کر یہ بھی فرمایا تھاکہ پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر بیرون ملک پڑ ے ہیں، عمران خان پہلے دن ہی دو سوارب ڈالر بازیاب کرائے گا، سو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے گا، باقی ماندہ سو ارب ڈالر قوم کی جیب میں ڈالا جائے گا، پاکستان کے ہر فرد نے منہ چھپا لیا کہ مبادا منہ پر ڈالر لگنے سے چوٹ نہ لگ جائے، عوام پھولے نہ سماتے تھے کہ بس اب دن بدلنے ہی والے ہیں، مفت مہنگے اسپتالوں میں وی آئی پی علاج ہو گا، نجی اسکولوں کی لوٹ مار بند ہو جائے گی۔
سرکاری اسکولز اتنے شاندار ہونگے کہ نجی اسکولوں کا دھندہ ہی بند ہو جائے گا، بجلی مفت ملے گی، کھانے پینے کی خالص اور سستی اشیاء کی اتنی کثرت ہو گی کہ پاکستانیوں نے موٹاپے سے نمٹنے کی تدابیر گوگل پر سرچ کرنا شروع کر دیں، پچاس لاکھ گھر، ہر بے گھر نے اپنے اہلخانہ کے ساتھ گھریلو ڈیکوریشن کے لیے مشورے اور نئے ممکنہ گھر کا نقشہ تیار کرنا شروع کر دیا، تعلیم یافتہ، بیروزگار نوجوانوں کا سیروں خون بڑھ گیا کہ ایک کروڑ نوکریوں میں کہیں نہ کہیں ان کے لیے بھی جگہ نکل ہی آئے گی، مدت بعد ہم نے بھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا شروع کر دیے، پھر حکومت سازی شروع ہوئی۔ جہانگیر ترین کا طیارہ اڑانیں بھرنے لگا، وہ سیاستدان جو خان کی نظر میں قابل گردن زدنی تھے، انھیں طیارے میں بنی گالہ ڈھویا گیا، تب خان صاحب پر منکشف ہوا کہ یہ تو بہت ایماندار لوگ ہیں، وہ خواہ مخواہ بدگمانی فرما رہے تھے، ادھر اپوزیشن نے بھی لنگوٹ کس لیاکہ خان صاحب سلیکٹڈ ہیں، جلد از جلد انھیں چلتا کر کے ایک حقیقی جمہوری حکومت لائی جائے گی۔
ادھر حکومت سازی مکمل ہوئی، وزارت خزانہ پر اسد عمر متمکن ہوئے، وزارت عظمیٰ جناب خان خاناں عمران خان صاحب نے سنبھالی، پنجاب کے راجہ جدید دور کے شیر شاہ سوری اور کپتان کے وسیم اکرم پلس جناب عثمان بزدار قرار پائے، پھر مزید انکشاف ہوا کہ نواز شریف نے تو اندازے سے کہیں زیادہ ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، بس ہم ڈوبنے ہی والے تھے کہ خان صاحب آ گئے ورنہ ہماری پھولی ہوئی لاشیں پانی پر تیر رہی ہوتیں۔
کہا گیا کہ اسحاق ڈار نے دھوکے سے ڈالر کو ایک جگہ پر جکڑ رکھا تھا، 25 ارب روپے ایکسٹرا خرچ کر رکھے تھے، پھر اسد عمر نے محسوس کیاکہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر چارہ نہیں لیکن بے چارے ڈر گئے کہ ان کے اس اقدام سے خدانخوستہ ان کے لیڈر کی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے، کہیں وہ پنکھے سے نہ جھول جائیں اور تبدیلی کا خواب ادھوارا ہی نہ رہ جائے لہذا وہ چپ رہے، اس دوران عوام کی چیخیں اورکراہیں نکلنے لگیں، پھر خان صاحب پر ایک اور انکشاف ہوا کہ وہ اسد عمر جن کی زیارت پاکستانیوں کو بطور معیشت دان کرائی گئی وہ تو اکانومسٹ ہی نہیں ہیں لہذا فوری اور ہنگامی طور پر انھیں ہٹا کر آئی ایم ایف سے درخواست کی گئی کہ چونکہ کوئی ڈھنگ کا آدمی یہاں دستیاب نہیں ہے لہٰذٓا اس غریب اور بدحال قوم پر رحم فرماتے ہوئے چند ایسے معاشی ماہرین بھیج دیں جو ملک کی ڈوبتی ہوئی نائو کو بھنور سے نکال لیں۔
