Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Latif Choudhry
  3. Kaam Acha Hai, Magar Zara Dekh Ke Chal

Kaam Acha Hai, Magar Zara Dekh Ke Chal

کام اچھا ہے، مگر ذرا دیکھ کے چل

بلاشبہ ہمارے دیس کو عالمی اور داخلی سطح پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت کی دشمنی، افغانستان کی احسان فراموشی اور امریکا کی بے حسی اور موقع پرستی نے پاکستان کے لیے کئی مسائل پیدا کررکھے ہیں۔ اندرون ملک دیکھا جائے تو مہنگائی نے درمیانے طبقے کو تقریباً قلاش کر دیا ہے۔

بے روزگاری نے ہمارے نوجوانوں کو تباہ برباد ی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ ذرا سوچیں جب کسی نوجوان کو اپنا حال اور مستقبل تاریک نظر آتاہے تو اس میں مایوسی، غصے اور جنون کے جذبات پیدا ہونا فطری بات ہے۔ اس کیفیت میں کچھ نوجوان چوری، راہ زنی اور ڈکیتی کا راستہ چن لیتے ہیں اور پھر ایک روز کسی پولیس مقابلے میں زندگی ختم کرا بیٹھتے ہیں۔ لیکن مایوس نوجوانوں کی اکثریت منشیات کی لت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں منشیات کے عادی نوجوان پارکوں، شاہراہوں اور اوورہیڈ بریجز کے نیچے غول درغول نظر آتے ہیں۔ یہ بدقسمت نوجوان فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، وہیں نشہ کرتے ہیں اور صبح اٹھ کر بھیک مانگتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کا اہم ترین ایشو منشیات کا کاروبار ہے۔ میرا یہ خیال تھا کہ شاید حکومت کو منشیات سے جنم لینے والے انسانی المیے کا علم نہیں ہے یا وہ خود اس مکروہ دھندے کی سرپرستی کر رہی ہے، لہٰذا نشے کے عادی نوجوانوں کی بحالی اس کا ہدف ہی نہیں ہے۔

گزشتہ روز میرے ایک پرانے دوست سے خاصی مدت کے بعد ملاقات ہوئی۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو اس کا تعارف کرادوں۔ اکمل اویسی پیرزادہ، کمال آدمی ہے۔ عاجزی اور خوش اخلاقی اورخوش کلامی اس کا وصف ہے۔ ہر وقت فلاحی کاموں میں مصروف رہتا ہے۔ تنظیم الفجر پاکستان کا بانی اور صدر ہے۔ اپنا یوٹیوب بھی چلاتے ہیں۔

ان سے گپ شپ کے دوران منشیات کے عادی نوجوان کے المیے پر بات شروع ہو گئی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، میں ذرا تلخ ہو جاتا ہوں، وجہ بھی آپ سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ یہاں منشیات کیسے آتی ہیں؟ کون وصول کرتا ہے، کون فروخت کرتا ہے؟ اور نشئیوں کے غول در غول دیکھتا ہوں توتلخ ہونا تو بنتا ہے۔

اصولًا موجودہ حالات میں ہمیں منشیات کے کاروبار خاتمے، نشے کے عادی مریضوں کی بحالی، شجرکاری، آرٹ اینڈ کلچر کے فروغ کی اشد ضرورت ہے۔ جب میں اس موڑ پر پہنچا تو اکمل اویسی بول پڑے اور کہا، چوہدری صاحب! یہ نہ سمجھیں کہ حکومت یا سول سوسائٹی کوئی کام نہیں کر رہی۔ انھوں نے چند حقائق میرے سامنے رکھے۔ اب ذرا ان کی زبانی یہ حقائق آپ بھی جان لیں، سچ جھوٹ کا میں ذمے دار نہیں۔ اویسی صاحب کے بقول ان تمام اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان کے نام سے ایک تنظیم کام کر رہی ہے۔