لہذا حفیظ شیخ اور رضاباقرصاحب جیسے معاشی بقراط جو آئی ایم ایف سے بھاری تنخواہیں لے رہے تھے، ان کی حب الوطنی جاگی اور انھوں نے نوکری پر لات ماری اور پاکستان کارخ کیا، جن کی شبانہ روز محنت کے شریں ثمرات اب عام آدمی تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں، تبدیلی آئی رے تبدیلی آئی رے۔ ایک روز اخبار میں گورنر اسٹیٹ بینک کا بیان پڑھاکہ آنے والے دنوں میں مہنگائی بڑھے گی، عین اسی خبرکے نیچے فردوس عاشق اعوان صاحبہ فرما رہی تھیں کہ مارچ میں مہنگائی بہت کم ہوجائے گی، اب آپ ہی بتائیں، آدمی کیا کرے۔
ادھر حکومت نے ڈالرکے ہاتھ پائوں کھول دیے، پھر ڈالر صاحب ہرن کی طرح قلانچیں بھرتے ہوئے یہ جا اوروہ جا۔ ڈارصاحب نے پچیس ارب روپے خرچ کرکے حکومت کے بقول اسے ایک جگہ باندھا ہواتھا، اس کے ساتھ ہی ہمارے غیرملکی قرضوں میں ہزاروں ارب کا اضافہ ہو گیا، بعد کی کہانی اشکوں، آہوں، افسوس، ووٹ اور سپورٹ کرنے کے پچھتاوں، بد دعائوں اور حکومت پر تبراء بازیوں سے عبارت ہے، لوگوں کوپتہ چلا کہ ان کے ساتھ ایک بارپھرہاتھ ہو گیاہے، تبدیلی کے نعرے، چور چور، ڈاکوڈاکو، نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں ملے گا، خودکشی کرلوں گا، سب جادوگریاں اورسیاسی نعرے تھیں۔
کرپشن کابیانیہ پٹ گیا، تبدیلی کاڈھول پھٹ گیا، اتنے یوٹرن لیے گئے کہ قوم کا سرہی گھوم گیا، نہ آگے کاپتہ رہانہ پیچھے ؎
یہ مشغلہ ہے کسی کانجانے کیا چاہے
نہ فاصلوں کو مٹائے نہ فیصلہ چاہے
مری بساط ہے کیا میں ہوں برگ آوارہ
اڑا کے مجھ کولے جائے جدھر ہوا چاہے
نوازشریف جو تمام فسادکی جڑ تھے، انھیں حکومت نے خود باہر بھجوایا۔ اب جتنازور انھیں بھیجنے پر لگا اتنا ہی انھیں واپس لانے کے لیے لگایا جارہا ہے۔ اﷲ ہی جانے کون بشر ہے۔ معیشت یوں چل رہی ہے جیسے قریب المرگ مریض کی نبض بقول منیر نیازی ؎
نجانے کون سے آسیب کا سایہ ہے بستی پر
کہ حرکت تیز ترہے اور سفر آہستہ آہستہ
میں ٹھہرا سیدھا سادا ٹھنڈے مزاج کا آدمی لیکن نہ جانے کیوں ہر عام پاکستانی کی طرح میرے لہجے میں بھی تلخی در آئی ہے بقول محسن نقوی ؎
برا نہ مان مرے حرف زہر زہر سہی
میں کیاکروں کہ یہی ذائقہ زبان کاہے
اب تو سرکار غریب غرباء کے حلق میں انگلی ڈال کر نوالہ بھی نکلوانے کے چکرمیں ہے، ایک مولانا صاحب کسی بچے کو گھر پر تجوید کے ساتھ قرآن پڑھاتے تھے۔ ایک دن بچے کی ماں نے حلوہ بنا کر مولانا صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ ایک مولانا اوپر سے سامنے حلوہ۔ ان کی رگ تجوید پھڑک اٹھی۔ بچے سے کہنے لگے "بیٹا پڑھو، حا سے حلوہ"۔ بچہ بولا "حا سے حلوہ"۔
مولانا صاحب نے فرمایا"ایسے نہیں بیٹا!حلق سے نکالو حلوہ۔" اتنے میں خاتون خانہ کی گھبرائی ہوئی آواز آئی "مولاناصاحب میں حلوہ اور بھیج دیتی ہوں، خدا کے لیے بچے کے حلق سے نہ نکلوائیے گا"۔ کیا کوئی کرتب باقی رہ گیاہے جو اب اس نادار، بھوکی، افلاس زدہ، غربت کی ماری اور فریب خوردہ قوم کو دیکھایا جا سکے۔ آپ ہی بتائیں، مجھے تو چکر آرہے ہیں۔