کثیرالجہتی اہداف ہیں۔ حکومت پنجاب نے تنظیم الفجر پاکستان کے صدر کی حیثیت سے مجھ خاکسار کو بھی صوبائی نارکوٹکس کنٹرول کمیٹی پنجاب کا ممبر نامزد کیا گیا ہے، اس کمیٹی کے سربراہ چیف سیکریٹری پنجاب ہیں جب کہ باقی تمام ڈیپارٹمنٹس کے سربراہ اس کمیٹی کے ممبر ہیں۔

میں یہ سن کر تھوڑا حیران ہو رہا تھا لیکن چپ رہا۔ دوست نے بات جاری رکھی، سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان نوجوانوں، خواتین، وکلاء، سیاستدانوں، دانشوروں، اساتذہ، ڈاکٹروں اور طلباء کا ملک گیر نیٹ ورک ہے، اس کا قیام 23مارچ 2013ء کو عمل میں آیا۔ اس کے اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک منظم نیٹ ورک قائم کیا گیا، جس میں خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان، سندھ، گلگت، بلتستان، آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں سول سائٹی نیٹ ورک کے عہدیدار نامزد اور دفاتر قائم کیے گئے۔

اس فلاحی نیٹ ورک کی پہلی قومی کانفرنس لاہور، دوسری اسلام آباد، تیسری ملتان زکریا یونیورسٹی، چوتھی پشاور یونیورسٹی میں ہوئی۔ اب پانچوں قومی کانفرنس بلوچستان کے کیپٹل سٹی کوئٹہ میں 20، 19 نومبر کو ہو رہی ہے جس میں ملک بھر سے اس فلاحی نیٹ ورک سے وابستہ وفود شریک ہوں گے۔ کانفرنس کے میزبان فضل محمد نورزئی ہیں۔ وہ سول سوسائٹی نیٹ ورک بلوچستان کے صدر اوررائٹ وے ٹریٹمنٹ کے سی ای او بھی ہیں۔

26جون منشیات کے خلاف عالمی دن کے حوالے سے پنجاب کے 36 اضلاع میں اس فلاحی نیٹ ورک نے واک، سیمینارز، کالجز میں آگاہی مہم چلائی اورکیمپ لگائے۔ ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ نے بھرپور تعاون کیا۔ نیٹ ورک کے کام کو منشیات کے خاتمے کے لیے اچھی کاوش سمجھ کر ہمارے وفد سے ملاقات ہوئی اور سول سوسائٹی کے ڈسٹرکٹ ممبران کو 8اگست کو ڈسٹرکٹ نارکوٹکس کنٹرول کمیٹی کا ممبر نامزد کیا۔ لاہور میں منشیات کے مریضوں کے علاج کے لیے سو بیڈز پر مشتمل اسپتال نے کام شروع کر دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں آگہی مہم جاری ہے۔

عزیز از جان دوستو! آپ نے بھی یہ دعوے اور باتیں پڑھ لی ہیں، میں تو خاموش رہنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں، کیونکہ مجھے تو اس وقت ہی یقین آئے گا جب میرا اپنا شہر لاہور کے فٹ پاتھوں پر نشے کے ٹیکے لگانے والے بدقسمت نوجوان نظر نہیں آئیں گے۔ لاہور کی سڑکوں کے کنارے گھنے، سر سبز اور بلند و بالا درخت نظر آئیں گے۔

جب مجھے متروکہ املاک اور مسلم اوقاف کی اراضی پر قبضے ختم ہوتے نظر آئیں گے۔ آپ خود بھی چیزوں کو سمجھتے ہیں، آپ ان پر یقین کریں یا نہ کریں، یہ آپ کی مرضی۔ بہرحال میں اپنے دوست سے صرف یہی کہوں گا، "کیری اون اکمل اویسی"۔ لیکن ذرا دھیان سے۔ آخر میں مرحوم قتیل شفائی ایک مشہور غزل جسے اقبال بانو نے اپنی مدھر آواز میں گا کر امر کردیا ہے، اس غزل کا ایک شعر سنا کر آپ سے رخصت چاہتا ہوں۔

الفت کی نئی منزل کو چلا، تو بانہیں ڈال کے بانہیں باہوں میں

دل توڑنے والے دیکھ کے چل، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

Check Also

Elon Musk Ka Vision

By Muhammad Saqib